نقی احمد ندوی
ریاض، سعودی عرب
جس ملک ہم میں رہتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں انسان کی کوئی قیمت نہیں، جی ہاں یہ سچ ہے کہ ہمارے ملک میں انسان کی کوئی قیمت نہیں، روزانہ میڈیا یعنی سوشل میڈیا میں آنے والی تصویریں ہمیں ڈراتی ہیں، اخبارات کی سرخیاں اور ٹیلی ویزن کے ڈیبیٹس ذہن ودماغ کو جھنجھوڑتے ہیں، ایک عام آدمی کی زندگی جہنم بن چکی ہے، ترقی اور کامیابی کے سارے نعرے بے معنی ہوچکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہم جنگل راج میں پوری طرح واپس آچکے ہیں۔ بلکہ کبھی کھبی ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ، حکومت اور پورے سسٹم نے عام لوگو ں کا مذاق بنا رکھا ہے۔
کرونا کی وبا بے قابو ہوچکی ہے، حکومتوں کو ہمارے کورٹوں نے بہت ہی سخت الفاظ میں پھٹکار لگائی ہے، صوبای حکومتیں، مرکزی حکومت اور اب تو ہسپتال بھی کورٹ پہونچنے لگے ہیں، الزام در الزام کا دور جاری ہے، اور یہ سب کیوں ہورہا ہے سب کو سمجھ میں آرہا ہے، مگر کسی کی ہمت نہیں کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھایے کونکہ ہمارے دیش کی عوام بزدل اور ڈرپوک بن چکی ہے۔
ایک طرف حکومت کا دعوی ہے کہ ہم اسپیس میں قدم رکھ چکے ہیں، ٹکنالوجی میں ہم نے دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں قدم رکھ دیا ہے، اور بھارت میڈیسن میں وشو گرو بن چکا ہے، ٹریلین کے کلب میں ہماری اکانومی پہونچ چکی ہے، اور ملک مزید طاقتور بن چکا ہے، مگر تصویر کا دوسرا رخ بہت ڈراونا ہے، ہسپتالوں میں بیڈ نہیں ہے، آکسیجن کے لیے ایک انسان تڑپ تڑپ کر جان دے رہاہے، دوایں ختم ہوچکی ہیں، لوگ بدحواس ہوچکے ہیں، بیماری نے دیہاتوں کے اوپر بھی سایہ ڈال دیا ہے، لاکھوں لوگ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں یہاں تک کہ لوگوں کو شمشان گھاٹ اور قبرستان میں جگہ بھی نہیں مل پارہی ہے۔
مگر اس کے باوجود آج بھی مرکزی حکومت، صوبای حکومت، اور ہمارے حکومتی ادارے کورٹوں میں خود کو بہتر اور سچا ثابت کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، چیف منسٹر تک جھوٹ بولنے سے نہیں ڈرتا، عدلیہ کے احکامات کو نظر انداز کیا جارہا ہے، مگر ہم عوام آج بھی ا س حقیقت کو نہیں سمجھ سکے ہیں کہ یہ کھیل صرف دو فریق کے درمیان ہے، ایک عوام دوسرے حکمران۔ ساری سیاسی پارٹیوں کے الگ الگ منشور، الگ الگ رجحانات اور الگ الگ نعرے ہوسکتے ہیں، کسی کے نعرے مسلمانوں کے خلاف تو کسی کے نعرے دلتوں کے خلاف تو کسی کے نعرے ہندووں کے خلاف ہوسکتے ہیں مگر ساری سیاسی پارٹیوں کا مقصد صرف ایک ہے وہ ہے اقتدار۔ اقتدار کی یہ بھوک انسان کو جانور بنادیتی ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو، کرسچن ہو یا بودھ۔ اقتدار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، پاور کا کوی دھرم نہیں ہوتا۔ اقتدار حاصل کرنے والے وقت کے حسا ب سے اپنا بھیس بدل لیتے ہیں، مذہب بدل لیتے ہیں، کپڑے بدل لیتے ہیں اور نعرے بدل لیتے ہیں۔ یہ لڑائی داراصل عوام اور اقتدار کی ہے اور لڑائی میں ہمشہ جیت اسی کو ہوتی ہے جو اپنی چال بڑی چابکدستی سے چلتا ہے۔
مگر ہماری عوام جاہل بھی ہے اور ان پڑھ بھی، لالچی بھی ہے اور غریب و مفلوک الحال بھی، جس کا فایدہ اٹھاکر سیاسی پارٹیا ں اپنی روٹی سینکتے ہیں اور ان میں بیشتر کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور جن کو پتہ ہوتا ہے وہ تھوڑے سے پیسے کی خاطر بک جاتے ہیں۔
عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوی بھی سیاسی پارٹی عوام کے لیے مخلص نہیں ہے، وہ صرف اپنی پارٹی کو اقتدار میں لانے میں مصروف رہتی ہے، جب تک اس نکتہ کو عوام سمجھنے کی کوشش نہیں کریگی، عوام کے مسائل کبھی حل ہو ہی نہیں سکتے۔ ہمارے ملک کا سسٹم ایسا بنادیا گیا ہے کہ جن کو ہم اقتدار پر بٹھا دیتے ہیں وہ اگر اغلبیت میں آگیا تو آپ انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، عدلیہ سے جتنے بھی آرڈر لیکر آپ آجایں، وہ اسکو نافذ ہی نہیں کریں گے آپ عدلیہ اور سرکار کے پاس ڈورتے رہیں ان کے پانچ سال یوں ہی نکل جایں گے۔ مگر دوڑنے کا کام آپ کا جاری رہے گا۔ ہندوستان کی کوی سیاسی پارٹی عوام کے لیے کام نہیں کرتی بلکہ وہ اپنی سیاسی پارٹی کو پھر سے برسراقتدار لانے کے لیے کام کرتی ہے ایسی صورتحال میں یہ کیسے آپ توقع کرسکتے ہیں کہ کرونا کے لیے آپ کی حکومتیں تیاری کریں گی ہسپتال بنوایں گی، اکسیجن اور ونٹیلیٹر کا انتظام کریں گی۔ کیونکہ جب آپ نے انکو ووٹ دیا تھا تو آپ نے ان سے یہ چیزیں مطالبہ نہیں کی تھیں، جن چیزوں کا آپ نے مطالبہ ہی نہیں کیا، وہ آپ کو کیسے مل سکتی ہیں۔ اس لیے جس صورتحال کا سامنا ہمارا ملک کررہا ہے اس کے لیے آپ اپنی حکومتوں کو الزام نہ دیجیے ان سے توقع نہ رکھیے اور نہ انکی شکایت کیجیے، الزام دینا ہے تو آپ خو د کو الزام دیجیے، سر دیوار سے پٹکتے رہیے، آکسیجن کے لیے شہر شہر دوڑتے رہیے، شمشان گھاٹ میں لاین میں کھڑے رہیے، کیونکہ آپ نے جب ووٹ دیا تھا اس وقت آپ نشہ میں تھے، اور نشہ میں جن نعروں پر آپ نے ووٹ دیا تھا وہ تو سیاسی پارٹیوں کے حق میں تھیں آپ کے حق میں تو نہیں تھیں، آپ نے ان سے ہسپتال، اسکول اور سڑک کے مطالبات تو کیے نہیں لہذا قصور آپ کا ہے انکا نہیں!
اور یہ بات جلدی آپ کو سمجھ میں نہیں آینگی کیونکہ ایسی باتوں کو سمجھنے کے لیے عقل کا استعمال ضرور ی ہے اور بھارت کے لوگ کتنے عقلمند ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اگر عقلمند ہوتے تو ستر سالوں میں آج یہ حالت نہ ہوتی کہ مرنے سے پہلے بھی چین نہیں اور مرنے کے بعد بھی چین نہیں، کہیں سڑک پر دم توڑ رہے ہیں، تو کہیں ہسپتال کے باہر تو کہیں گاڑیوں میں تو کہیں گھروں میں اور جب مرجاتے ہیں تو شمشان اور قبرستان میں بھی جگہ نہیں ملتی، مطلب یہ کہ نہ سکون سے جیتے ہیں اور نہ ہی سکون سے مرتے ہیں اور جب مر جاتے ہیں تو سکون سے انتم سنسکار بھی نصیب نہیں ہوتا، اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ جب ووٹ کا وقت آیے تو اپنے جذبات کا نہیں بلکہ عقل کا استعمال کیجیے نہیں تو سیاسی پارٹیاں آپ کو اسی طرح استعمال کرتی رہیں گی اور آپ استعمال ہوتے رہیں گے اور حکومت کرنے والوں کے حالات تو بدل جائینگے مگر آپ کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں