لیکن نہیں نہیں ، حضرت مولانا ؒ کی شخصیت اتنی ذو د فراموش نہیں کہ انہیں اتنی آسانی سے بھلایا جاسکے ۔ آپؒ کی دینی وعلمی خدمات ، آپؒ کا اخلاص او راپنا پن ، آپؒ کے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
مولانا ممدوحؒ کی پیدائش ضلع رائے گڈھ کے مہند ڑی گاؤں میں ۱۹۳۲ ء میں ہوئی ۔ آپ ؒ کے سلف صالحین کم وبیش چار سو سال پہلے یمن سے ہندوستان آئے ۔ اورنگ زیب عالمگیر ؒ کا زمانہ تھا۔ تین بھائی ہندوستان آئے جنہوں نے بیجاپور کو اپنا مسکن بنایا جن میں سے ایک بھائی گجرات کے شہر سورت چلے گئے۔ بیجاپور میں مقیم ایک بھائی کے نسل در نسل اب بھی موجودہے۔
تیسرے بھائی سید علی صاحب نظیر کی کوکن میں آمد ہوئی اس لیے کہ اس وقت کے وہاں کے نواب حضرت کے مرید تھے۔ اپنے مرشد کو اپنے ساتھ کوکن لے آئے اور مروڑ حنجرہ کے پاس کے علاقہ میں انہیں بسادیا ۔ اللہ کی شان کہ عالمگیرؒ مہاراشٹر کے ہی ایک قلعہ کی بازیابی کے سلسلہ میں نواب صاحب سے اعانت طلب کی ۔ نواب صاحب نے عالمگیرؒ جیسے خداترس اور دور اندیش بادشاہ کی مدد کردینے کو اپنے لیے سعادت سمجھا ۔ نواب صاحب نے اپنی فوج کو بھیجا اور فوج کے ساتھ اپنے مرشد کو بھی روانہ کیا جو ہر وقت قلعے کی فتح یابی کی دعائیں مانگتے تھے۔ اللہ کے حکم سے قلعہ فتح ہوا۔ اس موقع پر عالمگیرؒ نے نواب صاحب سے اپنے مرشد کو ساتھ لے کر دہلی آنے کی درخواست کی۔ بادشاہ سلامت نے انعام میں مرشد کی خدمت میں بارہ گاؤں لکھ کر دے دئیے لیکن حضرت کو دنیا سے ، مال ومتاح سے رغبت کب تھی آپ نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ اللہ کی دین کہ اگلی چھ پیڑھی تک اولاد نرینہ ہوتی رہی۔ چھٹی پیڑھی میں پوتے سید عمر صاحب نظیر کو آٹھ بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔ نواب صاحب نے انہیں مہندڑی میں تین منزلہ عمارت بناکر وہاں بسایا ۔ سید عمر صاحب کے آٹھ بیٹوں میں سے تین لا ولد رہے اور آ ج جو نسل ہے وہ ان کے پانچ بیٹوں کی اولاد ہے جس میں سے ایک بیٹے سید عبدالغفور صاحب نظیر کی اولاد میں سے مولانا شوکت علی صاحب نظیرؒ ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جب عربوں کی آمد شروع ہوئی تو ساحلی پٹی کے مختلف علاقوں کو اپنا تجارتی وتبلیغی مقر بنایا جس میں بھٹکل ، کوکن ، گجرات ، مالابار قابلِ ذکر ہیں جو اہلِ نوائط کہلاتے ہیں۔
آپ کی ابتدائی تعلیم مہندڑی کے ایک اسکول میں ہوئی ۔ اس وقت اسکول کی تعلیم کا نظام اسوقت چوتھی جماعت تک ہوتا تھا جس میں عصری تعلیم کے ساتھ قرآن اور ابتدائی دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی ۔ بعدِ ازاں ضلع سورت کے راندیر کے مدرسۂ حسینیہ میں آپ کا داخلہ ہوا۔ آپ کو مولوی بنانے میں سب سے زیادہ دخل آپ کے استاد سید علی صاحب نظیر کا ہے۔آپؒ سے قبل نظیر خاندان میں دو علماء تھے اور مزید تین جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں زیر تعلیم بھی تھے۔ آپؒ کے استاد مذکورہ آپؒ کو بھی عالمِ دین کی ہی روپ میں ہی دیکھنا چاہ رہے تھے۔
آپؒ راندیر سے چند وجوہات کی بنا پر احمد آباد چلے گئے۔ احمد آباد سے دیوبند چلے گئے اور دیوبند سے آپؒ نے عا لمیت مکمل کرلی۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ حسین احمد مدنیؒ سے آپؒ نے بخاری شریف کادرس پورا کیا ۔ حضرت مولانا ابراہیم بلیاویؒ جیسے کوہِ علم سے آپؒ نے مسلم شریف سیکھی۔ مولانا اعجاز علی ؒ جیسے ماہرِ ادب سے (جنکی گھٹی میں گویا ایک بحرِ ادبیات موجزن تھا)آپؒ نے فن ادب سیکھا۔ امیرِ شریعت حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ؒ آپؒ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ ام المدارس سے فراغت کے بعد آپؒ اپنے وطن لوٹے ۔ ممبئی حاجی مسافر خانے کی قرب میں بنگالی پورہ کی مسجد میں آپ نے امامت کی۔ اسی دوران جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے مہتمم حضرت مولانا سعید احمد بزرگؒ کے اصرار پر ڈابھیل تشریف لے گئے اور وہاں اپنے انوارِ علم کی نوری کرنیں بکھیرتے رہے۔ بعدِ ازاں ممبئی واپس آئے تو محمدیہ اسکول میں اردو اور دینیات کی تعلیم کے لیے آپؒ کا تقرر ہوا ۔ یہ مدرسہ بھنڈی بازار نواب مسجد اسٹریٹ (باپو حجام محلہ ) جو کہ ایک زمانہ میں بھٹکلیوں کا گڈھ تھا وہاں واقع ہے۔ اس محلہ نے نوائطی زبان کی روانی چاشنی ایک لمبے عرصہ تک اپنے اندر جذب کی ہے۔ ہماری کھولیوں میں جو بھٹکلی کھانے اور ناشتے بنتے نہ صرف بھٹکلی بلکہ دو دور سے لوگ آکر ان کا مزہ لیتے تھے ۔ لیکن اب اس دورکی صرف یادیں رہ گئیں ہے۔
تم کیا سمجھ سکو گے جو انانِ عصرِ نو
گذری ہوئی بہار گلستاں کی بات ہے
آپ ؒ نے محمدیہ اسکول میں اپنے علم وادراک کا سینہ نونہالان کے لیے واکردیا ۔ انہیں تراش کر ہیرا بنادیا۔ اپنے رٹائر منٹ تک وہیں رہے۔ ممبئی جامع مسجد جو ظاہر طور پر پُرشوکت وپر شکوہ بھی تھی وہیں اس مسجد کے منبر ومیناروں سے بڑے بڑے خطباء وائمہ نے اس وقت کے بدعت وجہالت کے ماحول میں اپنا نقارۂ حق بلند کیا ہے جن میں مربی قوم بحر العلوم حضرت مولانا خیالؒ بھی تھے۔ آپ نے کافی عرصہ خدمات انجام دیں ہیں ۔ یہیں سے آپ کے تعلقات افتخار العلماء حضرت مولانا شریف محی الدین اکرمیؒ کے ساتھ استوار ہوئے جو ممبئی کے قاضی مرگھےؒ کے نائب تھے۔
حضرت مولانا خیالؒ کے بعد جامع مسجد کی امامت وخطابت حضرت مولانا غلام محمد صاحب خطیبؒ کے حصہ میں آئی ۔ آپؒ کی کوششوں سے جامع مسجد میں مولانا شوکت ؒ کا نائب امام کی حیثیت سے تقرر ہوا ۔ آخری سانس تک جامع مسجد کی خدمت کو اپنا فریضہ بنالیا۔ حضرت مولانا غلام محمد صاحب خطیب کے انتقالِ پرملال کے بعد کلّی طور پر امامت وخطابت کے ذمہ دار آپؒ ہی ہوگئے۔
حضرت مولانا شوکت ؒ ذکی وفہیم اور خطابت کے فن میں ماہر تھے۔ مقتدی بھی خوش اور مطمئن ۔ آپ ؒ کی خطابت اور دروس سلف کے مدبرانہ اور حکیمانہ خطابات کی یاد تازہ کررہی تھی۔
ہمیں یاد پڑتا ہے ممبئی کی ڈونگری چارنل کے مقابل کی مسجد میں ابی بزرگوار مولانا محمود خیالؒ کا خطاب چل رہا تھا ۔ اسی اثنامیں آپؒ نے فرمایا’’ اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کی دل آزاری میں پیہم مصروف ہیں اسی طرح کی تازہ ترین کوشش یہ ہے کہ کسی چپل کے نچلے حصہ میں ایک ڈیزائن بنایا گیا ہے لیکن غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ لفظ ’’ اللہ ‘‘ پر اس ڈیزائن کو بنایا گیا ہے اور اس بات کی کھوج کر نکالنے والے ممبئی جامع مسجد کے امام وخطیب مولانا شوکت صاحب (رحمۃ اللہ علیہ ) ہیں‘‘
یہ تھے حضرت مولانا شوکت ؒ ذکی اور ذی شعور جیسے اس انسان کے پروردہ شاگرد ونونہالان کیسے ہوں گے اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
مولانا شوکت کے آس پاس صاحبِ دولت وثروت کا بھی عقیدت مندر حلقہ رہتا تھا۔ آپؒ چاہتے تو اپنے لیے دنیا بھی بٹور سکتے تھے مگر یہ مردِ درویش آخرت کاحریص تھا اور گوشۂ گمنامی کو پسند کرتا تھا ۔ آپؒ کی کوئی تصنیف نہیں ہے وجہ کچھ بھی رہی ہو ، مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں اور ہر کوئی عذر سمجھنے پر قادر بھی نہیں ہے لیکن جس عالم کی کوئی تصنیف نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ علمیت میں کم درجے کا ہے۔ آپؒ درس وتدریس وخطابت میں یکتا تھے۔ حضرت شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی ؒ سے سوال کیا گیا ’’ حضرت آپ اتنے بڑے علامہ اور علمبردارِ آزادی ہیں لیکن آپ کی کوئی تصنیف دیکھنے کو نہیں ملی ‘‘ شیخ الہندؒ نے فرمایا ’’ میری تو ہر میدان میں تصنیف ہے ، میری قرآن کی تفسیر کا نمونہ دیکھنا چاہتے تو میرے شاگرد شبیر احمد عثمانی کو دیکھ لو ، علمِ حدیث میں کوئی تصنیف دیکھنا چاہتے ہو تو میرے انور شاہ کو دیکھ لو ، اگر فقاہت میں مجھے دیکھنا چاہتے ہو تو میرے عزیز الرحمن کواور کفایت اللہ کو دیکھ لو ، سیاست سے جڑی میری تصنیف دیکھا چاہتے تو میرے عبیداللہ سندھی کو دیکھ لو ، میرے اشرف علی کو دیکھ لو ، میرے تدبر اور حوصلے کو پڑھنا چاہتے تو میرے حسین احمد مدنی کو دیکھ لو ، میری دعوت وتبلیغ کو دیکھنا چاہتے ہو تومیرے الیاس کو دیکھ لو ، میرا ایک ایک شاگرد میری تصنیف اور میرا شاہکار ہے۔ ‘‘
عمرِ عزیز کے آخری دو چار سال پہلے ہی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مولانا کو مسجد کی خدمات کو ترک کرنا پڑا لیکن قیام مسجد کے کمرے میں ہوا کرتا تھا۔ مولاناؒ سے فیض یاب ہونے کے لیے لوگ جوق در جوق آتے تھے ۔ اپنے آرام کو ترک کرکے ملاقاتیوں کو وقت دیتے تھے۔ آپؒ کی وجہ سے کسی کی دل شکنی ہو یہ آپؒ کو برداشت نہیں ہوتا تھااور ہر ایک کی دلجوئی آپؒ کا شعار تھا۔ پُر جمال ، وپر نور چہرہ پر ہمیشہ بشاشت رہتی تھی جو اللہ والوں کا خاصہ ہے اور جنہیں دیکھ کر اللہ کی یاد آئے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آپؒ کی نیابت حضرت مولانا عبدالعلیم قاسمی موٹیا کے ذمہ تھی ، صحافت بذاتِ خود ایک عظیم ذمہ داری علاوہ ازیں کسی اور ذمہ داری کو قبول کرنا اور اسے بدرجۂ أتم انجام دینا قاسمی صاحب کا ہی خاصہ ہے ۔
مولانا ؒ محمد یہ ہائی اسکول سے رٹائرمنٹ کے بعد ہی فریضۂ حج سے سبکدوش ہوچلے تھے۔ مدرسۂ حسینیہ شری وردھن کے آخری دم تک سرپرست رہے۔ اواخر عمر میں شوگر کا مرض بہت شدید ہوچکا تھا لیکن آپؒ کو اداروں اور مدارس کی فکر اس طرح لگی رہتی تھی کہ کسی بھی متعلقہ تقریب میں آپؒ حتی الامکان شریک ہونے کی کوشش کرتے اور جب گھر والے منع کرتے تو بھوک ہڑتال کرتے تھے لیکن منکسر المزاجی ایسی کہ فوراً مان بھی جاتے تھے۔ آخری چند ماہ مہندڑی اپنے گاؤں آکر قیام کیا او ریہیں پر 10؍ اکتوبر 2015 ء آپؒ کی وفات ہوئی ۔ جنازے میں ہزار کچھ او پر کا مجمع تھا ، اطراف واکناف کے علاوہ ممبئی اور گجرات سے بھی لوگ آئے تھے ۔ بستی کے درمیان اصحابِ نظیری کے قبرستان میں آپؒ کے جد امجد سید عمر صاحب نظیرؒ کے پہلو میں آپؒ کو دفن کے گیا ۔ اس طرح یہ آفتاب علم وعرفان ملک گیر پیمانے پر شہرت یافتہ تیرگی زدہ علاقوں میں اپنی تابناکی پھیلاہوا علاقۂ کوکن کے دامن میں اپنے پیچھے اپنے چاہنے والوں کو غمزدہ چھوڑ کر غروب ہوگیا۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَ ارْحَمْہُ ، طَیَّبِ اللّٰہٰ مَثَّرَاہُ ، أَسْکِنْہُ فَسِےْحَ جَنَّاتِ ےَا رَبَّ الْعَالَمِےْنَ۔
اللہ تعالیٰ آپ ؒ کے لواحقین کو ، فرزندِ اختر، آپؒ کے بھائی حضرت مولانا عبدالمنعم نظیر صاحب کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین ۔ نظیری خاندان کے حضرت مولانا عبدالمنعم صاحب ایک مقتدر عالمِ دین ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر وصحت عطا کرے۔
جواب دیں