ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت، عرب وعجم کے ایک مایہ ناز عالم دین اور ہم سب کے استاذ گرامی حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
ستارے ٹوٹتے رہتے ہیں روز وشب لیکن
غضب تو یہ ہے کہ آج آفتاب ٹوٹا ہے
یوں تو حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کے علمی، ادبی اور سماجی کارناموں پر بہت سے قلم کار خامہ فرسائی کریں گے، مگر میں اپنے استاذ گرامی حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی ہمہ گیر شخصیت کے ذاتی اوصاف وکمالات پر ہلکی سی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ حضرت والا کی ذات کئی اعلی اخلاقی اقدار کا گلدستہ تھی۔ سارے کا احاطہ ممکن نہیں اس لئے انکے زہد وتقوی، امانت ودیانت، اخلاق و کردار اور انکی شیریں کلامی اور خوش گفتاری پر ہی چند الفاظ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
استاذ گرامی حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو انکا زہد وتقوی تھا۔ آپ جس گھرانہ حسنی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس خاندان کی شہرت نہ صرف یہ کہ ہندوستان بلکہ باہر کے ممالک میں بھی تھی، آپ کے مریدین میں بڑے بڑے سرمایہ دار، اعلی عہدوں پر فائز حضرات اور متمول افراد شامل تھے۔ مگر آپ نے کبھی بھی حسنی خاندان کانام، یا دارالعلوم ندوہ العلماء کا بینر، یا آل انڈیامسلم پرسنل لاٗ بورڈ کا عہدہ اپنی ذاتی منفعت کے لئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ بلکہ نہ صرف خود بلکہ اپنے تمام اہل وعیال کو بھی قناعت والی زندگی گزارنے پر آمادہ کیا اور فقر ودرویشی کی زندگی گزاری۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردہ سے انسان نکلتے ہیں
ندوہ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی 1949 میں ندوہ سے بحیثیت مدرس منسلک ہوئے اور بلا توقف تقریبا تہتر سال اس عظیم ادارہ میں کئی اعلی مناصب پر فائز رہے اور مولانا علی میاں ؒ کے بعد ندوہ کی نظامت کے عہدہ کو سنبھالااور بائیس سال تک ناظم کی حیثیت سے اس کی خدمت کی، ندوہ میں تہتر سالہ خدمت کے دوران کبھی بھی کسی قسم کی خیانت یا بدعنوانی کا کوئی شائبہ بھی محسوس نہیں کیا گیا۔
استاذ گرامی قدر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی شخصیت ایسی تھی کہ کوئی بھی ان سے ملنے کے بعد انکا گرویدہ اور فریفتہ ہوجاتا اور انکے اعلی اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتا۔ جب میں ندوہ سے فارغ ہوا تو میں اپنی ڈگری لینے کے لئے ندوہ کے دفتر اہتمام پہونچا۔ مجھے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لینا تھا۔ وقت کم تھا اور ڈگری لینا ناگزیر تھا۔ ہزار کوششوں کے باوجود دفتر اہتمام نے مجھے ڈگری جاری نہ کی۔ میں سخت غصہ میں حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی خدمت میں حاضر ہوااور ان سے بڑے سخت انداز میں بات کی۔ حضرت نے پوری توجہ کے ساتھ میری پوری بات سنی اور دفتر اہتمام سے مجھے ڈگری حاصل کرنے میں تعاون فرمایا۔ اگر آپ کی جگہ پر کوئی اور استاذ ہوتا تو وہ مجھے یا تو مہتمم صاحب کے پاس بھیج دیتا یا دفتر اہتمام سے مراجعت کرنے کو کہتا۔ مگر استاذ گرامی نے میرے سخت الفاظ کے باوجود نہ صرف میری مدد کی بلکہ اپنی خوش اخلاقی سے میرا بھی دل جیت لیا۔
حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کی ایک خوبی انکے زبان کی حلاوت اور مٹھاس تھی۔ لکھنو کی ٹکسالی زبان میں جو کچھ بھی بولتے۔ سننے والے کے دل پر اس کا گہرا اثر ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ جب دارالعلوم ندوہ العلماء کے استاذ تھے یا عہدہ نظامت پر فائز تھے، کوئی بھی بلا جھجھک آپ کے پاس جاتا اور اپنی بات اور مدعا کہنے میں تردد محسوس نہ کرتا۔
جواب دیں