اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس ( اے پی سی آر)نے پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کے دوران ہماچل پردیش میں ’مسلمانوں کے خلاف جاری نفرت انگیز مہم ‘ پر فیکٹ فائڈنگ رپورٹ جاری کی جس میں بھگواتنظیموں ،حکومت اور پولیس کے کردارپر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ اے پی سی آر کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں سماجی کارکن اور اے پی سی آر کے قومی سیکریٹری ندیم خان، صحافی سرشتی جیسوال اور کوشک راج شامل تھے جنہوں نے حالیہ دنوں میں ہماچل پردیش کے سنجولی ،سولن ،پالم پور ،منڈی اور دیگر علاقوں کا دورہ کیا تھا جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کے تحت ان کوریاست بدر کرنے کے لئے مسلسل مظاہرہ ہو رہے ہیں۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرنے کے موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن ،سنجے ہیگڑے،پلاننگ کمیشن کی سابق ممبر ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید ،شملہ کے سابق میئر تکندر پنور موجود تھے ۔
اے پی سی آر کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے صحافیوں کو بتایا کہ بھگواتنظیموں نے سنجولی کی مسجد پر تنازع شروع کرکے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بھڑکانے کا کام کیا ہے ۔اس تشدد میں کئی مسلمانوں کے ساتھ مارپیٹ کرکے ان کی دکانیں لوٹی گئیں، وہاں چھوٹے مسلم دکانداروں کااس قدر استحصال کیا گیا کہ وہ اب ہماچل چھوڑنے پر مجبور ہوگئےہیں۔ وہیں بھگواتنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کو ان کی دکانیں خالی کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے بتایا کہ جب ہم لوگ ہماچل پہنچے تو وہاں کے مسلمان کافی ڈرے ہوئے تھے۔کوئی کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں تھاکیونکہ انہیں ڈر تھا کہ میڈیا ان کی بات کوتور مروڑ کر پیش کردے گا ۔ٹیم نے بتایا کہ ہم نے ۲۵؍ افراد سے بات کی۔ ان میں سے صرف ۲؍ ہی لوگ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے کے لئے راضی ہوئے ۔
ٹیم کے مطابق اس در میان ہندو جاگرن نامی ہندو انتہاء پسند تنظیم کے ایک لیڈر کمل گوتم نے اپنے سوشل میڈیا اکاوئنٹ پر ہماری فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے دو ممبران کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ’ یہ دہشت گرد ہیں ،جو ہماچل میں غلط ارادہ سے آئے ہیں،پولیس ان کے خلاف کارروائی کرے ۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس نے ہماری تصویر کب لے لی۔یہ پوسٹ وائرل ہوگئی ہے اور پولیس نےہم سے پوچھ گچھ کی۔ اس طرح کی پوسٹ کرنے کے معاملہ میں ہم نے بھی شکایت درج کروائی لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیںہوئی ۔
ٹیم نے بتایا کہ سولن میں انتہا پسند تنظیموں کی ریلی ہوئی۔اس درمیان مسلمانوں کی دکانوں پر ’ ریڈ کراس‘ نشان لگادیا گیا ۔اسی طرح ایک اور تنظیم نے مسلمانوں کے ’ بائیکاٹ ‘ کے پمفلٹ اپنے نام کے ساتھ تقسیم کئے لیکن پولیس اور انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی ۔ یہ ریلیاں انتظامیہ کی مکمل ناکامی ہیں۔ ٹیم کے مطابق پولیس اور انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوتا رہا ہے اور وہ کسی کو گرفتار تک نہیں کر پائی ۔ٹیم ممبران نے بتایا کہ سنجولی کے بعد ہم پالم پور گئے وہاں ۴۰؍ سال سے ایک کشمیری بزرگ شخص اپنی ڈرائی فروٹ کی دکان چلا رہے تھے ،انتہاء پسندوں نے ان کی دکان توڑ دی،ساتھ ہی ان کے بھائی جو سبزی فروخت کرتے تھے ،ان کے ساتھ اس قدرمار پیٹ کی کہ وہ اب ہماچل چھوڑ کر کشمیر چلے گئے ہیں ۔وہ بزرگ بھی اب ہماچل چھوڑنے کی بات کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ہماچل اپنا نہیں لگتا ۔حالانکہ وہاں کے مقامی لوگوں نے ان کو دلاسہ دیا جس کے بعد انہوں نے اپنی دکان دبارہ شروع کی ہے ۔ٹیم نے بتایا کہ پالم پور میں پولیس نے باہر ی لوگوں کے لئے ویری فکیشن مہم شروع کی ہے جس کے تحت باہری لوگوں کے آدھار کارڈ کی فوٹو کاپی جمع کی جارہی ہے ۔ٹیم نے بتایا کہ ہماچل میں جو کچھ بھی گزشتہ دو ماہ سے ہورہا ہے وہ انتظامیہ، پولیس اور حکومت کی مکمل ناکامی ہے کیوں کہ یہ سب یا تو ان کی زیر سرپرستی ہو رہا ہے یا پھر انہیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس موقع پر پرشانت بھوشن نے کہاکہ پہاڑوں کے شہر میں یہ نفرت کی بیماری آر ایس ایس نے پھیلائی ہےلیکن کانگریس بھی اس بیماری سے اچھوتی نہیں ہے ۔جو لوگ ہماچل میںباہمی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہے ہیں راہل گاندھی کو ان کو فوری طور پر پارٹی سے باہر کریں ۔ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے کہاکہ جب میں پلاننگ کمیشن کی ممبر تھی تو اس میں مجھے ہماچل کی بھی ذمہ داری دی تھی لیکن یہ وہ ہماچل نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔سنجے ہیکڑے اور تکندر پنور نے بھی ہماچل کی موجودہ صوتحال پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ خوبصورت ریاست ہماچل کو آج کیا سے کیابنا دیا گیا ہے ۔