اگر حاجی حج کے فوائد پر نظر نہ رکھے تو اسے کیا حاصل ہوگا؟
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ حج پوری دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ ایک انسان اپنا قیمتی وقت کاتقریباً ایک مہینہ اور اپنی خطیر رقم خرچ کرکے حج کرتاہے۔ حج کی افادیت صرف یہی نہیں ہے کہ حاجی خدا کا گھر دیکھ لے۔ چند سجدے حرم مکہ میں اور چند نمازیں حرم مدینہ میں ادا کرلے۔ یا زم زم کے پانی سے سیراب ہوجائے یا مختلف قسم کی کھجوریں نوش جان کرلے، یااپنے احباب کے لیے قیمتی تحائف اور آب زم زم وکھجور لے آئے جس کو اقبالؒ نے کہا تھا: زائرین کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زم زم کے سوا کچھ بھی نہیں اگر حاجی حج کے اعلیٰ مقاصد وفوائد پر نظر نہ رکھے اور انھیں حاصل کرنے کی کوشش وجستجونہ کرے تو اسے سفر کی تکلیفوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ حج کایہ سفر جوحج کے ارادوں سے شروع ہوتا ہے اور گھر واپسی پر پورا ہوتا ہے۔ بے شمار فوائد اپنے اندر رکھتا ہے۔ ذیل میں چند فائدں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اللہ کی محبت میں اضافہ حج کرنے سے انسان کے دل میں محبت ِ الٰہی کے چشمے پھوٹتے ہیں اور انسان ہمہ جہتی طور پر تربیت و تزکیہ کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اللہ کے گھر کی زیارت کاشوق ہی حاجی کو پیسہ خرچ کرنے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے پر آمادہ کرتاہے۔ اللہ کی محبت ہی اس کو اپنوں سے دور کردیتی ہے۔ بندہئ مومن والہانہ سفر کے تمام مراحل خوشی خوشی طے کرتا ہے۔ خانہئ کعبہ کی زیارت اور روضہئ اقدس کو دیکھنے کی تمنا اسے کشاں کشاں مکہ و مدینہ پہنچاتی ہے۔ وہ نغمے گنگناتے ہوئے کیف و سرمستی کے عالم میں مقامات ِ مقدسہ کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ اس کی روح اس کامیابی پر خوشی ومسرت سے جھوم اٹھتی ہے کہ آج اس کی برسوں کی آرزو پوری ہورہی ہے۔ وہ اس خدا کے در پر حاضر ہورہا ہے جس کی عبادت وہ اَن دیکھے کرتا آرہا ہے۔ آج اس کے ذوق عبادت کی معراج ہے اور جب وہ یہاں سے لوٹے گا تو اللہ سے قرب اور والہانہ تعلق کی دولت کو لے کر لوٹے گا اور یہ دولت دنیا کی ہر دولت سے زیادہ عزیز اور قیمتی ہے۔ جذبہئ ایثار میں اضافہ جب آدمی حج کے لیے سامان سفر باندھتا ہے۔ اپنے رشتہ داروں، عزیزوں اور وطن کے گلی گوچوں سے رخصت ہوتا ہے۔ اپنے جگر گوشوں کو الوداع کہتا ہے اور اپنے کاروبار سے لاتعلق ہوتا ہے تو اس کے دل و دماغ اور ذہن و فکر میں یہ بات رچ بس جاتی ہے کہ اللہ کے احکام کی تکمیل کے لیے، اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے مومن سب کچھ چھوڑ سکتا ہے۔ اس طرح حاجی عملاً یہ تربیت حاصل کرتاہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو وہ خدا کی خوشی کے لیے اپنی قیمتی سے قیمتی اور عزیز سے عزیز ترین چیز کو چھوڑ سکتاہے۔ تقویٰ کا نشو ونما انسان حج کااردہ کرتا ہے تو اس کے اندر ایک نیا آدمی رونما ہونا شروع ہوتا ہے۔ وہ یہ عزم کرتاہے کہ اب اپنے آپ کو پوری طرح بدلے گا۔ وہ پابندی سے نمازیں پڑھنے لگتاہے، لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات اور تعلقات کو ٹھیک کرنے لگتا ہے۔ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کا پورا پورا خیال رکھتا ہے۔ زبان پر کوئی ایسا لفظ نہیں آنے دیتا جو گناہ کی تعریف میں آتا ہو۔ وہ رخصت ہوتے وقت لوگوں سے معافی مانگتا ہے۔ اپنے معاملات صاف کرتا اور اپنے لیے دعاؤں کی درخواست کرتا ہے۔ نہ صرف اس پر خدا کے خوف اور تقویٰ و پرہیزگاری کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں بلکہ اس کے متعلقین پر بھی یہ اثرات پڑتے ہیں اور وہ بھی اپنی زندگی بدلنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ پھر یہ شخص جب حج کرکے واپس آتا ہے تو اپنے کو یکسر بدل لیتا ہے۔ اگر وہ پہلے برا تھا تو اب نیک ہوجاتا ہے۔ اگر وہ پہلے نیک تھا تو اب اور زیادہ نیک ہوجاتا ہے۔ اگر وہ پہلے اول فول بکتاتھا تو اب اس کی زبان سے اللہ کے ذکر کی باتیں نکلتی ہیں۔ اگر وہ وعدہ خلاف تھا تو اب عہد کاپابند ہوجاتا ہے۔ اگر اس کی زبان سے پہلے لوگ جھوٹ یا غیبت کی باتیں سنتے تھے تو اب دین کی باتیں سنتے ہیں۔ پھر جب وہ کیف و مستی کے جذبات سے سرشار ہوکر حج کے حالات، حاجیوں کی رقت آمیز کیفیت، مقاما ت ِ مقدسہ کی ایمان افروز زیارت کے واقعات لوگوں کو سناتا ہے تو کتنی سوئی ہوئی روحیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ کتنے ہی انسانوں کے مردہ دل جی اٹھتے ہیں اور اپنے رب کی طرف پلٹنے لگتے ہیں۔ اجتماعیت کا شعور نماز کے لیے روزانہ پانچ بار بستی یامحلہ کے لوگ مسجد میں اکٹھا ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ ہفتہ میں نماز ِ جمعہ کے لیے بستی کے تمام افراد جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ اس طرح ہر ہفتہ مسلمانوں کا ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے جو نہ صرف باہمی تعارف کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے حالات کو جاننے اور سمجھنے کا ذریعہ اسلامی شان و شوکت کا مظہر ہوتا ہے۔ عیدین کے موقع پر مزیدبڑا اجتماع ہوتاہے۔ حج کے موقع پر ایک عالمی اجتماع ہوتاہے جس میں دنیا کے ہر ملک اور ہر گوشہ سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگ آپس میں ملتے اور ایک ساتھ ارکانِ حج ادا کرتے ہیں۔ نیک نیتی، پاکیزہ جذبات اور بلند مقاصد کے لیے لاکھوں افراد کا اس طرح ملنا ایک ایسی نعمت ہے جو نوع انسانی کو صرف اسلام نے دی ہے۔ یہ عالمی اجتماع نہ کسی کے خلاف ہوتا ہے، نہ مکر و فریب کا جال پھیلانے کے لیے ہوتاہے اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچاکر فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے بلکہ فکر و خیال کی ہم آہنگی کے ساتھ پاکیزہ جذبات سے سرشار ہوکر پچھلے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے ایک صالح اور نیک نفس انسان بننے کے عزم کے ساتھ لاکھوں افراد کااجتماع دنیا کے لیے ایک مثال ہوتا ہے۔ جہاں لاکھوں افراد اپنی اصلاح کا عزم کرتے ہیں، اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور آئندہ کسی کو نقصان نہ پہنچانے اور ہر ایک کو فائدہ پہنچانے کا ارادہ لے کر گھر لوٹتے ہیں۔ ملت واحدہ کا احساس مشرق و مغرب سے، شمال و جنوب سے، مختلف ملکوں کے رہنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے، بس ایک ہی مقصد کے لیے سفر کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے، دلوں میں رضائے الٰہی کی آرز و بسائے ہوئے بیت اللہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ان میں بادشاہ بھی ہیں اور محکوم بھی،مالک بھی ہیں اور نوکر بھی۔ امیر بھی ہیں اور غریب بھی۔ بڑے بھی ہیں اور چھوٹے بھی،مگر سب نے ایک طرح کا سادہ لباس پہن رکھا ہے۔ سب ایک ساتھ طواف کرتے ہیں، ایک ساتھ سعی کرتے ہیں، ایک ساتھ رمی کرتے ہیں، ایک ساتھ قربانی کرتے ہیں، سب ”لَبَّیْکْ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکْ“ کہتے ہیں۔ یہاں کوئی فرق و امتیاز نہیں۔ یہ اسلامی بھائی چارے اور انسانی اخوت و مساوات کا وہ منظر ہے جس کی مثال دنیا پیش نہیں کرسکتی۔ قیام امن کی تحریک حرم وہ مقام ہے جہاں لڑائی جھگڑا حرام ہے۔ بلکہ شکار کرنا بھی حرام ہے۔ جہاں گھاس کاٹنے تک کی اجازت نہیں بلکہ اس کی زمین سے کانٹا تک نہیں توڑاجاسکتا۔ اگر وہاں کسی کی چیز گر جائے تو اس کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا۔اس شہر میں کسی قسم کا ہتھیار لانے کی اجازت نہیں، وہاں غلہ اور ضرورت کی چیزوں کی مہنگائی کی وجہ سے ذخیرہ کرنا”الحاد“ کی حد تک پہنچ جاتاہے۔ اس سرزمین پر ظلم کرنے والوں کو اللہ نے وعید سنائی ہے کہ ہم اسے دردناک عذاب دیں گے۔حج و عمرہ کے چار مہینوں کو محترم قرار دیاگیاہے۔ ان میں جنگ و جدال کو حرام قرار دیا گیا۔ اُن مقامات کو پُر امن رکھنے کی ہدایت کی گئی جہاں سے حاجیوں کا گزر ہوسکتاہے۔ اگر لوگ اسلام پر عمل پیرا ہوں اور اسلامی نظام سیاست قائم ہو تو دنیا میں کسی ایسی بدامنی کو پھیلنے نہیں دیاجائے گا، جس سے حج و عمرہ کے نظام میں خلل واقع ہو۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حج دنیا میں امن قائم کرنے کی ایک دائمی تحریک ہے۔ آخرت کی یاد دنیا کے مشاغل آخرت فراموشی کا سبب ہیں۔ حج اور اس کا سفر آدمی کو بار بار آخرت کی یاد دلاتا ہے۔ جب آدمی سفر کے لیے اپنے متعلقین سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ تصور تازہ ہوجاتا ہے کہ اسی طرح سب کچھ چھوڑ کر اسے سفرِ آخرت پر جانا ہے، جہاں سے کوئی واپس نہ ہوگا۔ عرفات کا اجتماع میدانِ حشر کا منظر پیش کرتاہے۔ لباسِ احرام کفن کی یاد دلاتا ہے، جس کے نتیجہ میں انسان کو دنیا کے زوال و فنا کایقین حاصل ہوتا ہے۔ وہ گناہوں سے اجتناب کی کوشش کرتا اور اعمالِ صالحہ کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اپنی تاریخ سے آگہی ہماری تاریخ ہمارا سرمایہ ہے۔ جوقوم اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہے، تاریخ اس قوم کو فراموش کردیتی ہے۔ حاجی سفراور مناسک حج کی ادائیگی کے دوران ان مقامات ِ مقدسہ کی زیارت کرتا ہے،جن کاتعلق بہت سے انبیاء و صحابہ کرام ؓ سے رہا ہے تو اس کے دل و دماغ میں تاریخ کے وہ تمام روشن پہلو آجاتے ہیں جو اس کے کردار کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اسے ان مقامات سے بھی گزرنا پڑتا ہے، جہاں قوموں پر اللہ کاعذاب آیا تو وہ خوفِ خداسے کانپ اٹھتاہے۔ جب وہ مکہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا ہے تو اس کی نگاہوں کے سامنے تاریخ کے وہ مناظر گھومتے ہیں جب اسلام کی خاطر بلال حبشی ؓ کو ریت پر گھسیٹا جاتا تھا۔ صہیب رومی ؓ کے سینے پر دہکتے انگارے رکھ دیے جاتے تھے اور اوپر سے پتھر کی سل رکھ دی جاتی تھی تاکہ وہ کروٹ نہ لے سکیں۔ آنحضور ﷺ کی دعوت کا تیرہ سالہ منظر آنکھوں کے سامنے ایک ایک کرکے آجاتا ہے۔ پھر وہ مدینہ کی جانب سفرکرتا ہے تو سفر ہجرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔حضرت ابو بکرؓ کی رفاقت، غار کا صاف کرنا اور سانپ کاڈس لینا، رسول اللہ ﷺ کا لعاب دہن لگانا، حضرت اسماء ؓکا کھانا پہنچانا، دشمنوں کا تعاقب کرنا اور سراقہ کے گھوڑے کا گھٹنوں تک زمین میں دھنس جانا، اس کا امن طلب کرنا اور اللہ کے رسولﷺ کا فرمانا: ”اے سراقہ میں تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہاہوں۔“ حاجی جب مدینہ پہنچتاہے تو آنحضور ﷺ کی دس سالہ تاریخ اپنا ایک ایک واقعہ حاجی کو یاد دلاتی ہے۔ انصار کا ہر موقع پر اپنے کو پیش کردینا، میدانِ بدر میں مسلمان جیالوں کے جوش جہاد کے سامنے مشرکین مکہ کے متکبر مسلح فوجیوں کا شکست کھاجانا، بچوں کے جذبہئ جہاد کی نظیریں، غزوہئ احد وغزوہئ خندق، صلح حدیبیہ، غزوہئ تبوک،غزوہئ حنین اور فتح مکہ کے واقعات آنکھوں میں آنسولے آتے اور دلوں میں رقت پیدا کردیتے ہیں۔ یہودیوں کی سازشیں، اللہ کے رسول کی استقامت، صحابہ کرامؓ کی قربانیوں کی یاد حاجی کے اندر کتنا عظیم انقلاب برپا کرتی ہے۔ جبل احد پر چڑھنا، جنت البقیع کا مشاہدہ کرنا، روضہئ مبارک اور صحابہئ کرام کے مقابر کی زیارت کرنا کتنی خوش نصیبی اور سعادت کی بات ہے۔ اللہ سب کو یہ سعادت بخشے۔ آمین!
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں