نازش ہما قاسمی
جی! ڈاکٹر شہاب الدین، فخر بہار، قد آور لیڈر، زیرک سیاست داں، شجاع، دلیر، بہادر، نڈر، بےباک، بے خوف، جاں باز، جری، ہمت والا، پر عزم، پرجلال، باہمت، با عزت، پریقیں، جرات مند، بلند نظر، بلند فطرت، شریف النفس، راسخ الارادہ، حق گو، عظیم المرتبت، ثابت قدم، غیرت مند، خوش وضع، خوش اخلاق، انتہائی حسین و جمیل، بہتر ساخت اور قد وکاٹھ کا مالک، سخت جان، اعلیٰ تعلیم یافتہ، علم دوست،دیانند آیورویدک میڈیکل کالج اینڈ ہوسپیٹل (سیوان)، اسلامیہ ہائی اسکول (سیوان)، دیش رتنا راجیندرا مہاودیالیہ (سیوان)، اسلامک ایجوکیشن اینڈ سوشل ویلفیئر ٹرسٹ (سیوان) سمیت کئی تعلیمی ، رفاہی اور سماجی تنظیموں اور ا داروں کا بانی، سربراہ و سرپرست، علوم کا قدر داں، گھڑ سواری کا شوقین، پر اثر خطیب، بہترین مقرر، الفاظ سے کھیلنے کا ہنر جاننے والا، مذہبی رہنمائوں کا قدر داں، عظیم سیاست داں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا سابق کورٹ ممبر، معروف سماجی خدمت گار، بااثر مسلم رہنما، شیر بہار، کنگ آف سیوان ،کسی کے نزدیک ہیرو تو کسی کے نزدیک زور آور، دبنگ اور غنڈہ، مظلوموں کےنزدیک رہبر تو ظالموں کے نزدیک راہ زن، آر جے ڈی کا مسلم چہرہ، لالو کا قریبی، سیاسی دشمنی اور فرقہ پرستی کا شکار، اندھیری رات کا مسافر، برسوں جیل کی تاریکی میں قوم کے روشن مستقبل کےلیے خواب دیکھنے والا، کال کوٹھری میں صعوبتیں برداشت کرنے والا، حالات کیسے بھی ہوں باطل کے آگے سر نہ جھکانے کی تعلیم دینے والا، غریبوں کا مسیحا، بیوائوں کے لیے حرف تسکین، پریشان حال کےلیے حرف آس و امید، مظلوموں کا ہمدرد، ظالموں کے لیے علامتِ خوف، ہندوئوں کا بھائی، مسلمانوں کا بیٹا، گنگا جمنی تہذیب کا پروردہ، سابق ممبر آف پارلیمنٹ ڈاکٹر شہاب الدین ہوں۔
میری پیدائش ۱۰؍ مئی ۱۹۶۷ کو سیوان ضلع کے پرتاپ پور میں والد محترم شیخ محمد حسیب اللہ اور والدہ محترمہ مدینہ بیگم کے ہاں ہوئی۔ میری ابتدائی تا اعلیٰ تعلیم بہار میں ہی مکمل ہوئی۔ میں نےڈی اے وی کالج سیوان، بی آر امبیڈکر بہار یونیورسٹی مظفر پور وغیرہم سے مختلف شعبہ جات میں تعلیم حاصل کی اور ایم اے پالی ٹیکنیکل سائنس اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۸ نومبر ۱۹۹۱ کو حنا شہاب سے میری شادی ہوئی جس سے میرا ایک لڑکا اسامہ شہاب اور دو بیٹیاں ہیں۔
ہاں میں وہی شہاب الدین ہوں جو ۱۹۹۰ میں محض ۲۳؍ سال کی کم عمر میں بہار قانون ساز اسمبلی کا رکن بن گیا تھا،اور اسی کم عمری سے اخیر عمر تک کہیں بھی ہار نہیں مانی، ہمیشہ جیت حاصل کرتا گیا، فتح و کامران ہوتا گیا اور سیوان سمیت پورے ہندوستان میں اپنے رعب و دبدبے اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے جلد ہی معروف ہوگیا۔ ۱۹۹۵ میں دوبارہ ایم ایل اے بنا لیکن بڑھتے قد اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے ۱۹۹۶ میں لوک سبھا کا ٹکٹ دیا اور اس الیکشن میں تاریخ ساز جیت حاصل کرکے ممبر آف پارلیمنٹ بن گیا اور یہ سلسلہ ۲۰۰۴ تک مسلسل چلتا رہا، چار بار یہاں کا رکن رہا اور قومی و ملی مسائل پر بحث کی اور کئی مسائل حل کرائے، ہاں میں وہی شہاب الدین ہوں جو اپنے گھر میں عوامی مسائل سلجھانے کےلیے جنتا دربار منعقد کرتا تھا جہاں ہر مسلک ومذہب کے افراد شریک ہوتے تھے اور اپنے مسائل کا تصفیہ کراتے تھے، اگر کسی نے کسی کی جبراً زمین ہڑپ لی ہوتی تو اسے میں واپس دلانے کا کام کرتا تھا، یہاں تک کہ کوئی کسی کو بلا وجہ طلاق دیناچاہتا تھا تو میں اسے شریعت کی روشنی میں سمجھا بجھا کر اسے بہترین اور خوشگوار زندگی کی طرف مائل کرتا تھا، اگر یہ ناممکن ہوتا تو بہترین طور طریقے سے دونوں کے درمیان شرعی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے جدائی مقرر کروادیتا تھا، سیوان میں جس وقت میرا سکہ چلتا تھا اس وقت وہاں جرائم کی شرح کم ہوگئی تھی، لوگ جرم کرنے سے ڈرتے تھے، گھبراتے تھے۔ ہاں میں وہی شہاب الدین ہوں جس نے اپنے جنتا دربار میں بے کسوں کی دست گیری کی، بیوائوں کی مدد کی، شادی کی عمر کو پہنچ چکی مسلم و غیر مسلم ہزاروں لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرائے، ان کا بھائی بن کر ان کے سروں پر دست شفقت رکھا اور ان کی وداعی و رخصتی کروائی۔
ہاں میں وہی شہاب الدین ہوں جس نے جیل سے چھوٹتے ہی نتیش کمار کو حالات کا وزیر اعلیٰ کہا تھا ، جس کے بعد پھر مجھے سیاست کی بھینٹ چڑھنا پڑا اور دوبارہ جیل کی سلاخوں کو آباد کرنا پڑا جس کے بعد میری وہاں سے رہائی نہیں ہوئی اور لاش ہی نکلی۔ ہاں میں وہی شہاب الدین ہوں جس پر قتل، اغوا، بم باری، غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور جبراً وصولی کرنے کے درجنوں معاملات درج ہیں۔ مجھے عدالت سے عمر قید کی سزا مل چکی تھی۔
میں تہاڑ جیل میں قید تھا اور وہیں سے بیمار ہوکر دین دیال اپادھیائے اسپتال میں زیر علاج رہا جہاں یکم؍مئی ۲۰۲۱ کو میری وفات ہوگئی ، وفات کے بعد خوب ہنگامے ہوئے، شور شرابے ہوئے، وفا داری و بے وفائی کاامتحان ہوا، اپنے اور دوسروں میں فرق معلوم پڑا، جس کےلیے پوری زندگی وقف کردی اس کے کرتوت سے واقف ہوا، میرا بیٹا اسامہ شہاب اکیلے سسٹم سے لڑتا رہا اور اس کوشش میں رہا کہ سیوان میرے جسد خاکی کو لے جاسکے؛ لیکن اس کی امید، کوششیں وی آئی پی ہونے کے باوجود کووڈ گائیڈ لائن کا حصار نہ توڑ سکی؛ کیوں کہ میں ایک سیاست داں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی تھا، اگر روہت سردانہ جیسا رہتا تو شاید کچھ ڈھیل دی جاتی، خیر ۳؍ مئی کو دہلی کے آئی ٹی او قبرستان میں اپنے چند وفاداروں کی موجودگی میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے شعر ’کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کےلیے۔۔۔دو گز زمیں بھی نہ مل سکے کوئے یار میں ‘‘ کا شکوہ کرتے ہوئے اپنے آبائی گائوں سے ہزاروں کلو میٹر دور سپرد لحد ہوگیا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں