طویل نظم ہے اورنعمت الہٰی کے شکر سے لبریز۔ بچے بڑے سب ذوق و شوق سے پڑھتے ،یادرکھتے ۔یہاں تک کہ ہماری وزیر اقلیتی امورنجمہ ہبت اللہ کو بھی یاد ہے، حالانکہ وہ انگریزی میڈیم کی طالبہ تھیں۔ سوچتا ہوں آج اگرمودی کے دور میں مولوی اسمٰعیل حیات ہوتے تو شاید کچھ یوں کہتے:
اپنی گائے اٹھا لے مالک
جان ہماری بچا لے مالک
رحمت تھی کل تک جو گائے
زحمت بن گئی آج وہ گائے
ایسی گائے کسی کو نہ بھائے
دودھ دہی جو دے نا پائے
گؤ کا نام اور گندی سیاست
ہر سو برپا شورِ قیامت
راجدھانی دہلی سے متصل داردی کی مضافاتی آبادی بسارا میں 29 ستمبر کو جو المناک سانحہ پیش آیا ،اس کی گونج یوپی کے ضلع مین پوری کے کرہال قصبہ میں بھی سنائی دی۔ چار افراد ایک مردہ گائے کے کھال اتار رہے تھے کہ ایک ہجوم وہاں آدھمکا۔ ان میں سے دوتو نکل بھاگے مگر دو پکڑے گئے اوران کومارنا شروع کر دیا۔ منصوبہ زندہ جلانے تھا۔ مقامی بھاجپا صدر نے اس کے لئے تیل بھی منگوا لیا۔ مگر قسمت سے پولیس فورس پہنچ گئی اور ان کواپنی تحویل میں لے لیا۔
ٹائمزآف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گائے ایک غیرمسلم کی تھی۔ بیماری سے مرگئی تو مردہ مویشیوں کو ٹھکانے لگانے والوں کوبلاکر اٹھوا دیا۔ گائے اٹھتے ہیں اس کے لڑکے نے وہاٹس ایپ پر گؤ کشی کی جھوٹی خبر اپنے گروپ کو بھیجی ۔ بھاجپا اورسنگھ پریوار سے وابستہ گروپوں نے اس کو آگے بڑھاد یا۔ چشم زدن میں لاٹھی ڈنڈوں اور آتشیں اسلحہ سے لیس بھیڑ وہاں جمع ہوگئی ۔ ’’جے شری رام ‘‘ اور’’گؤ ہماری ماتا ہے‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ بھگوااسٹال ان کے گلوں میں پڑے تھے اورسروں پر بندھے تھے۔ پولیس کو گمان ہے کہ یہ واقعہ اتفاقی نہیں بلکہ سازشی ہے۔ جن 31 افراد کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ، ویڈیو کلپنگ سے پہچان کر جن کو پکڑا گیا،ان میں سے21کا تعلق بھاجپا سے بتایا جاتا ہے۔ پارٹی نے ان میں سے 14 کے ممبرہونے کی تصدیق کردی ہے۔ان میں بھاجپا کے مقامی صدر راکیشن چندیل شامل ہیں جو آگے آگے تھے۔ بھیڑ میں اکثریت 18تا 25برس کے نوجوانوں کی تھی۔ان کا مطالبہ تھا کہ پولیس ان دونوں افراد کو ان کے حوالے کردے تاکہ وہ خود’انصاف‘ کا تقاضا پورا کردیں۔جب پولیس دباؤ میں نہیں آئی توپولیس کی ایک موٹرسائکل اور دو جیپ گاڑیاں جلا دی گئیں ۔ شہر میں ایک ہی فرقہ کی املاک کو نذرآتش کردیاگیا۔ ہرچند کہ پولیس اورانتظامیہ کی مستعدی سے معاملہ فوری طور سے قابو میں آگیا۔ مگرذہنوں میں فساد تو پھیل ہی گیا۔ بقول حفیظؔ میرٹھی
ایسی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلے جاتی ہے آگ
پاسباں آنکھیں ملے، انگڑائی لے، آواز دے
اتنے عرصے میں تواپنا کام کرجاتی ہے آگ
دادری اورجونپور کے معاملات میں مرکزی کابینہ کے وزیروں اور ریاستی بھاجپا کے لیڈروں کی پوری پوری تائید اور حمایت دنگائیوں کے ساتھ ہے۔ ہرچند تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نہ دادری میں کسی نے گائے کاٹی اورنہ مین پوری میں گؤ کشی ہوئی مگر بھاجپا کے ریاستی صدر لکشمی کانت باجپئی نے لکھنؤ میں کہہ دیا کہ پارٹی چندیل کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کریگی۔ انہوں نے یہ بات بھی خلاف واقعہ کہی کہ ’’گؤ کشی کرنے والوں کی گرفتاری میں پولیس کی ناکامی کی وجہ سے ‘‘ عوام میں غصہ بھڑکا۔ بلا تصدیق یہ دعوا بھی کیا کہ پولیس اورانتظامیہ گائے کی موت کی وجہ بیماری بتارہے ہیں، حالانکہ وہ دراصل کاٹی گئی تھی۔ یہ بات پوسٹ مارٹم رپورٹ اورگائے مالک کے اعتراف سے صاف ہوچکی ہے کہ گائے بیماری سے مری۔
بھاجپا لیڈر کایہ بیان واضح طور سے اپنے کیڈر کی غنڈہ گردی اور لاقانونیت کی تائید و حمایت میں ہے اور اس طرح کی لاقانونیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ان کا صاف مقصد گائے پر سیاست کرنا اورعوام کو گمراہ کرنااورمذہبی جذبات کو بھڑکانا ہے۔ ان کا یہ بیان ظاہر کررہا ہے کہ 2014کے پارلیمانی الیکشن میں مودی نے وکاس ، پریورتن، سب کا ساتھ، مہنگائی ،اچھے دن اور روزگار فراہمی کے لوک لبھاون نعرے لگائے تھے ان کی قلعی اتر چکی ہے۔ اس لئے پارٹی گائے کی سیاست پراترآئی ہے۔
نوادہ بہار کی انتخابی ریلی میں مودی جی نے دادری معاملے کا حوالہ دئے بغیر منھ کھولا اورایکتا، بھائی چارہ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لئے صدرجمہوریہ کی نصیحتوں پرعمل کی تلققین کی۔ انہوں نے یہ نصیحت بھی دوہرائی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں نہیں لڑنا چاہئے بلکہ دونوں کو مل کر غریبی سے لڑنا چاہئے۔ ان کی نصیحت سرآنکھوں پر ۔ہونا ایسا ہی چاہئے، بشرطیکہ مودی جی اوران کا پریوار ہونے دے۔ہم فرقہ ورانہ لائنوں پر سیاست اورصحافت کے قائل نہیں۔ لیکن انصاف کی بات ہے کہنی ہوگی۔ آزاد ہند کا مسلمان تو غریبی، بیماری، ناخواندگی اور معاشرہ کی خرابیوں سے ہی لڑرہا ہے۔ گزشتہ 65 برسوں میں اس نے کوئی مطالبہ ایسا نہیں کیا، کوئی تحریک ایسی نہیں کھڑی کی جس کی زدکسی دیگرقوم پر پڑتی ہو۔ہم کسی کے عائلی معاملات، روز مرہ کے طورطریق، طرز عبادات، کھانے پینے کی عادات وغیرہ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھاتے۔ ڈیک اوربینڈ باجہ لیکر آرتی اورپوجا کے ٹائم کسی مندر کے سامنے ہلڑ نہیں مچاتے۔کسی کے مقدس مقامات کی بے توقیری نہیں کرتے۔ کسی کی عبادت گاہوں پر دعویداری لیکر رتھ یاترا نہیں نکالتے۔ کسی کی بچیوں کو اٹھالیجانے اورجبری شادی کی دھمکی نہیں دیتے۔ منھ پھٹ لیڈروں ، سادھویوں اورمہنتوں کو جو ہمیں پاکستان چلے جانے یا سمندر میں ڈوب مرنے کا مشورہ دیتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ تم خود کیوں نہیں ہمالیہ کی چوٹیوں پر چڑھ جاتے کہ سکون سے ریاضت کرسکو۔ مسلمانوں نے اگر کچھ مانگا ہے تو انصاف مانگا ہے ۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو دہشت گردی کے نام پر ان کے پر روا رکھا گیا ہے۔ آج بھی سینکڑوں بے قصور جیلوں میں قیدہیں۔ ہم ان کے لئے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہم نے اپنا اتنا ہی حق مانگا ہے جو آئین میں درج ہے۔آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی آستھا سب پر مسلط ہو۔کچن بھی آپ کی مرضی سے چلے اورخوابگاہ تھی۔ ہم نے کبھی کوئی ایسا مطالبہ نہ کیا اورنہ کریں گے کیوں کہ اسلام کا اصول یہ ہے ’تمہارادین تمہارے لئے، ہمارا دین ہمارے لئے۔‘ (الکافرون)
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نہ ہمارا کو کوئی جھگڑا ہندو بھائیو ں سے ہے اور نہ ہندوؤں کا مسلم فرقہ سے۔اس کا ثبوت دادری بسارا کے ہندوؤں نے 11اکتوبر کو دومسلم بچیوں کی شادی کی میزبانی کرکے دیدیا۔حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کے سسرال والے وہاں بارات لانے پرآمادہ نہیں تھے۔ ان کے غریب باپ حکیم نے مجبوراًکہیں اور مدرسہ میں نکاح کا ارادہ کیا تھا، مگر انتظامیہ اور مقامی ذمہ دار باشندے حکیم کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ دونوں لڑکوں کے ورثاء کو آمادہ کیا کہ حکیم کی بیٹیاں ہماری بیٹیاں ہیں۔ ہم گاؤ ں سے ہی رخصت کریں گے۔ان کی کوشش کامیاب ہوئی۔ دونوں باراتیں بسارا کے اسکول میں ہی آئیں۔ مقامی ہندوؤں نے باراتیوں کا استقبال اپنے مہمانوں سے بڑھ کر کیا۔ ہندو نوجوانوں نے مہمانوں کی تواضع کی۔ سارا انتظام ہندوبھائیوں نے کیا۔ انتظامیہ بھی مستعد رہا۔ یہ جذبہ قابل قدراورلائق مبارکباد ہے۔ بسارا کے باشندوں نے جتادیا کہ اکثریت کو اقلیت کے خلاف ورغلانے اور بھڑکانے کا کام بھاجپا اور اس کے بغل بچوں کا ہی وطیرہ ہے۔
نہ دادری میں گؤ کشی ہوئی اورنہ مین پوری میں۔سنگھی کیڈرنے ہی افواہ پھیلائی اورمٹھی بھر لوگوں نے تشدد برپا کیا ۔دادری میں ان کی تعداد چالیس سے زیادہ نہیں تھی۔ مین پوری میں اوربھی کم ہے۔ اب مودی جی کی پارٹی کے ریاستی صدر اس تشدد کو جائز ٹھہرارہے ہیں ۔ خطاکاروں کی تائید اور بے قصوروں کی تاک میں مستعد ہیں۔ مودی جی ملک میں امن واما ن ، بھائی چارہ قائم ہوجائیگا اگر ووٹوں کی خاطر اس پرتشدد سیاست سے آپ توبہ کرلیں اور اپنی پارٹی کے لیڈروں کو بھی باز رکھیں۔اس کے لئے آپ کو اپنا یہ نظریہ چھوڑنا ہوگا کہ ’’ہندوؤں کو اپنا غصہ نکالنے دیا جائے۔‘‘ یہ غصہ جائز نہیں۔یہ ہندستان کی تباہی کا فرمان ہے۔ جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔
نوادہ کی ریلی میں اپنی اس تقریر کے دوران مودی جی نے تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ بلکہ گائے کی شاطرانہ سیاست کو بہار کے الیکشن میں بھی ابھارنے کی کوشش کی۔ کیونکہ حکومت ان وعدوں میں ناکام رہی جو لوک سبھا الیکشن میں کئے گئے تھے اس لئے اب آپ بھی گائے کی شرن میں آگئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بہار کے رائے دہندگان بیکاری اور آٹے دال، چاول، چینی کی گرانی کو دیکھ سمجھ کر ووٹ دیتے ہیں یا اس شور میں ہوش کھو بیٹھتے ہیں جو آپ کی پارٹی نے یوپی میں اٹھایا ہے۔اتنا طے ہے کہ ان واقعا ت سے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ کو داغدارکردیا ہے۔
کلکرنی پر حملہ
مسٹرسدھیندرکلکرنی ایک عرصہ تک سابق وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی اورلال کرشن آڈوانی کے مشیرخاص رہے ہیں۔ ان کا فکر انگیز کالم انڈین ایکسپریس میں ہم بھی پڑھتے رہے۔ ہرچند کہ ان کے تمام نظریات سے اتفاق ممکن نہیں، لیکن اختلاف رائے سے ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت سے نہیں۔ اسی پیر کو ممبئی میں شیوسینکوں نے ان کے چہرے پر سیاہی پوت دی۔ وجہ اختلاف یہ تھی کہ وہ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمد قصوری کی ایک کتاب کی رسم اجرا ء کی میزبانی کررہے تھے۔ مودی جی جب سے آئے ہیں اس طرح کی غنڈی گردی بڑھ رہی ہے۔اظہاررائے کی آزادی پر بھی پہرے بٹھادئے گئے ہیں۔ اسی ذہنیت کے لوگوں نے تین ممتاز ہندودانشوروں کو قتل کردیا ۔ ہم تشدد کی ان تمام وارداتوں کی اور تشددد کی اس ذہنیت کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ یہ ہمارے آئین اور قانون کی بے حرمتی ہے۔ اس واقعہ کی آڈوانی جی نے بھی مذمت کی ہے۔ کاش ساتھ ہی وہ اظہار ندامت بھی کرتے کہ مذہبی تشدد کے اس جنون کو شعلہ جوالہ بنانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔ وہ رام جنم بھومی کے مفروضے کو ہوادینے اوراس کی بنیاد پر فرقہ ورانہ گروہ بندی کرانے کے گناہ گار ہیں۔ شاید ابھی ان کو یہ خوش گمانی ہے کہ قصرصدارت میں قیام مل جائیگا۔ مگرآثار بتاتے ہیں کہ جس طرح وزیراعظم بن جانے کی ان کی حسرت پوری نہیں ہوئی اسی طرح اس حسرت کو بھی وہ اپنے ساتھ ہی لیجائیں گے۔
مشاورت صدر
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے تاریخی جشن طلائی کے بعد اچانک کچھ لوگوں کی نظریں اس پر لگ گئی ہیں۔اگرچہ اس کا انتخابی عمل ابھی شروع نہیں ہوا اورنہ کسی تاریخ کااعلان ہوا، لیکن ایک سابق ایم پی صاحب نے اپنے لئے ہی کنویسنگ شروع کردی ہے۔ ان کا ایک خط اسپیڈ پوسٹ سے موصول ہوا۔ اغلاط سے پرڈیرھ صفحہ کا مکتوب مظہر ہے کہ موصوف کو مشاورت کی تاریخ اورطریقہ انتخاب کا اندازہ نہیں۔ مشاورت کی روایت یہ ہے کہ از خود بڑھ کرکوئی کسی منصب کے لئے اپنا نام پیش نہیں کرتا۔ اپنے نام کی کنویسنگ کوبھی پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔
ہم ارکان کی سیاسی سرگرمیوں کو خارج نہیں کرتے ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مشاورت کو اپنے ابتدائی دور میں اس لئے نقصان پہنچا تھا کہ بعض افرادنے اس کے پلیٹ فارم کو اپنے سیاسی ایجنڈہ کے لئے استعمال کرنا چاہا۔ چنانچہ جس شخص کا اپنا ذاتی سیاسی ایجنڈہ بھی ہے، وہ اگر مشاورت کے کسی اہم منصب پرفائز ہوگیا تو یہ اندیشہ بجا ہے کہ وہ ملی مفادات کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے گا ۔ مشاورت کے صدر کی نظروسیع ہو نی چاہئے۔تحریراورتقریر کا بھی سلیقہ ہونا چاہئے اوروہ مشاورت کی سرگرمیوں میں کسی بھی صورت شریک رہا ہو۔ مشاورت کا کوئی رکن اگرسیاسی عزائم رکھتا ہے، اور مشاورت اس کی تائید و حمایت کرے تواس میں کوئی مضایقہ نہیں۔
ایک طبیب کی وفات
میرٹھ کے معروف یونانی طبیب حکیم جمیل احمدصاحب کا گزشتہ جمعرات8 اکتوبر کو انتقال ہوگیا۔وہ83 سال کے تھے۔ ان کی وفات سے گویامیرٹھ میں ایک یونانی مطب بند ہوگیا۔ تدفین جمعہ کو ہوئی جس میں کئی معروف شخصیات اوربڑی تعدادمیں ان کے متعلقین نے شرکت کی۔ قدیم وضع کے سادہ مزاج،باکرداراوردیندارانسان تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔بروزپیرمیرٹھ ہی کی ایک اورمعروف ہستی سرتاج بیگم صاحبہ وفات پاگئیں۔وہ نواب شمس الحق پرانی کوتوالی والی کی آخری نشانی تھیں۔لاولد تھیں۔ تقریبا85 سال عمر پائی۔ اللہ ان کی بھی مغفرت فرمائے۔
جواب دیں