ابو عبداللہ آپ کی کنیت تھی ، والد کانام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا ، خطہ حبش جسے آج کل ملک ایتھوپیا کہا جاتا ہے وہاں کے رہنے والے تھے ، آپ کا خاندان وہاں سے ہجرت کرکے مکہ میں آباد ہواتھا ، آپ مکہ میں پیدا ہوئے ، قبول اسلام کا واقعہ : قریش کا ایک نامور سردار امیہ بن خلف جو اسلام کا سخت ترین دشمن تھا ، اس کے غلاموں میں حضرت بلال بن رباح بھی تھے ، روایات کے مطابق یوں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رات کے وقت کسی کے کراہنے کی آوازسنی ، اور ساتھ میں چکی بھی پیسی جارہی تھی ، آپ بیدار ہوئے دیکھا کہ ایک غلام چکی پیس رہا ہے ، ساتھ میں دردو کرب سے چلا بھی رہا ہے ، آپ کے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ سخت بخار میں مبتلا ہے ، اگر وہ یونہی یہ دانے پیسنے سے رہ گیا اور سو گیا تو اس کا آقا کوڑوں سے اس کی پٹائی کرے گا ، ساتھ میں اس نے یہ شکوہ بھی کیا کہ لوگ آتے ہیں ، پوچھ کرچلے جاتے ہیں بس کوئی ٹہرتا نہیں ہے ، آپ ﷺ گھر سے اس کے لئے گرم دودھ کا پیالا لے کر آئے اور اسے دودھ پلایا ،اور اس کو سلادیا ، اور آپ ساری رات چکی پیستے رہے ، آپ ﷺ نے مسلسل ۱۱ دنوں تک چکی پیسی ، تب اس غلام نے پوچھا کہ اے بھلے مانس تو کون ہے ، آپﷺ نے اپنا تعارف کروایا ، اور اسلامی تعلیمات سے تفصیلی آگاہی دی ، تو اس نے فورا اسلام قبول کرلیا اور حضرت بلال بن گئے ، یہ اسلام کے ابتدائی ایام تھے ، بمشکل چھ ساتھ لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے ، آپ ﷺ نے انہیں اسلام چھپانے کے لئے کہا ، لیکن کسی طرح یہ بات امیہ بن خلف کو معلوم ہوگئی ، پہلے ڈرایا دھمکایا ، تو نے اپنے خداوں سے منہ موڑ لیا ہے، تجھے اس طرح نہ چھوڑوں گا ، حضرت بلال کا ایمان جاگ اٹھا ، انہوں نے بڑی دلیری سے کہا ہاں ! میں محمد ﷺ پر ایمان لاچکاہوں ، میں ہر گز ایمان کو چھوڑ کر اس طرح پھر نہیں سکتا ، اس کے بعد امیہ بن خلف نے حضرت بلال پر وہ ظلم کے پہاڑ توڑے ، انہیں تپتی ریت پر پیٹھ کے بل گھسیٹا گیا ، ان پر مکہ کے آوارہ لڑکوں کو چھوڑاگیا ، حضرت بلال لمحہ بھر کو ٹس سے مس نہ ہوئے ، اللہ اللہ کیا ایمان پایا ہوگا ، یہ ان کی دین سے محبت اور نبی کریم ﷺ سے والہانہ عشق و محبت کا نتیجہ بھی ہے، ثبوت بھی ہے ، جب نبی کریم ﷺ کو یہ خبر ملی کہ بلال پرظلم ڈھائے جارہے ہیں ، آپ فورا تڑپ اٹھے ، ابوبکر صدیق ؓ سے کہا جائو ابوبکر ! بلال کو اس سے آزاد کرادو ، حضرت ابو بکر نے امیہ بن خلف سے کہا اس معصوم بندے کو چھوڑ دو ، میں اسے خریدنا چاہتاہوں ، امیہ بن خلف نے تین گنی قیمت لگائی ، آپ چپ چاپ قیمت دے کر امیہ بن خلف سے آزاد کروایا اور پھر آپ محمد ﷺ کی سلامتی میں آگئے۔
چمک اٹھا جو ستارہ مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھاکر حجاز میں لایا
ہوئی اسی سے تیرے غمکدہ کی آبادی
تیری غلامی کے صدقے ہزارآزادی
آپ اصحاب صفہ میں سے بھی ہیں ، آپ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ چمٹ کر رہتے تھے ، آپ کا نبی کریم ﷺ سے پیار کرنا ثابت ہوتا ہے کہ آپ نبی تھے ، اور اللہ کے رسول تھے ، مگر نبی کریم ﷺ سے آپ کا عشق واجب لگتا ہے ، اللہ کے رسول کا آپ سے عشق یہ کمال ہے
ایک مرتبہ ابوذر غفاری ؓ نے کالی ماں اور کالے باپ کا بیٹا کہا ،کسی طرح سے یہ بات نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئی ، آپ نے فورا ابوذر غفاری کو طلب کیا اور کہا کہ ان سے معافی مانگو ، ابوذر غفاری صحابی رسول تھے ، آپ نے فورا اپنے آپ کو لٹادیا ، اور کہا کہ بلال ! لو بندہ حاضر ہے ، مگر حضرت بلال نے آپ کو نیچھے سے اٹھایا ، پیشانی پر بوسہ دیا ، اور گلے سے لگایا
آپ عمر بھر نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہنا چاہتے تھے آپ کو خزانچی رسول ﷺ بھی کہا جاتاہے ، عمر بھر ساتھ رہنے کا خواب پورانہ ہوسکا ، سن ۱۱ ہجری میں نبی کریم ﷺ کے وصال کا سانحہ پیش آیا ، تو آپ غمگین اور دلبرداشتہ ہوگئے ، آذان دینی بند کردی ، اسلامی لشکر کے ساتھ دمشق شام چلے آئے ، دمشق میں ہی ایک رات آپ نے خواب دیکھا کہ نبی کریم ﷺ فرمارہے ہیں کہ بلال تم کہاں ہو ! ہم سے ملاقات کرنے بھی نہیں آئے ؟ ہمیں بھول گئے کیا ؟ آپ فورا نیند سے بیدار ہوئے ، مدینہ کارخ کیا ، روضہ رسول کی زیارت کی ، مدینہ والوں نے آپ کو بہت عزت دی ، نبی کریم ﷺ کے نواسے حسن حسین نے آپ کو آذان دینے فرمائش کی ، آپ ان کو بہت پیارکرتے تھے ، آپ ناں نہ کہہ سکے ، آذان دینی شروع کی ، دوسری شہادت پر حسب عادت منبر پر نظر دوڑائی ، حضور کو نہ پایا تو بے ہوش ہوگئے ، صدائے بلال جہاں جہاں پہونچی دورہ نبوت کے مناظر تازہ ہوگئے ، مردو زن آنکھوں میں آنسو لے کر مسجد نبوی کی طرف چلے آرہے تھے ، ۲۰ محرم ہجرت کے بیسویں سال یہ ستارہ دمشق کے محلہ باب الصغیر میں دفن ہوا ، اللہ آپ کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں