آپ ہی کی طرح ایک محنتی اور ذہین طالب علم بہت کم عمری میں مدرسہ میں آیا اور مدرسہ کی چہاردیواری میں اونچے اونچے خواب دیکھنے لگا۔ کبھی وہ خود کو ایک عظیم مصنف اور قلم کار دیکھتا، تو کبھی ایک شعلہ بیاں مقرر اور خطیب، کبھی کسی ادارہ کا مؤسس اور بانی خود کو تصور کرتا تو کبھی سماج کی برائیوں کو ختم کرنے اور الحاد ولادینیت کے خلاف جنگ لڑنے والا سپاہی، کبھی شعر وادب کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے کا سپنا دیکھتا تو کبھی حدیث وتفسیر میں اپنی تحقیق کی داد لینے کا خواب، کبھی سائنس اور قرآن کے ٹکراؤ اور اس سے پیدا ہونے والے شکوک وشبہات پر قلم فرسائی کا منصوبہ بناتا تو کبھی مستشرقین کے اسلام پر حملوں کا جواب دینے اور اسلام کی صحیح تصویر کشی کرنے کا قلم کار اور مترجم، وہ جس کلاس میں بیٹھتا تھا، اس کی اگلی صف میں چند اور طلباء اس کے ساتھ بیٹھتے تھے، جو اس کے ہم جولی اور کلاس ساتھی تھے۔ طالب علمی کے دور میں وہ کم وبیش ایک دوسرے کے برابر تھے۔ مگر مدرسہ کی فراغت کے بعد جب زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا تو اس پہلی صف میں بیٹھنے والے اس کے ساتھیوں میں ایک کلکٹر بن گیا۔ دوسرا ڈاکٹر بن گیا، تیسرا شاعر اور ادیب بن گیا، چوتھا پروفیسر بن گیا اور پانچواں ایک بہترین ادارہ کا ناظم اعلیٰ اور ایڈمنسٹر۔ مگر یہ ذہین اور محنتی طالب علم کسی بھی منزل پر نہ پہنچ سکا اور آپ کو یہ جان کرشاید خوشی نہ ہو کہ وہ طالبعلم یہی راقم الحروف ہے۔ اگر آپ کامیاب بننا چاہتے ہیں تو کامیاب لوگوں کی سیرت وسوانح پڑھیں۔ ان کے اصول، ان کی عادات، ان کے کمالات، ان کے سوچنے کا انداز، ان کے لکھنے کا اسلوب، ان کے بات کرنے کا طریقہ کار اور ان کے دیگر لوگوں کے ساتھ تعلقات، ان کی ذاتی اور عملی زندگی، سماجی اور معاشرتی خدمات اور ان کی کامیابیوں کی سرخیاں اور کہانیاں پڑھیں، مگر ساتھ ہی یہ بھی معلوم کریں کہ وہ کون سے ایسے اسباب وعوامل ہیں، جن کی بنیاد پر لوگ ناکام ہوتے ہیں۔ وہ کون سے ایسے عناصر ہیں، جن سے کامیاب لوگ ہمیشہ دور رہتے ہیں۔ جب تک آپ ناکام لوگوں کے ناکامی کے اسباب سے خود کو محفوظ نہیں کریں گے، اس وقت تک آپ کے مستقبل کا وہ خواب پورا نہیں ہو سکتا، جو آپ کے ذہن ودماغ میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ میرے کامیاب ساتھیوں اور میرے درمیان صرف اور صرف ایک فرق تھا، ان کی منزل متعین تھی، ان کے مقاصد واضح تھے، ان کا نشانہ کلیر تھا، ایک کامیاب اور ناکام آدمی کے درمیان جو پہلی چیز آسمان اور زمین کا فرق پیدا کرتی ہے، وہ یہی ہے کہ کامیاب لوگوں کا مقصد بہت واضح، متعین اور غیرمشکوک ہوتا ہے اور ناکام لوگوں کے سامنے کوئی واضح اور غیرمشکوک مقصد ہی سامنے نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے آپ اپنا مقصد طے کریں کہ مستقبل میں آپ خود کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مدرسہ کا دور انتہائی قیمتی، ماحول بہت ہی پُرسکون، اساتذہ انتہائی مخلص (گرچہ بعض اساتذہ کی معلومات محدود ہوتی ہیں) اور احباب بہت ہی معاون وہمدرد اور جانثار ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنا مقصد متعین کر لیا تو آپ کے گردوپیش کے تمام اسباب وعوامل آپ کی مدد کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ مقصد اور منزل کی تعین کامیابی کا پہلا زینہ ہے اور ہم مدرسہ والے اپنا مقصد ہی طے نہیں کر پاتے اور جو طلباء اپنے مقاصد طے کر لیتے ہیں بیشتر وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ہاروارڈ یونیورسٹی دنیا کی بہت سے بہترین اور نمبرون یونیورسٹی ہے، جو امریکہ کے اندر ہے۔ دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے صدور، وزراء اعظم، اور منسٹروں نے وہاں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس یونیورسٹی نے 1979ء میں MBA کے طلباء پر ایک ریسرچ کیا۔ ایک کلاس کے طلباء سے کہا گیا کہ وہ اپنی منزل اور مقصد کو نوٹ کر لیں۔ جب وہ فارغ ہو کر نکل گئے تو دس سال بعد انہیں طلباء سے انٹرویو لیا گیا تو پتہ چلا کہ صرف 3/ فیصد نے اپنا مقصد تحریری شکل میں لکھا تھا۔ 13/ فیصد نے اپنا مقصد تو متعین کیا تھا، مگر اسے نوٹ نہیں کیا تھا۔ 84/ فیصد نے اپنا کوئی خاص مقصد متعین ہی نہیں کیا تھا۔ ان طلباء میں 13/ فیصد جنہوں نے اپنا مقصد متعین کیا تھا مگر لکھا نہیں تھا، وہ 84/ فیصد طلباء سے دوگناکمارہے تھے اور تین فیصد جنہوں نے اپنا مقصد نہ صرف متعین کیا تھا، بلکہ اپنی ڈائری میں اسے صاف لفظوں میں تحریر بھی کیا تھا وہ 97/ فیصد طلباء سے دس گنا زیادہ کما رہے تھے۔ نہ صرف یہ کہ مقصد کی تعین ضروری ہے، بلکہ مقاصد کو صاف لفظوں میں اپنی ڈائری میں لکھنا اور اس کو تحریری شکل میں اپنے ساتھ رکھنا کامیابی اور کامرانی کی ضمانت دیتی ہے۔ ہماری زندگی بہت مختصر اور چھوٹی ہے۔ اگر ہم اس چھوٹی سی زندگی میں فوکس اور ارتکاز نہیں کریں گے تو ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ صرف کتابیں پڑھنے،، کلاس پاس کرنے اور جوشِ خطابت دکھانے سے مستقبل میں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ ایک ہندوستانی تیرانداز اپنے شاگردوں کو تیراندازی سکھا رہا تھا، اس نے لکڑی کی ایک چڑیا کو تھوڑی دور پر نصب کر دیا اور پہلے شاگرد سے پوچھا کہ تمہیں کیا نظر آرہا ہے۔ اس نے کہا پیڑپودے، لکڑی کی چڑیا اور اس کی آنکھ، اس نے دوسرے شاگرد سے پوچھا کہ تمہیں کیا دکھتا ہے، اس نے جواب دیا کہ چڑیا کی آنکھ۔ استاذ نے کہا کہ اب تم شوٹ کرو۔ جب تک ہم اپنے مقصد پر فوکس نہیں کریں گے اور فوکس کرنا بہت ہی مشکل اور صبرآزما کام ہے، اس وقت تک ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ آپ نے میگنی فائنگ گلاس ضرور دیکھا ہوگا۔ اگر آپ دھوپ میں ایک کاغذ رکھ دیں اور گلاس کو ادھر ادھر ہلاتے رہیں اور میگنی فائینگ گلاس کو اس پر رکھیں تو کبھی بھی کاغذ میں آگ نہیں پکڑے گی۔ مگر آپ نے گلاس کو تھامے رکھا اور کاغذ کے ٹکڑے پر مرکوز کر دیا تو فوراً کاغذ کا ٹکڑا جل اٹھے گا۔ یہی اصول مقصدپر بھی منطبق ہوتا ہے۔ گاندھی جی نے اپنا مقصد حیات بنایا تھا کہ ہندوستان سے انگریزوں کو بھگا کر چین لیں گے۔ مولانا آزاد نے اپنی پوری زندگی آزادی کی لڑائی میں جھونک دی اور ہندوستان کو آزاد کرالیا۔ اے پی جے عبدالکلام نے خواب دیکھا کہ ہندوستان میزائل اور اسپیس سائنس میں خودمختار ہو اور ان ساری شخصیات کا مقصد بہت واضح اور کلیر تھا اس لیے سب کے سب اپنے مختلف مقاصد میں کامیاب ہوے، اسی طرح اگر آپ طالب علم ہیں یا زندگی میں کوئی بھی مقصد اور مشن رکھتے ہیں تو اس پر فوکس کیجیے، اپنی پوری طاقت اس پر مرکوز کیجیے، بار بار اپنے مقاصد اور اہداف کو تبدیل نہ کیجیے، دیکھیے کیسے ایک مختصر مدت میں آپ کو اپنا مقصد حاصل ہوتا ہوا دکھائی دیگا۔ یہ ذہن میں بٹھا لیجیے کہ مقصدکا تعین اور اس پر ارتکاز ہی درا صل کامیابی کا راز ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں