شمسی یا عیسوی کیلنڈر کے اعتبار سے نیا سال جنوری میں شروع ہوتا ہے، اس موقع پر حد اعتدال سے بہت زیادہ نکلا ہوا رویہ دیکھنے میں آتا ہے، شخصی، سماجی بلکہ بعض جگہ حکومتی سطح پر بھی ایک طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ دیکھنے اور سننے میں آتا ہے، اور رد عمل میں دین کی گہری سمجھ نہ رکھنے والوں کی طرف سے بھی نا مناسب بات سامنے آجاتی ہے۔ ذیل کی سطروں میں مختصر طور پر معتدل طریقہ کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ اسلام کا افراط و تفریط سے پاک نقطۂ نظر سامنے آجائے۔
دنیا میں سب سے زیادہ رائج دو کیلنڈر ہیں، ایک عیسوی یا شمسی کیلنڈر، دوسرا ہجری یا قمری کیلنڈر۔ عیسوی کیلنڈر کو عیسوی اس لئے کہتے ہیں کہ اس کیلنڈر کا پہلا سال سیدنا حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت کے سال کو قرار دیا گیا ہے، اور اسے شمسی اس لئے کہتے ہیں کہ شمس یعنی سورج کی نقل و حرکت کے اعتبار سے اس کیلنڈر کے دن و مہینہ متعین کئے گئے ہیں۔ ہجری کیلنڈر کو ہجری کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کا پہلا سال سید الاولین و الآخرین محمد عربی ﷺ کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کئے جانے والے سال کو قرار دیا گیا ہے۔ اور قمری کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کیلنڈر کے دن و مہینے چاند کی نقل و حرکت سے وابستہ ہیں۔
اوپر کی مختصر وضاحت سے ان دونوں کیلنڈر کے زیادہ رائج ہونے کی ایک ظاہری وجہ بھی سامنے آگئی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا میں تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ عیسائی ہیں، اور عیسوی کیلنڈر کا تعلق سیدنا حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی پیدائش سے ہے، اور چونکہ آبادی کے اعتبار سے عیسائیوں کے بعد سب سے زیادہ اسلام کے پیروکار ہیں، اور ہجری کیلنڈر سے بہت ساری اسلامی عبادتیں جڑی ہیں، مزید یہ کہ ہجری کیلنڈر کا تعلق جناب محمد رسول اللہ ﷺکی مبارک ذات سے ہے۔
*نا مناسب طرز عمل*
عیسوی سال کے شروع ہونے پر بہت سی ایسی بیہودگیوں اور خرافات کو انسانوں کی ایک تعداد نے اپنا معمول بنا لیا ہے، جن کی اجازت شریعت تو کجا ا ذہنی طور پر صحت مند کوئی معاشرہ بھی نہیں دے سکتا ہے، ان خرافات کے بارے میں تو بس یہی ہے کہ ان کی قطعا ًاجازت نہیں ہے اور ان سے رکنا ضروری ہے۔
البتہ عیسوی سال کے شروع ہونے کے موقع پر زیادہ کثرت سے اور ہجری سال کی ابتدا پر اس کثرت سے تو نہیں؛ لیکن پھر بھی، لوگوں کا ایک دوسرے کو مبارک باد اور دعائیں دینے کا معمول ہو گیا ہے ، اگر اسے ضروری اور دین کا حصہ سمجھ کر ، اور مستقل معمول بنا کر نہ کیا جاتا ہو ، تو اسے بدعت تو نہیں کہہ سکتے ہیں؛ لیکن پھر بھی لغو اور لا یعنی کام ضرور ہے۔ اور لغو کام سے بچنا ایک سچے مومن؛ بلکہ سمجھدار انسان کے لئے ضروری ہے۔ یہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
یہ دعا دینے کے لئے کہ "اللہ عزوجل آپ کو اچھا رکھے، آپ کے مستقبل کو دین و دنیا کے اعتبار سے بہتر بنائے"، ہجری یا عیسوی سال کے شروع ہونے کا انتظار کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، یہ دعا تو خود اپنے لیے اور باہم ایک دوسرے کے لیےہمیشہ کرتے رہنا چاہئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بعض لوگوں کو یہ کہتے اور پیغام بھیجتے بھی دیکھا اور سنا ہے کہ "ہمیں جنوری پر نئے سال کی مبارک باد نہ دی جائے؛ بلکہ محرم پر دیا جائے؛ کیوں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا سال ہجری سال ہے، جو محرم سے شروع ہوتا ہے"۔ یہ کہنا اور پیغام بھیجنا خلوص پر ہی مبنی ہوتا ہوگا؛ لیکن دو وجہ سے یہ بھی نا مناسب ہی بات ہے: ایک وجہ تو وہی ہے، جس کا ذکر اوپر آیا کہ جب باہم ایک دوسرے کے لئے مبارک باد یا دعا کے لئے شریعت نے نئے سال کی ابتدا کو کوئی خاص موقع قرار نہیں دیا ہے؛ لہذا دین سمجھ کر ایسا کرنا، یا معمول بناکر ایسا کرنا، خواہ محرم کے شروع پر ہی کیوں نہ ہو بدعت ہے اور گمراہی کا سبب ہے، دوسرے یہ کہ یقیناً اسلام میں قمری مہینے کی زیادہ اہمیت ہے، اس اعتبار سے کہ رمضان کے روزے، عید الفطر و عید الاضحی کی تعیین، حج کے ایام ، اور زکوة کے حساب کتاب کا تعلق قمری مہینوں سے ہے اور قمری یا ہجری کیلنڈر کی نسبت آپ ﷺ سے بھی ہے؛ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس طرح قمر یعنی چاند– جس سے قمری کیلنڈر کا حساب کتاب ہوتا ہے– اللہ عزوجل کا ہے، ویسے ہی شمس یعنی سورج، جس سے عیسوی کیلنڈر کا حساب ہوتا ہے، وہ بھی اللہ عزوجل ہی کا ہے، اور قرآن و سنت کے متعدد نصوص سے پتا چلتا ہے کہ یہ دونوں- سورج و چاند- اللہ عزوجل کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہذا سال اور کیلنڈر چاند سے وابستہ ہو یا سورج سے ، دونوں ہمارے ہیں، ہاں! اہمیت کے اعتبار سے دونوں میں اوپر ذکر کئے گئے اسباب کی وجہ سے فرق ضرور ہے، اوراس وجہ سے بھی کہ بہ حیثیت مسلمان ہم امتی تو جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے ہیں؛ لیکن اُن پر ایمان کے ساتھ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام اور تمام انبیاء سابقین پر بھی ہمارا ایمان ہے؛ لہذا حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے وابستہ کیلنڈر یقینا ہمارا بھی ہے۔
*کرنے کے کام*
البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہجری کیلنڈر کے تئیں ہم مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں، مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے، جنہیں ہجری کیلنڈر کے مہینے کے نام تک بھی یاد نہیں ہیں، تاریخ جاننا تو بہت دور کی بات ہے۔
حالانکہ اسلام کی بہت ساری عبادتیں ہجری کیلنڈر سے وابستہ ہیں، جیسے ہم پر رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھنا فرض ہے، جو ہجری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے، رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف ہے، شوال جو ہجری کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے، اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے، ذی الحجہ جو ہجری کیلنڈر کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے، اس میں آٹھ سے بارہ یا تیرہ تاریخ تک حج ہوتا ہے، دس سے بارہ تک عید قرباں ہوتی ہے، ہر ہجری مہینے کے تین دن "تیرہ، چودہ اور پندرہ" تاریخوں میں روزہ رکھنا مسنون عمل ہے، محرم کے مہینے میں جو ہجری کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے، نو اوردس، یا دس اور گیارہ تاریخ کو روزہ رکھنا مسنون ہے۔ چار مہینے ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب خصوصی احترام اور احکام والے مہینے ہیں۔ ان کے علاوہ زکوة کے حساب کتاب میں، عورتوں کی عدت کے معاملے کے تصفیہ میں بھی ہجری یا قمری کیلنڈر کی ضرورت پڑتی ہے۔ چونکہ اتنے سارے اسلامی احکامات ہجری سال اور کیلنڈر سے جڑے ہیں؛ اسی لئے اس کو اسلامی سال اور کیلنڈر بھی کہتے ہیں؛ اس معنی میں نہیں کہتے ہیں کہ اور دوسرے سارے کیلنڈر غیر اسلامی ہیں۔
بہرحال ہجری کیلنڈر سے واقفیت اور ان کی تاریخوں کو جاننے کی طرف متوجہ رہنا ہر مسلمان مرد و عورت پر ضروری ہے، اور اس کیلنڈر سے ناواقفیت کی وجہ سے شرعی کسی حکم کی پامالی پر دوہرا گناہ ہوسکتا ہے، ایک تو حکم کی پامالی کا گناہ اور دوسرا ہجری کیلنڈر کے نہ جاننے کا، جو کہ شعائر دین میں سے ہے۔
فقہی نقطہ نظر سے اکثر علماء کی رائے کے مطابق قمری مہینوں اور ہجری کیلنڈر سے واقفیت فرض کفایہ ہے، کہ ہر مسلم سماج میں ایک جماعت اس کو جاننے والی اور اس کا اہتمام کرنے والی ضرور ہونی چاہئے، تاکہ اسلامی احکامات اپنے متعین وقت پر بجا لائے جا سکیں، فرض کفایہ میں اسلامی مزاج یہ ہے کہ ہر شخص کی یہ رغبت ہونی چاہئے کہ ہم اور ہمارے ساتھ ایک معتدبہ تعداد اس ذمہ داری کو اٹھا لیں، یہ نہیں کہ ہر شخص یہ سوچے کہ میرے علاوہ دوسرے لوگ کر لیں گے، یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور نتیجے کے اعتبار سے پورے سماج کو گنہگار اور مجرم بنانے والا طرز عمل ہے۔
قمری تاریخوں اور ہجری کیلنڈر کو فروغ دینا ایک ملی فریضہ ہے، اس کے لئے یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ ہم بچوں کو باضابطہ اسے سکھائیں، بہ حیثیت معلم ، میں نے بہت سارے اونچی جماعتوں کے طلبہ کو بھی دیکھا کہ انہیں اس بارے میں کچھ بھی پتا نہیں، یہ ہم سرپرستوں اور اساتذہ کی مجرمانہ غفلت ہے، اس کا دوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات زیادہ تر اسی کیلنڈر کے مطابق طے کریں ۔
ہاں، یہ ذہن میں رہے کہ شمسی مہینے اور عیسوی کیلنڈر کی تاریخیں بالکل متعین اور طے ہوتی ہیں، چنانچہ اس کیلنڈر سے سفر وغیرہ کی بکنگ یا اس جیسے معاملات میں زیادہ وضاحت رہتی ہے؛ اس لئے ان جیسی سہولیات کے حصول کے لئے شمسی کیلنڈر سے معاملہ میں بھی یقینا شرعی کوئی حرج نہیں ہے۔
آج کل بعض ایپ بھی ایسے ہیں ، جن میں صحیح قمری تاریخ رہتی ہے، اور چاند کے انتیس یا تیس کے ہونے پر ہر ماہ کے شروع میں اس کو اپڈیٹ کیا جاتا ہے، عربی و اردو کے مختلف ایپ استعمال کرنے کے بعد قمری تاریخوں کے حوالہ سے اب تک کےمیرے تجربہ کے مطابق سب سے اچھا ایپ "کشکول اردو " لگا۔
اخیر میں ایک مصلحت کی طرف اشارہ یقینا ًدلچسپ ہوگا کہ آخر جب شمسی کیلنڈر بالکل متعین ہوتا ہے، تو اسے چھوڑ کر قمری کیلنڈر پر کیوں شرعی احکامات کا مدار رکھا گیا ہے؟ جو کیلنڈر چاند کے انتیس یا تیس کے نکلنے کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے۔ اس کے پیچھے دو حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں: ایک تو یہ کہ دنیا کے بعض خطوں میں چھ مہینے سورج نکلا اور چھ مہینے ڈوبا رہتا ہے، لیکن وہاں بھی چاند نارمل دنیا کی طرح نکلتا اور ڈوبتا رہتا ہے، آج ٹیکنالوجی کا دور ہے، جس میں آلات کے ذریعے کیلکولیشن کر کے شمسی تاریخ وہاں بھی متعین کر دی جاتی ہے؛ لیکن پہلے اس کا حساب آسان نہیں تھا؛ لیکن چاند کے معمول کے مطابق نکلنے اور ڈوبنے کی وجہ سے چاند سے حساب ان جیسے مقامات پر رہنے والوں کے لیے بھی ممکن تھا، اور یہ دین تو پورے عالم کا ہے اور ہر عام و خاص کاہے۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو چوکنا رکھنا چاہتا ہے، اگر مسلمان اپنے اکثر معاملات قمری کیلنڈر سے کرنے لگیں، تو چاند کے انتیس یا تیس کے ہونے کی وجہ سے معاملات پر پڑنے والے فرق کے سلسلے میں چوکنا اور بیدار رہنا ہوگا، نیز یہ کہ عید وغیرہ کی خوشی متعین دن کے مقابلے میں چاند کی وجہ سے آگے پیچھے ہونے کی صورت میں دوبالا ہوجاتی ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں