’’حج بیت اللّٰہ ‘‘عالمی اجتماع و اتحاد کاشاندار مظہر

یوسف رامپوری

’’اجتماعیت ‘‘قوموں کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ جس قوم کااجتماعی نظام مستحکم ہوتا ہے ، وہ قوم دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور لمبے وقت تک اس کا وجود برقرار رہتا ہے ، اس کے برعکس جس قوم میں اجتماعیت کا تصور نہیں ہوتا ، سطح دنیا پر اس کا وجود زیادہ لمبے عرصہ تک باقی نہیں رہتا ہے اور وہ قوم زمانے کے دھندلکوں میں روپوش ہوکر اپنا وجود کھودیتی ہے ۔ جو قوم اجتماعیت پر عمل پیرا ہوتی ہے ، وقت کی آندھیاں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں اور جو قوم اجتماعیت سے محروم ہوتی ہے ، مخالف طاقتیں اور سازشیں اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتی ہیں ۔
اجتماعیت کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے دین اسلام میں اجتماعی نظام کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔اسلام اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ’’ اجتماعیت ‘‘ میں انسانوں کے لیے بے شمار فوائد حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے اتحاد کو فروغ ملتا ہے ، بھائی چارگی کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور آپسی میل جول میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ وہی قومیں دنیا میں امن وامان کی زندگی گزارتی ہیں ، جن میں اجتماعیت کا تصور پا یا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس جس قوم یا معاشرہ میں اجتماعیت کو اہمیت نہیں دی جاتی ، وہ معاشرہ محبت و اخوت اور بھائی چارگی سے محروم رہتا ہے ، وہاں افراتفری اور بد اخلاقی عام ہوتی ہے ،جس کے سبب لوگوں کے درمیان فاصلے قائم ہوتے چلے جاتے ہیں اور فرقہ واریت و عصبیت جنم لینے لگتی ہے ۔ اسلام چونکہ حساس مذہب ہے ، اس لیے وہ اجتماعیت کا تصور دیتا ہے ، بلکہ ایک مکمل نظام بھی عطا کرتاہے ۔ عملی طور پر ایسے اعمال مسلمانو ں کے لیے منتخب کرتا ہے ، جن کو اجتماعی شکل میں ادا کیا جاتا ہے ۔
مثلا ’’ نماز ‘‘ جو منفرد طور پر ادا کی جاسکتی ہے ، لیکن اس کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا گیا اور اس میں بڑا ثواب رکھا گیا ۔ چنانچہ دن بھر میں پا نچ فرض نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ محلہ کے مسلمان ہر دن پانچ بار شانے سے شانہ ملاکر کھڑے ہوا کریں ، ایک ساتھ رکوع اور ایک ساتھ سجدہ کیا کریں ۔ اس طرح جہاں فرض کی ادائیگی ہوگی ، وہیں مسلمانوں میں بھائی چارے کا ماحول بھی بنے گا ۔
اسلام عالمی سطح پر سلامتی ، اخوت اور بھائی چارے کو قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اور عملی طور پر اس کا تصور بھی پیش کرتا ہے ۔ اس لیے اس نے محلہ کی سطح پر باہمی اخوت کے لیے راہ ہموار کر کے شہر کی طرف توجہ کی اور ہفتہ میں ایک مرتبہ مسلمانوں پر جمعہ کی نماز فرض کی ، اس نماز کی ادائیگی کی شکل فقہا نے یہ بیان کی ہے کہ جمعہ کی نماز شہر کی جامع مسجد میں ادا کی جائے ۔ تاکہ جمعہ کی نماز میں مجمع روزانہ کی نمازوں کے مقابلے میں زیادہ ہو ۔ جس سے شہری سطح پر لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہوسکیں۔
اس کے بعد اسلام نے اجتماعیت کے باب میں ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے عیدین کی نمازوں کو اجمتاعیت کی شکل دی۔ سال بھر میں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر ادا کی جانے والی یہ نمازیں شہر کے کسی کھلے میدان میں ادا کی جاتی ہیں تاکہ شہر اور دیہات کے لوگ مل کر دوگانہ ادا کرسکیں اور اس سے اجتماعیت کادائرہ مزید وسیع ہوسکے اور اتحاد کی ہوا پورے علاقہ میں چل جائے ۔
اس کے بعد ایک ایسے موقع کی ضرورت باقی رہ گئی تھی ، جس میں مسلمانوں کو عالمی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کا موقع میسر آئے ۔ یعنی ایک اسیا اجتماع ہو جس میں دنیا بھر کے لوگ شریک ہوسکیں ۔ گویاکہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی ، جس پر مشرق و مغرب ،شمال و جنوب حتی کہ ہر خطہ کے لوگ آکر جمع ہوں اور ایک دوسرے سے متعارف ہوں ،ایک دوسرے کے مسائل سے واقفیت حاصل کریں ، پھر مل بیٹھ کر ان کے حل کی تدابیر سوچیں ۔ اللہ کے فضل سے یہ ضرورت حج کے ذریعہ پوری ہوگئی ۔ اس لیے کہ حج ایک ایسا فریضہ ہے ، جو سال میں فقط ایک بار ذی الحجہ کی متعینہ تاریخوں میں ادا کیا جاتا ہے ۔ اس میں دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے مسلمان دور درازسے سفر کرکے شرکت کرتے ہیں ، بیت اللہ کی زیارت کرتے ہیں ، طواف کرتے ہیں اور ایک ہی ساتھ دیگر ارکان بھی ادا کرتے ہیں ۔ حج کے موقع پر سارے امتیازات بالا ئے طاق رکھ دیے جاتے ہیں ۔ امیر، غریب ، چھوٹے بڑے ، بادشاہ ، فقیر ، عجمی اور عربی سب ایک ہی صف میں ،ایک ہی لباس میں ملبوس ہوکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح اجتماعی طور پر مناسک حج ادا کیے جاتے ہیں ۔ ایک طرف جہاں اسلام کا اہم رکن ایک ساتھ پورا کیا جاتا ہے ، تو دوسری طرف وہیں ان کے درمیان اخوت و محبت کی جڑیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔ کیونکہ فرصت کے اوقات میں ایک ملک کے مسلمان دوسرے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے حالات سنتے ہیں ، پریشانیوں کو جانتے ہیں ، پھر ان کے حل کی تدبیریں بھی سوچتے ہیں، اس باہمی میل جول سے انہیں ایک ولولہ ملتاہے ۔ ان میں دوسروں کے کام آنے کاجذبہ پیداہوتا ہے او ر نوع انسا ں کی خدمت کے لیے ان کے دل میں لگن پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہی جذبہ لے کر جب وہ اپنے گھر وں کو لوٹتے ہیں ، تو بین الاقوامی بھائی چارگی کا ماحول ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ان کے اندر اہل وطن کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ موجز ن ہوتا ہے ۔
اگر ہر سال بیت اللہ کی زیارت سے لوٹ کرآنے والے حجاج دوران حج کے ماحول کو اپنے اپنے علاقو ں میں پھیلانے کی کوشش کریں تو لوگوں کے درمیان سے منافرت کی دیواریں گرجائیں گی اور محبت و بھائی چارگی کا ایسا ماحول پیدا ہوجائے گا ، جس سے غیرمسلم اقوام بھی سبق حاصل کرسکیں گی۔ضرورت اس بات کی ہے حج کے فوائد و مقاصد پر غور کیا جائے اور حج کے فوائد کو دنیا بھر میں عام کیا جائے ۔
اجتماعیت آج کل مسلمانوں کے لیے جتنی ضروری ہے اسی قدر اس سے غفلت برتی جارہی ہے ۔ جس کا خطرنا ک پہلو یہ سامنے آرہا ہے کہ مسلمان موجودہ زمانہ میں چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم ہیں ۔ کہیں مسلک کے نام پر تقسیم ہے، کہیں ذات و برادری کے نام پر تقسیم ہے اور کہیں امیر و غریب کے نام پر تقسیم ہے ۔ اس تقسیم نے ملت اسلامیہ کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیا ہے اور ان کی طاقت و اجتماعیت کو ختم کر دیا ہے ۔نتیجہ یہ کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کی ناکہ بندی کر رہی ہیں اور انہیں زبردست نقصان پہنچارہی ہیں ۔حالات کا تقاضہ ہے کہ مسلمان انتشار و اختلاف سے باہر آئیں اور کلمہ لا الہ الا اللہ کے تحت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں ۔تاکہ ان کا کھویا ہوا وقار دوبار ہ حاصل ہوسکے ۔ حج بیت اللہ مسلمانوں کے درمیان اجتماعیت و اتحاد قائم کرنے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے ۔ کیونکہ حج بیت اللہ کے موقع پر تمام مسلمان برابر دکھائی دیتے ہیں ، وہاں نہ کوئی چھوٹا ہوتا ہے اور نہ کوئی بڑا ، نہ کوئی امیرہوتا ہے اور نہ کو ئی غریب ۔ نہ کوئی بریلوی ہوتا ہے اور نہ کوئی دیوبندی ۔ سب ہی لوگ اللہ کے حضور اللہ کی رضاء کے طالب ہوتے ہیں اور مسلمان ہوتے ہیں۔ حج بیت اللہ میں تمام مسلمانوں کی اس اجتماعیت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ہر جگہ مسلمان اسی اتحاد و مساوات کا مظاہر ہ کریں،کہیں بھی برادری کے نام پر تقسیم نہ کریں اور نہ ہی مسلکی اختلافات کے شکار ہوکر باہم دست وگریباں ہوں ۔ 
اتحاد و اجتماعیت کے بہت سے فوائد کو پیش نظر رکھ کر اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کانہ صرف تصور دیا ہے ، بلکہ ان کو اجتماعیت کا پورا نظام دیا ہے ۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اسلام کے اجتماعی نظام پرمسلم معاشرہ میں پورے طور پر عمل نہیں کیا جارہا ہے ، جس سے پوری ملت اسلامیہ کا نقصان ہورہا ہے اور اختلافات کے سبب نا انصافی و زیادتی کے بہت سے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ یقیناًیہ صورت حال تمام مسلمانوں کے لیے انتہائی سنگین ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ وقت کی نزاکت کو محسوس کرے اور اسلام کے اجتماعی نظام کو اپنی زندگی میں بسائے ۔ 
(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
یکم اگست2018(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

امت مسلمہ کا تحفظحالات حاضرہ کے تناظر میں

ڈیموکریسی بمقابلہ موبوکریسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے