حسرت اس غنچہ پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گیا (عزیزم انعام اللہ عسکری کی رحلت پر قلبی تاثرات)

از: حافظ نصیر طاہر باپو ندوی 
 

موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کسی کو چھٹکارا نہیں، جب بھی کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے تو موت یہ نہیں دیکھتی کہ بچہ ہے یا بوڑھا،جوان ہے یا نابالغ، مرد ہے یا عورت، بلکہ موت اس کو اپنا لقمہ تر بنا لیتی ہے اور ذرہ برابر دیری یا جلدبازی نہیں کرتی، قرآن کا ارشاد ہے 
( اذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعة ولا يستقدمون) 
کل پیش آنے والاحادثہ فاجعہ بھی اس کی ایک زندہ مثال ہے اور ہم غافلوں کے لئے تازیانہ عبرت بھی۔۔
واقعہ یہ کہ کل بعد نماز عصر مولانا نعمت اللہ عسکری ندوی کے اہل خانہ سیرو تفریح اور شدید گرمی سے کچھ راحت پانے کےلئے قریبی سمندر کے کنارے پر گئے ہوئے تھے اور  ساحل سمندر کی  ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور مولانا کا درمیانی فرزند انعام اللہ عسکری سمندر کی لہروں کا مزہ لے رہا تھا کہ اچانک موجوں کی زد میں آکر دیکھتے دیکھتے ہی سمندر میں غرق ہوگیا اور مدد کی آواز لگاتا رہا وہاں پر موجود اس کا خالہ زاد بھائی حافظ کاشف رکن الدین بھی اپنے بھائی کی مدد کےلئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سمندر میں کود گیا، پھر کیا تھا آن کی آن میں دونوں سمندر کی گہرائیوں میں گم ہو گئے اور اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کرگئے ،  جہاں کنارے ابھی سب مل جل کر آپس میں تفریح کررہے تھے ہنسی خوشی کا ماحول تھا یکایک خاموشی سی چھا گئ اور خوشیاں ماتم میں تبدیل ہوگئیں ۔۔۔
 جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں 
جب یہ خبر شہر میں پھیل گئی تو میرے نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لئے یہ یقین کرنا ناممکن تھا کہ جو بچہ عصر کی نماز تک اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کود رہا تھا وہ مغرب سے پہلے پہلے اپنے دوستوں اور گھر والوں کو اس طرح  الوداع کر گیا ۔۔۔

 اک بار تو خود موت بھی گھبرا گئی ہوگی 
 یوں موت کو سینے سے لگاتا نہیں کوئی 

مرحوم انعام اللہ عسکری بچوں میں بہت ممتاز تھا نمازوں کی پابندی اور روزانہ  تلاوت کا معمول گویا اپنے والد سے ورثہ میں ملا تھا ہر وقت مسکراتا چہرہ ،ملنساری،  اپنے بڑوں کا احترام اپنے چھوٹوں سے پیار، دوستوں کا چہیتا ،اپنے گھر والوں کا پیارا، گھر کی ضروریات کے لئے فکر مند، اپنے والدین کا خدمت گزار اور اپنے والد کا بےحد فرمانبردار-
وہ جب بھی کسی سے ملتا تو اپنی دل آویز مسکراہٹ سے سامنے والے کا دل ضرور جیت لیتا ، معصوم چہرہ گویا اپنی معصومیت کے ذریعہ والد سے اپنی ہر بات کو منوا لیتا تھا بچوں میں اخلاق کا پیکر،  اپنے والد ماجد کی طرح قائدانہ صلاحیت بھی  نمایاں طور پر موجود  تھی ۔۔۔
یقینا وہ اک پھول تھا جو کھل نہ سکا اور وقت سے پہلے ہی مرجھا گیا ۔۔
 پھول تو دودن بہار جاں فزا دکھلا گئے 
 حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلےمرجھا گئے 
راقم شاہد ہے کہ ہر دن دونوں بھائی انعام اللہ اور ھبةالله نماز فجر کے بعد اپنے والد کے ساتھ بیٹھتے اور  اشراق کی نماز پڑھ کر گھر چلے جاتے جس عمر میں بچوں کا فجر کی نماز کے لئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے اس عمر میں یہ بچہ اشراق کا بھی پابند تھا اور یہ مولانا کی حسن تربیت اور اپنی اولاد کے لئے فکر مندی کا نتیجہ  تھا ۔۔خیر۔۔۔۔۔
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے 
اللہ دونوں مرحوم حافظ محمد کاشف اور انعام اللہ عسکری کی مغفرت فرمائے اور والدین اور عقیدت مندوں کو صبر جمیل عطا فرمائے یقینا والدین اور ان کے متعلقین کے لئے یہ صبر آزما گھڑی ہے لیکن اللہ کی طرف سے انہیں کے لئے بشارت کا  پروانہ ہے کہ ( وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ۝ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۝ أُوْلَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ )  اللہ تعالی ہم سبھوں کا خاتمہ بالخیر فرمائے اور دونوں جہاں میں سرخرو فرمائے۔۔۔ آمین 

 موت سے کس کو رستگاری 
آج وہ کل ہماری باری ہے

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے