لال قلعہ کار بلاسٹ کیس: الفلاح یونیورسٹی پر ایف آئی آر، متعدد ڈاکٹر اور تاجر حراست میں

لال قلعہ کار بلاسٹ کے بعد الفلاح یونیورسٹی دہلی کرائم برانچ کے رڈار پر آ گئی ہے۔ سنیچر کو ادارہ کے خلاف دھوکہ دہی اور جعلی ایکریڈیشن کے متعلق دو ایف آئی آر درج کی گئیں۔ این اے اے سی اور یو جی سی کی جانب سے بھی یونیورسٹی کے معاملات پر کارروائی جاری ہے۔ دہلی پولیس کے تفتیشی اہلکاروں نے اوکھلا میں یونیورسٹی کے دفتر سے تمام متعلقہ دستاویزات طلب کیے ہیں۔

تحقیقات کے سلسلہ میں پانچ ڈاکٹروں اور کھاد کے دو تاجروں کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ ڈاکٹرز دہلی جبکہ کچھ میوات میں پکڑے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کھاد کی خرید و فروخت پر بھی تفتیش کی جا رہی ہے کیونکہ دھماکہ خیز مادہ کھاد کے اجزاء سے تیار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر شاہین کے دوبئی فرار ہونے کی کوشش کی خبروں پر غیر ملکی کنکشن کی بھی جانچ جاری ہے۔

اس کیس میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر محمد عمر نبی کا ایک نیا ویڈیو منظرِ عام پر آیا ہے، جس میں وہ دھماکے سے ۱۲ روز قبل فون چارج کرانے کے لئے ایک دوکان پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ یہ فوٹیج تفتیشی ایجنسیوں کے لیے اہم ثبوت بن گئی ہے۔

دھماکہ کے بعد پلول اور فرید آباد میں مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کے الزامات لگ رہے ہیں۔ کئی مساجد کے ائمہ سے پولیس نے پوچھ تاچھ کی ہے، جس سے مسلمان طبقہ میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ پلوال نے ضلع بھر میں سکیورٹی اور نگرانی کیلئے سخت احکامات جاری کر دیے ہیں، اور مذہبی مقامات پر کڑی چیکنگ کی جا رہی ہے۔

دھماکہ خیز مادہ کی فراہمی میں میوات اہم مرکز قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں سے بھی کئی ڈاکٹرز کو حراست میں لیا گیا اور الفلاح یونیورسٹی کے ۲۲ ڈاکٹرز جانچ ایجنسیوں کے رڈار پر آچکے ہیں۔

کھیل اور تعلیم — ترجیحات کا توازن

شملہ میں سنجولی مسجد کے باہر نماز کیلئے آئے مسلمانوں کو روکنے پر چھ افراد کے خلاف ایف آئی آر