حملوں کے آغاز ہی سے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اسے اگر نیتن یاہو کے اعلان کردہ ’جنگ آزادی‘ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فلسطین کے مکمل خاتمے کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔ 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے فلسطین، اقوام متحدہ کی قرادادوں اور پناہ گزیں کیمپوں تک محدود ہے لیکن اسرائیلی قیادت اس رسمی اور نامی حیثیت کو بھی ختم کر دینے پر تُلی نظر آرہی ہے۔ جمعہ 27؍ اکتوبر کی شام سے اسرائیل نے غزہ پر خوفناک بری حملے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سے پہلے چہارشنبہ اور جمعرات کو داخلے کی محدود کارروائی کی گئی جسے اہل غزہ نے پسپا کر دیا۔ اس شب خون میں اسرائیل کے کئی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ ہوئیں اور ایک فوجی بھی مارا گیا۔ بری حملے سے پہلے یہودی علما نے ہنگامی صورتحال کا حیلہ اختیار کرتے ہوئے سبت کی پابندیاں معطل کر دیں۔ حملے کا آغاز غزہ کی پوری پٹی پر فاسفورس بموں کی بارش سے ہوا۔ سفید فاسفورس سے پھوٹنے والی چنگاریوں کی حدت 800 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتی ہیں، چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں سارا غزہ دہک اٹھا۔ اقوام متحدہ نے سفید فاسفورس کو ممنوعہ ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ امریکہ بہادر نے بھی اسے افغانستان میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا تھا۔ اسی کے ساتھ بمباروں اور ڈرونوں نے غزہ پٹی کے ایک ایک انچ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ تینوں جانب سے توپ خانے اور ٹینکوں نے مہلک ترین گولے برسائے اور بحر روم سے اسرائیلی بحریہ نے خشکی پر مار کرنے والے میزائیل داغے۔ یہ کارروائی تادم تحریر یعنی 30؍ اکتوبر تک جاری ہے۔ غزہ کی سرحد پر کھڑے فاکس نیوز کی ایک صحافی نے کہا ’ایسا لگ رہا ہے گویا سارا غزہ شعلوں اور زمین زلزلے کی لپیٹ میں ہے‘۔ غزہ میں پھٹنے والے بم و میزائیل اور بارودی گولوں کے دھماکوں سے شام، صحرائے سینائی اور لبنان کے بڑے علاقے گونج رہے ہیں لیکن مسلم اکثریتی ممالک سمیت ’مہذب‘ دنیا کے کانوں میں خوف و مفادات کا سیسہ اس قدر گہرائی تک اتر چکا ہے کہ انہیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ہے۔ ادھر امریکی شعبہ قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے اسرائیل کی بری مہم کے لیے مکمل تعاون کا عزم اور کامیابی کے لیے نیک تمناوں کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے واشنگٹن میں آسٹریلوی وزیر اعظم کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا ’غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں مجھے یقین نہیں ہے کہ فلسطینی سچ بول رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ غزہ میں بے گناہ مارے گئے ہیں اور یہ جنگ چھیڑنے کی قیمت ہے‘۔ بری حملے کا اعلان اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی نے کیا۔ قومی یکجہتی کے لیے ان کی اخباری کانفرنس میں حزب اختلاف کے رہنما اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بینی گینٹز (Benn Gantz) بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وزیر دفاع یاوو گیلینٹ (Yoav Gallant) نے تکبر سے چور لہجے میں کہا ’ہم نے سرزمینِ غزہ پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ ہم حماس کے خلاف نہیں بلکہ وحشت و بربریت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جس سے جدید تہذیب کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے حماس کے خلاف جنگ کو ’جنگ آزادی‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ بری جنگ طویل، تکلیف دہ اور مشکل ہو سکتی ہے۔ یہ جنگ ہم یقیناً جیتیں گے لیکن قوم کو قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بری حملے کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پر معروف عسکری تجزیہ نگار زوران کوسووچ (Zoran Kosovac) نے کہا Israel’s ground attacks yield lots of bang
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں