غزہ:(فکروخبر/ذرائع) اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے برائے اطفال "یونیسف” کے ترجمان کاظم ابو خلف نے غزہ کی سنگین صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ تباہ حال بستیوں میں انسانی زندگی بدترین خطرے سے دوچار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ طبی عملہ شدید دباؤ میں کام کر رہا ہے۔ اسپتالوں میں دوا، سازوسامان، بجلی اور ایندھن ناپید ہو چکے ہیں۔ ان بدترین حالات میں معصوم مریض بے بسی سے موت کا انتظار کر رہے ہیں۔
ابو خلف نے کہا کہ اقوامِ متحدہ صرف بین الاقوامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کر رہی ہے جو ہر انسان کو علاج، زندگی اور نقل و حرکت کا حق دیتا ہے۔ اگر غزہ کو یونہی نظر انداز کیا گیا تو ہمیں ایک ایسی اجتماعی تباہی کا سامنا ہوگا جس کے زخم نسلوں تک باقی رہیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ روزانہ درجنوں بچے، خواتین اور بزرگ صرف اس لیے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کہ انہیں بنیادی طبی سہولیات بھی میسر نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف امداد سے حل نہیں ہوگا، بلکہ غزہ کی بحالی کے لیے ایک مکمل منصوبہ درکار ہے، جس میں معیشت کی بحالی، سرحدوں کا کھلنا، اور ادویات و ایندھن کی فراہمی شامل ہو۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جنگ سے پہلے غزہ میں 36 اسپتال کام کر رہے تھے، مگر اب صرف 18 کسی حد تک فعال ہیں، وہ بھی اپنی پوری استعداد سے نہیں۔ مزید یہ کہ 10 ہزار سے زائد شدید زخمی ایسے ہیں جنہیں فوری بیرونِ غزہ علاج کی ضرورت ہے، مگر روزانہ صرف دو مریضوں کو ہی باہر جانے کی اجازت ملتی ہے۔ اس رفتار سے تمام مریضوں کو علاج کے لیے نکالنے میں 13 سال لگ سکتے ہیں — جو شاید ان کے پاس نہیں۔