ہے ماتم کس د یوانے کا الہی آج صحرا میں

روحانی فیض کے ساتھ والدصاحب سے ان کے رفاقت وتعلقات کے تذکرے بھی سنے کو مل جائیں گے،چنانچہ متعددمرتبہ کوشش کی ،مگراس پورے عرصہ میں حضرت والا بیماراورصاحب فراش رہے ،اس لئے ناکامی ہی ہاتھ لگی۔ اور گذشتہ ۲۵ /ذی الحجہ الحرام /۱۴۳۶ھ بمطابق ۱۰/۱۰/۱۵ء بروز ہفتہ کو ان کے انتقال کی خبر نے آس ہی توڑدی اور یہ خواہش ہمیشہ کے لئے حسرت بن گئی ۔چنانچہ نمازجنازہ میں شرکت اورپس مرگ دیدار سے دل میں ایک ہُوک اٹھی کہ کاش یہ موقع زندگی میں حاصل ہواہوتا۔اے آرزکہ خاک شد !اناللہ واناالیہ راجعون ۔ 
حضرت مولاناشوکت نظیر صاحب ایک بڑے عالم ،متعدد بڑے مدارس کے سرپرست اورمرکزی جامع مسجد بمبئی کے خطیب اورامام ہی نہ تھے، ان کی سب بڑی خصوصیت تقوی، خشیت، طہارت ،انابت اللہ کے ساتھ ان وہ ٹھوس دینی مزاج تھا،جو اب نایاب ہوتاجارہاہے۔علمی رسوخ اورعملی خلوص کے ساتھ وہ صاف وشفاف سینہ اور پاکباز د ل رکھتے تھے۔ شہر ت وناموری سے کوسوں دورگوشہ نشینی کی زندگی کوپسندکرتے اوربڑے سے بڑے کاموں میں حصہ لینے کے باوجود مگر کسی فہر ست میں اپنا نام شمار نہ ہونے دیتے۔ شہرت ،پبلسٹی اورہمہ ہمی کے اس دور میں جب کہ ہر کوئی اپنی ڈفلی بجارہا ہے،امت کا ایسے بزرگوں سے محروم ہوناایک بڑا سانحہ اورخسارہ ہے ۔اللہ تعالی نعم البدل عطافرمائے!
عروس البلاد بمبئی میں حضرت مولانا کی حیثیت اس منارۂ نور کی سی تھی ؛جس سے سبھی روشنی حاصل کرتے تھے۔کیا عوام اورکیا خواص، سبھی ان کے گرویدہ تھے۔انھوں نے اپنے حسن عمل اوربلند کردار سے سبھی کا دل جیت لیا تھا۔قریب ووبعید اوردورونزدیک والے سبھی اپنے کو حضرت مولاناکا سب سے قریبی تصور کرتے تھے۔ ان کی محبوبیت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ حضرت مولاناکا گاؤں’’میندری‘‘ بمبئی سے تقریباً سوادوسو،کلومیٹرکے فاصلے پر ہے ۔بندہ جب مفتی احمد نجے ،مولانا اظہر،مولاناادیب ،مولانا امتیازاورحافظ مدثرصاحبان اساتذۂ مدرسہ فیض العلوم نیزل کے ہمراہ جنازہ میں شرکت کی غرض سے نیزل سے میندری کے لئے روانہ ہواتو پورے راستے میں کوئی موڑ اور نکڑایسا نہیں آیا،جہاں دوزدراز سے جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی گاڑیاں رواں دواں میندری کی جانب محوسفر نظر نہ آئی ہوں۔چنانچہ جنازہ میں انسانوں کا اس قدرہجوم ہوگیا کہ ’’میندری ‘‘جیسے چھوٹے سے گاؤں میں انتظام وانصرام کے لئے ٹریفک پولیس کی مددلینی پڑی۔ 
ہے ماتم کس دیوانے کا الہی آج صحرا میں 
کہ سیلیں اڑتی پھر تیں ہیں،بگولے خاک اڑاتے ہیں 
حضرت مولانا شوکت علی صاحب نظیر قلب بمبئی میں اہل اللہ،علماء اور بزرگان دین کے معتمدترین نمائندہ تھے،بزرگوں کو آپ پر بڑا اعتماد تھا،چنانچہ سبھی آپ کے پاس آتے اورسب کاآپ اعزاز واکرام کرتے۔انہیں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی،حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی اورحضرت مولانا فخر الحسن صاحب جیسے اساطین علم وفضل اور نابغہ روزگارہستیوں کے سامنے زانوے تلمذتہہ کرنے اوران کے دامن تربیت میں رہنے کا شرف حاصل تھا۔ وہ شیخ الاسلام مولانا مدنی کے بااختصاص تلامذہ اور مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمودالحسن گنگوہی کے خلفاء میں تھے۔ انھوں نے علم وعمل ،تقوی وپرہیز گاری ،بے لوثی وبے نفسی کی جودولت اپنے اساتذہ سے حاصل کی تھی ،اسے سرمایۂ حیات تصور کیا، اورزندگی بھر اسے ہر طرح کے تلوث سے پاک وصاف رکھا۔
آپ کی ولادت ۱۷/نومبر /۱۹۳۴ء میں ہوئی ،والد محترم جناب عبد الغفور صاحب کے ایک خداپرست دیندار انسا ن تھے،بچپن میں ہی انھوں نے داغ مفارقت دیدیااورآپ یتیم ہوگئے،بڑے بھائی اکبر صاحب نے تولیت کی ذمہ داری لی ۔خاندانی طور پر آپ سادات کے اس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ؛جوسات صدی قبل یمن کے علاقہ حضرموت سے آکر کوکن کے علاقہ میندری میں آبادہوگیاتھا۔ آپ نے کچھ دنوں علاقہ کے اسکول میں تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ حسینیہ راندیر تشریف لے گئے ،جہاں عربی چہار م تک کی تعلیم حاصل کی،وہاں سے احمدآباد منتقل ہوئے ،پھراپنے استاذ حضرت مولانا ظریف الحسن کے توسط سے دارالعلوم دیوبندچلے گئے اور وہیں سے سند فضیلت حاصل ۔ فراغت کے بعد درس تدریس کاسلسلہ شروع کیا ،مگر برزگوں کے حکم پر اسے خیربادکہااور جامع مسجد بمبئی کی امامت وخطابت کی ذمہ داری سنبھال،پھرتادم واپسیں مکمل یکسوئی کے ساتھ وہیں سے دینی وعلمی خدمات انجام دیتے رہے، چنانچہ بہتوں نے کسب فیض کیا اور اپنی زندگیاں سدھاری اوربہتوں نے بداعمالیوں سے توبہ کی اورعمدہ زندگی گزرا ی ۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ ۔

«
»

ایک اوردادری!

سیکولرزم کا راگ اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے