نئی دہلی : کینیڈا کے صوبے البرٹا کے پہاڑی مقام کاناناسکس میں اس ماہ کے وسط میں منعقد ہونے والے جی-7 سربراہی اجلاس میں اس بار ہندوستان کو مدعو نہ کیے جانے پر سیاسی اور سفارتی حلقوں میں بحث تیز ہو گئی ہے۔ گزشتہ چھ برسوں سے مسلسل مدعو کیے جانے کے باوجود، اس بار مدعوین کی فہرست سے ہندوستان کا نام غائب ہے۔
حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس پیش رفت پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ عالمی سطح پر ہندوستان کی ساکھ کو پہنچنے والا دھچکا ہے۔”
انہوں نے یاد دلایا کہ 2007 میں جرمنی میں منعقدہ جی-8 اجلاس کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی سربراہی میں پیش کیا گیا ’سنگھ-مرکل فارمولہ‘ عالمی ماحولیاتی مذاکرات میں ایک کلیدی پیش رفت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
تاہم، سرکاری ذرائع جی-7 اجلاس میں مدعویت کو میزبان ملک کی صوابدید قرار دیتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ "ہر سال جی-7 کی توسیعی دعوتیں میزبان ملک کی ترجیحات اور ایجنڈے کے مطابق دی جاتی ہیں۔ ہندوستان دیگر بین الاقوامی فورمز پر اپنی فعال شراکت جاری رکھے گا۔”
رواں برس جی-7 اجلاس میں آسٹریلیا، برازیل، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور یوکرین کو مدعو کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ان ممالک کا انتخاب ممکنہ طور پر جغرافیائی توازن اور موجودہ عالمی تناؤ کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ مدعویت کا نہ ملنا کوئی مستقل سفارتی پالیسی کا اشارہ نہیں، تاہم یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اثر و رسوخ کے لیے مسلسل سفارتی مشغولیت ناگزیر ہے۔
اب تک حکومتِ ہند کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ وزارت خارجہ اس معاملے پر وضاحت پیش کرے۔