عشاء بعد کا وقت تھا، اپنے کمرے گیارہ نمبر (حجرۂ شبلی) میں تخت پر بیٹھے مختلف کتابوں کے اوراق کی گرد صاحب کر رہے تھے کہ برادر ِدرس و مذہب ارقم صدیقی نے اندر داخل ہوتے ہوئے سلام کہا، بعد علیک کچھ اہم گفتگو ہونے لگی تھی کہ اچانک غیر موضوع گورکھپور مسابقے کی بات نکل آئی، جانے کے سلسلے میں سوچنے کا کہا، اعلان و ضوابط اور تیاری کے لیے متعینہ کتاب دیکھنے کے بعد میرا سر و قلب خود بخود اشارۂ اثبات میں ہل گیا، موصوف ِمذکور نے رضامندی دیکھ کر فوراً استاذ مولانا ضیاء الحسن صاحب کو برقی پیغام بھیج دیا کہ ” اظفر منصور حدیث کوئز میں شرکت کے لیے راضی ہیں“ -اس عجلت کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ اسی فراق میں تھے کہ کوئی تیار ہو جائے-۔ یہ ہمارے لیے ذاتی طور پر بڑا فیصلہ تھا، کیونکہ اس طرح کے مسابقوں میں خود سے زیادہ اپنے ادارے کی تئیں محنت و جانفشانی کرنی پڑتی ہے، جسے ہم نے ایک غنیمت کا موقع سمجھ کر بسر و چشم قبول کیا، چونکہ اس میں ادارے کی بات تھی اس لیے ہم نے بعض ساتھیوں سے مشورہ کرنا بھی ضروری سمجھا، جس میں خصوصاً فرخ بھائی تھے، کیونکہ یہ پروگرام انہیں کے علاقے میں منعقد ہوا تھا، اس لیے ان سے زیادہ مناسب کوئی تھا بھی نہیں۔ لیکن ان سے مشورہ سے معلوم ہوا کہ کوئز کے لیے اصغر تیار ہو رہے ہیں تو ہم نے بھی کہا کہ ہاں یہ ٹھیک رہیں گے۔ مگر استاذ ضیاء صاحب سے پھر معلوم ہوا کہ وہ ہمیں ہی منتخب فر ما رہے ہیں، اس کے بعد دو دنوں جمعرات و جمعہ اس سلسلے میں بالکل خاموشی چھائی رہی کیونکہ ندوۃ العلماء کے النادی العربی کی جانب سے تشریف لائے مہمانوں کا اکرام و ضیافت ہم لوگوں کی پہلی کوشش تھی، سنیچر سے باقاعدہ تیاری شروع ہوئی، لیکن درمیان میں استاذ و مربی مولانا نسیم صاحب ندوی کے ایما پر اصغر کی بات آئی تو ہم نے بھی فوراً استاذ کا فیصلہ اور مدرسہ کا معاملہ سمجھ کر اپنا ارادہ ترک کر دیا مگر اس بار بھی ٹکٹ وغیرہ بن چکنے کی وجہ سے ہمیں ہی دوبارہ تیار ہونا پڑا۔ اس طرح ہم پانچ رفقاء فرحان وسیم (اردو تقریر) یوسف فیصل (نعت خوانی) احمد مصطفیٰ (قرأت) اظفر منصور (حدیث کوئز) فرخ نعمان (بطور رہبر) پر مشتمل یہ ٹیم بروز سنیچر ڈھائی بجے بادشاہ نگر ریلوے اسٹیشن کے لیے بذریعہ Ola اساتذہ و احباب کی دعاؤں کے ساتھ روانہ ہوئی۔ خوشی و غم کی ہلکی ہلکی آمیزش کے ساتھ ہم لوگ تیز تیز اسٹیشن کی جانب بڑھ رہے تھے، چند ساعتوں کے بعد ہم بادشاہ نگر میں تھے، جہاں سے گورکھپور انٹرسٹی ایکس پریس ٹرین سے جانا تھا، مگر لکھنؤ سے بن کر چلنے والی یہ ٹرین نہ جانے کس سبب تاخیر پہ تاخیر ہوتی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے یہ سفر ہم تمام ساتھیوں کے لیے زحمت سے بڑھ کر مصیبت بن گیا۔ تقریباً چار گھنٹے کی تاخیر سے شب ڈیڑھ بجے ٹرین گورکھپور پہنچی، جہاں سے بیٹری رکشے کے ذریعے ہمیں مسابقہ گاہ ”میاں صاحب اسلامیہ انٹر کالج“ جانا تھا، ٹرین چونکہ کافی لیٹ ہوچکی تھی اس لیے باہر ہی سے فرخ بھائی نے ہم لوگوں کے لیے مراد آبادی بریانی لے لی، جب کالج پہنچے تو رات کے دو بج رہے تھے اور صدر دروازے پر چند مساہمین طلباء جو کہ مذکورہ ٹرین سے ہی آئے تھے دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے، دو چار منٹ انتظار کرنے کے بعد ایک صاحب نے اندر سے دروازہ کھولا۔ ہم لوگوں کو اسی وقت قیام کے لیے ایک وسیع کمرہ جو کہ کلاس کے طور پر استعمال ہوتا ہے دیا گیا، ساتھ میں بستر کے لیے گدے، چادریں، لحاف و تکئے وغیرہ بھی دئیے، مزید ان لوگوں نے کھانے کے لیے بریانی کا بھی نظم کر دیا جس سے خوشی دوبالا ہوگئی۔ تھکاوٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے فوراً فوراً کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد بستر پر دراز ہوگئے اور صبح کالج کے ٹیچروں کے کرکٹ کھیل کود اور شور شرابے سے آنکھ کھلی۔ برش و کولگیٹ سے فارغ ہوا تو چائے اور بسکٹ تیار تھے، پھر تھوڑا ہی وقت گذرا تھا کہ کچھ لوگ ناشتے کے لیے بلانے آگئے، اب ناشتے میں پوڑی سبزی، حلوہ وغیرہ تھا، ہم لوگ مع استاذ مولانا ضیاء صاحب و مولانا محمود صاحب کے ناشتے سے فارغ ہوئے، اور مسابقے کی تیاریوں میں لگ گئے، آج کی تاریخ ۳ دسمبر تھی، آج ہی کے دوپہر میں ۱:۳۰ سے فرحان وسیم بھائی کا تقریری مسابقہ شروع ہونا تھا اس لیے وہ مزید محنت و جستجو میں لگ رہے۔ دوپہر کو مسجد میں ہم لوگوں نے گذشتہ دنوں کی سفر میں چھوٹی نمازیں پڑھیں اور کمرے واپس لوٹے تو دیکھا کہ جناب مفتی آصف انظار عبدالرزاق صدیقی ندوی صاحب جو کہ ایک نہایت قابل فاضل ہیں تشریف فرما ہیں، سلام و کلام کے بعد تقریر کی فکر کی وجہ سے تھوڑا سا کھانا کھایا گیا پھر شامیانے میں آکر بیٹھ گئے، فوراً ہی مقابلہ شروع ہوا اور فرحان بھائی کو پہلے ہی نمبر پر بلایا گیا،جس کی وجہ سے اب مزید شامیانے میں بیٹھنا خود کو زحمت دینا تھا، اس لیے ہم اور فرخ نے ایک کام کی وجہ سے باہر نکلے پھر فرخ نے بائک سے اپنے گھر نیز اپنے اساتذہ سے ملانے کا ارادہ کیا، چند گھنٹے ادھر صرف ہوئے، کہ عصر بعد کا وقت ہوگیا اور رزلٹ کا انتظار کرنے لگا۔ مغرب بعد یوسف فیصل کا نعت کا مقابلہ تھا، یہ مقابلہ بڑا سخت ثابت ہوا کیونکہ ایک سے بڑھ کر ایک ترنم کے شہزادے اپنی آواز سے ماحول پر چھا رہے تھے، کافی دیر تک یہ پروگرام بھی چلا، اسی بیچ ہم لوگوں نے نمائش گھر کی بھی سیاحت کر لی، جہاں پہلی مرتبہ کئی نادر و نایاب چیزوں سے آشنائی ہوئی، مثلاً ۱۳۰ سالہ قدیم قرآن مجید کا نسخہ، الفی قرآن مجید (جس کی ہر سطر الف سے شروع ہوتی ہے) اس قرآن کے آخری صفحات میں ہندوستان کے کئی نامور علماء کرام کے تائیدی کلمات و دستخط تھے جن میں ایک مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی، مولانا برہان الدین ندوی سنبھلی، مولانا منظور نعمانی وغیرہ کے دستخط و کلمات بھی تھے۔
اب تک عشاء بعد کا وقت ہوچکا تھا، چنانچہ عشائیہ سے فراغت کے بعد چند گھنٹے ہم نے کوئز کا مذاکرہ کیا پھر سو گئے۔ اور علی الصباح فجر میں آنکھ کھلی، تو مسجد میں نماز ہوچکی تھی تو دوسری نماز شیخ عبداللہ کی امامت میں ادا کی، اور کمرے آ کر پھر مذاکرے میں لگ گیا، آٹھ بجے سے احمد مصطفیٰ کا قرأت کا مسابقہ تھا جبکہ نو بجے سے میرا تحریری مسابقہ تھا۔ احمد مصطفیٰ نے خوب اچھی قرأت کی اور دوسرا مقام بھی حاصل کیا۔ جبکہ ہم نے بھی تحریری میں سارے جوابات درست دئیے تھے مگر ممکن ہے الفاظ وغیرہ کے استعمال نے ہمیں پیچھے کر دیا جس کی وجہ سے ہمارا انتخاب نہیں ہو پایا۔ اس حادثے سے ہم نے بہت کچھ سیکھا کہ ہر جگہ ایک ہی طرز سے نہیں زندگی گذارنا چاہئے بلکہ لوگوں کی فکر و نظریات کی اقتداء بھی بعض جگہ ضروری ہے۔ اب تک چونکہ تمام مسابقے ہو چکے تھے اس لیے ذہنی خوشی کے لیے کہیں سیر و سیاحت کے لیے جانا ضروری تھا، اس لیے سب سے قریب نوکا وہار نامی ایک بڑے تالاب کے لیے ارادہ بنا۔ تمام ساتھی جن میں معہد سکروری کے بعض طلباء تھے NUAKA VIHAR کے لیے نکلے، تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے ٹہلنے کے بعد ہم لوگ واپس ہو کر ایک ایسی جگہ پہنچے جو ہماری زندگی کی تاریخ کی ایک اہم ملاقات ہوگی۔ ان شاءاللہ
مولانا طارق شفیق صاحب ندوی سے ملاقات!
گورکھپور کا خطہ چونکہ ایک سیاسی مقام کے ساتھ علمی و ادبی مقام بھی رکھتا ہے، اس لیے یہاں کی زرخیز زمین سے کئی ایسی بلند پایا شخصیات ابھری ہیں جن پر علمی دنیا کو ناز ہے، انہیں عظیم ترین شخصیات میں سے ایک موجودہ دور کے مولانا طارق شفیق ابن مولانا شفیق الرحمٰن صاحب ندوی کی ذات ہے، مولانا موصوف کا اصل آبائی وطن تو بہار ہے مگر بچپنا لکھنؤ کی نزاکتوں میں گذرا تو بقیہ عمریں گورکھپور کی بہاروں میں بغرضِ کسب معاش گذر رہی ہیں۔ مولانا سے ملنے کا شوق ہمیں عرصے سے تھا مگر جب کالج میں قیام کے دوران معلوم ہوا کہ مولانا یہیں کہیں قریب میں رہتے ہیں، تو پھر کیا تھا دیرینہ خواہش کو پنپنے کا موقع ملا اور اشتیاق ِدید کو بڑھنے کا حوصلہ ملا، ملاقات نامہ لکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، بس اسی کے ساتھ تمام رفقاء سفر کے ہمراہ مولانا کے گھر جانے کا پروگرام بن گیا، مغرب بعد تقریباً ایک گھنٹے تک مولانا اپنی وہیل چئیر پر بیٹھ کر ہم سے باتیں کرتے رہے، کبھی برادر اظہر منصور کا تذکرہ کرتے تو کبھی ہمارے اساتذہ خصوصاً مولانا نسیم صاحب ندوی، مولانا اسماعیل صاحب ندوی، مولانا امتیاز صاحب ندوی، مولانا منور علی صاحب ندوی مولانا ناصر علی صاحب ندوی وغیرہ کی خصوصیات وغیرہ بتاتے۔ کافی خوشگوار مجلس تھی، ہم لوگوں کو خود مولانا کی تصنیف کردہ تین اہم ترین کتابیں (…. اور میری شادی ہوگئی، گنجینہ فکر و دانش، تذکرہ علم و عمل) ملیں، مولانا کافی خوش مزاج واقع ہوئے۔ اس بیچ مولانا نے کئی ایک مقامات کا بھی تذکرہ کیا جس سے فرحان وسیم بھائی کی زبان سے بیساختہ نکلا کہ ” آپ تو ابن بطوطہ معلوم پڑتے ہیں“ مولانا نے شیخ سعید کی چائے سے مجلس میں مزید رنگ بھر دی۔ پوچھنے پر بتایا کہ کالی چائے کو آپ مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء حضرت شیخ سعید الرحمٰن صاحب اعظمی کی چائے کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ خوشگوار محفل ایک ضروری کام کے درپیش آ جانے کی وجہ سے اچانک ختم ہوگئی۔ البتہ جاتے جاتے اس لمحے کو یاد داشت کا حصہ بنانے کے لیے دو چار تصویر کشی بھی ہوگئی تھی۔
برادر فرخ نعمان کے گھر عشائیہ کی دعوت!
مولانا دامت برکاتہم سے ملاقات کے بعد تقریب تقسیم انعامات کی محفل میں شرکت کے لئے ہم لوگ رکشہ سے کالج پہنچے، احمد مصطفی جنکی دوسری پوزیشن آئی تھی انہیں ٹرافی اور سند سے نوازا گیا، اس کے بعد عشائیہ کے لیے ہم لوگوں نے فرخ بھائی کے گھر کے لیے سامان وغیرہ تیار کیا اور تھوڑی دیر کی تاخیر سے دولت کدہ پہ پہنچ گئے، موصوف کے والد، چچا، بھائی وغیرہ انتظار میں تھے، خندہ پیشانی سے ملے، اور مہمان خانے میں قیام کی اجازت دی، پھر چند ہی لمحے میں فرخ نے دسترخوان سجا دیا اور اس پر انواع و اقسام کی نعمتیں بچھا دیں، کھانے سے فراغت کے بعد ایک چھوٹی سی نعتیہ و غَزلیہ مجلس لگی، پھر چائے وغیرہ کی مصروفیات کے ساتھ گھڑی کی سوئی تقریباً ساڑھے گیارہ بجے شب کے قریب جا پہنچی، پھر ضروری امور کی انجام دہی کے بعد ہم لوگوں کو گورکھپور اسٹیشن تک چھوڑنے کے لیے دو رکشے فرخ بھائی کے والد صاحب نے بلوا بھیجے۔ ایک بیس پہ ہماری ٹرین لکھنؤ واپسی کے لیے تھی، اس لیے ہم لوگ بارہ بجے سے کچھ متجاوز گورکھپور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ایک پر پہنچ گئے اور ٹرین کا انتظار کرنے لگے۔ ویسے انڈین ٹرینوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہ کبھی بھی وقت پر پہنچ کر اپنی عزت خراب نہیں کرتی، بلکہ اگر کبھی وقت پر پہنچنا بھی ہو تو اسے اسٹیشن کے باہر سگنل کے نام پر روک دی جاتی ہے، ہماری ٹرین کے ساتھ بھی یہی ہوا ٹرین کچھ تاخیر سے اسٹیشن پہنچی اور تھوڑے وقفے کے بعد گومتی نگر کے لیے نکل پڑی۔ صبح تقریباً آٹھ بجے گومتی نگر اور سوا نو بجے ہم لوگ مدرسے پہنچ گئے، لیکن اب ہمارے ساتھ لوگ کچھ کم تھے کیونکہ فرحان بھائی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ گھر چلے گئے اور مولانا کسی وجہ سے ندوۃ کی جانب نکل گئے۔
گورکھپور کا سفر اور تاثرات و تجربات!
گورکھپور کا یہ سفر جس کی اجمالی روداد اوپر بیان ہوئی یہ ہمارے لیے ذاتی طور کئی ایک لحاظ سے اہم ثابت ہوا، کیونکہ اس شہر کی ایک نرالی شان اور پہچان ہے، یہ سیاحوں کا مرکز بھی ہے اور عقیدتمندوں کا مرجع بھی، یہاں طالب علموں کا ہجوم بھی ہوتا ہے اور معیشت و روزگار کے متلاشیوں کا مجمع بھی۔ اس لیے یہاں جانا کسی فخر و اعجاز سے کم بات نہ تھی، ویسے اس سفر کا اصل مقصد اپنے مدرسے کی نیابت کے لیے ایک مسابقے میں شرکت کرنا تھا، تیاری معتدل بلکہ بہت بہتر تھی مگر سوائے احمد مصطفیٰ (قرأت میں دوم) کے کسی کی کوئی پوزیشن نہ آسکی۔ جس سے ہمیں کئی طرح کے تجربات حاصل ہوئے۔ مثلاً ہر جگہ علمی انداز مناسب نہیں، بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے خود اور خود کی صلاحیتوں اور انداز کو بھی بدلنا ضروری ہے، اب دیکھئے نہ کہ فرحان وسیم بھائی کی تقریر کتنی اچھی تھی، انداز نرالا تھا، آواز اور اسکی پیچ و خم کیا خوب تھی، مواد کتنے نایاب تھے مگر انداز، ایکشن قدیم تھا، علمی تھا، مدرسوں والا تھا، جس سے نتیجے پر غلط اثر پڑ گیا۔ ہمارا تحریری مسابقہ تھا، تقریباً پچاس سوالات پر مشتمل تین پرچے دئیے گئے، نہایت مختصر جوابات تھے، پھر ہم نے یہ غلطی کی کہ سوالات کے جوابات شکل بشکل کتاب کی روشنی میں نہیں اتارے، بلکہ قریباً چالیس سوالات تو کتاب کے الفاظ کی روشنی میں تھے اور بقیہ دس الفاظ کے الٹ پھیر سے تھے جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ناکام ہو گئے، خیر یہ فیصلہ منجانب اللہ تھا۔ باعتبار مجموعی گورکھپور کا یہ سفر بڑا یادگار ثابت ہوا، زندگی میں مزید نکھرنے آگے بڑھنے اور ماحول کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اس لیے ہم اپنے اساتذہ، ادارہ، رفقاء کے علاوہ تمام کے مشکور و ممنون ہیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں