امیر حمزہ محمد رفیق صاحب (متعلم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
علم ومعرفت ایک قیمتی سرمایہ ہیں، جس کا حصول محض بے طلبی، کسل مندی، عیش پسندی، اور بدنیتی کے ساتھ ممکن نہیں ہے، علم بڑا غیور اورحساس ہے اس کے حصول کے لیے خلوص نیت، جدوجہد، محنت وجانفشانی، صبر و استقامت، ذوق و شوق، جفاکشی، جوانمردی، اولو العزمی، اور بلند ہمتی ضروری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کا ادب و احترام اور ان کی خدمت اور اس کے نتیجے میں اساتذہ کا ان کے حق میں دعا گو ہونا اور ان جیسے اوصاف حمیدہ سے بھی متصف ہونا ضروری ہے، یہی وہ اوصاف ہیں کہ جس نے حضرت عبداللہ بن عباس کو عالم ربانی، مرجع خلائق، امام التفسیر والحدیث والفقہ والسیر و المغازی بنایا جس کا اندازہ مندرجہ ذیل سیرت سے ہوتا ہے
آپ کی سیرت پر ایک نظر
علم وفضل کے بحر بیکراں،تقوی وطہارت کے پیکر، دن کے روزہ دار، رات کے عبادت گزار، بوقت سحر مغفرت کے طلبگار، خشیت الٰہی سے زار و قطار اشک بار ہونے والے، کتاب الہی کے رموز و اسرار کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے، اور امت محمدی کے تنہا فرد جن کو مفسر قرآن، حبر امۃ، اور عالم ربانی ہونے کا اعزاز اور شرف حاصل ہے، وہ آپ کے چچا زاد بھائی حضرت عباس کے فرزند حضرت عبداللہ ہیں
آپ ہجرت سے تین سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، بچپن ہی سے ہمہ تن سفر میں حضر میں آپ کے ساتھ سایہ کی طرح چمٹے رہتے، آپ سے اکتساب فیض کرتے، کار خدمت بجالاتے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) انکی خدمتوں سے خوش ہو کر دعا فرماتے، چنانچہ ایک دفعہ آپ نے وضو کا ارادہ فرمایا، تو حضرت عبداللہ فوراً دوڑ کروضو کا پانی حاضر خدمت کیا، آپ وضو سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہوئے، حضرت عبداللہ کو اپنے ساتھ نماز کے لیے کھڑا کرلیا، مگر حضرت عبداللہ آپ کے پہلو کے بجائے پیچھے کھڑے ہوگئے، جب آپ نماز سے فارغ ہو کر وجہ دریافت کی، تو عرض کیا یا رسول اللّہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کی عظمت واحترام کی بناء پر آپ کے پہلو میں کھڑا ہونے کی تاب نہ لاسکا، آپ یہ سن کر خوش ہوے، آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا فرمائی، اللهم آته الحكمة (الہی عبداللہ کو حکمت ودانائی عطا فرما)
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی دعا قبول فرمائی،اور حضرت عبداللہ کو ایسی حکمت و دانشمندی عطا فرمائی کہ بڑے بڑے حکماء اور دانشمندوں پر آپ نے فوقیت حاصل کرلی
جس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جب حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے باہمی اختلاف میں بہت سے لوگ حضرت علی کا ساتھ چھوڑ گئے، توحضرت عبداللہ ان کے پاس آئے، اور ان سے وجہ دریافت کی، تو انہوں نے عرض کیا کہ ہمیں حضرت علی سے تین چیزوں میں اعتراض ہے
1)دین الہی میں انسانوں کو حاکم بنایا ہے
2)حضرت امیر معاویہ اورحضرت عائشہ سے جنگ کی مگر مال غنیمت نہیں لیا اور نہ ہی قیدی بنایا
3) مسلمانوں کا ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے باوجود اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب ہٹادیا
حضرت عبداللہ نے یکے بعد دیگر تمام اعتراضات کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا
1) آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (يا أيها الذين آمنوا لا تقتلوا الصيد وأنتم حرم ومن قتله منكم متعمداً فجزاء مثل ما قتل من النعم)
ترجمہ، اے مومنو حالت احرام میں عمدا شکار مت کرنا اگر ایسا کیا تو ہم پلہ جانور کی نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں دو عادل لوگ کریں گے
تو حضرت عبداللہ نے فرمایا جانوروں کی جان کی حفاظت کے لئے انسانوں کو حاکم بنا نے کا حکم دیا گیا ہے تو انسانی زندگی بچانے کے لئے تو بدرجہ اولیٰ ہوگا
2) اگر تم اپنی ماں حضرت عائشہ کو قیدی بنانا پسند کروگے تو کفر کے مرتکب ہوں گے اور ماں ہونے کا انکار کرو گے تو بھی چنانچہ ارشاد الٰہی ہے
(النبي أولى بالمومنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم الي الخ)
3) صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکوں کے اعتراض کی بنا پر بذات خود آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رسول اللہ کے الفاظ مٹاۓ تھے
ان تمام جوابات کو سن کر تقریبا بیس ہزار لوگ صفوف علی کی طرف لوٹ گۓ
حضرت عبداللہ بن عباس آپ کی صحبت سے فیض اٹھاتے رہے، حتی کہ آپ کا وقت موعود آپہنچا، آپ کے وصال کے وقت حضرت عبداللہ کی عمر تیرہ برس تھی، اس کے باوجود 1660 احادیث زبانی یاد تھیں، آپ کے وصال کے بعد صحابہ کرام کی طرف رجوع کیا
وہ خود نقل کرتے ہیں، مجھے صحابہ کرام میں سے جن کے بارے میں بھی اطلاع ملتی کہ انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کوئی حدیث سنی ہے
جواب دیں