بدقسمتی سے یہی سیکولرزم اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تعلیمات سے مزین اوربس کانگریس پارٹی نے نہروسے لیکرسونیاگاندھی وراہل گاندھی تک فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورقومی یکجہتی پرانتہائی منافقانہ رول اداکیاہے۔لوگ باگ کہنے لگے کہ یہ آرایس ایس کی نورنظرجن سنگھ اوربی جے پی کی ’’بی‘‘پارٹی ہے،بی ٹیم ہے۔
حال ہی میں بہاراسمبلی الیکشن کے نتائج سے کانگریس کوسبق لیناہوگا۔ملک کی آزادی کے بعددستورہندکے نافذہوتے ہی مرکزمیں کانگریس کے وزیراعظم جواہرلال نہرو،صدرہندراجندرپرساد کے ہوتے ہوئے ریزرویشن پرایک صدارتی فرمان کے ذریعہ سوائے ہندودلتوں(پسماندہ طبقات) کے تمام اقلیتوں بشمول مسلمان،سکھ،عیسائی وغیرہ کوریزرویشن سے محروم کردینے کیلئے ایک صدارتی فرمان جاری کرنے کی سفارش کردی۔آخرکاروسیاہی ہوگیا۔اگریہ نہ ہواہوتاتو مسلمانوں اوردیگراقلیتوں کی آج تک ملک میں بے پناہ سماجی وسیاسی ومعاشی ترقی ہوتی کہ شایدسچرکمیٹی کودلتوں سے بھی بدترمسلمانوں کونہ کہناپڑتا۔مسلمانوں کوانگریزوں کے زمانہ سے شیڈول کاسٹ کاریزرویشن دیگرمذاہب کی طرح دیاجاتارہاہے۔ہمارے ملک کے دستوراورآئین میں بھی سبھی مذاہب کے دلت پسماندہ طبقات کیلئے ریزرویشن کی بات رکھی گئی ہے۔کانگریس کے راج میں گویاایک غیردستوری صدارتی فرمان کے ذریعہ مسلمانوں کواس سے محروم کردیاگیا۔ورنہ آج تک کس قدرمسلم طلباء ریزرویشن کی بنیاد پرتعلیمی ترقی پاتے۔ڈاکٹر،انجنیئر،سول سروس میں ہوتے۔اعلی سرکاری عہدوں پرہوتے۔کلکٹر،پولس کمشنربنتے۔محفوظ سیٹوں سے پارلیمنٹ،اسمبلی،کارپوریشن،
پنچایتوں میں نمائندے ہوتے۔
کانگریس کی مسلمانوں کے ساتھ دیدہ دلیری دیکھئے کہ پرزوراحتجاج کے بعد۱۹۵۶؍میں سکھ بھائیوں کواس نے ریزرویشن دے دیا۔آگے چل کرنوبودھشٹ بھائیوں کوجنتادل کے وزیراعظم وی پی سنگھ نے شیڈول کاسٹ کاریزرویشن دے دیا۔۲۰۰۵؍میں مہاراشٹرکی مسلم کھاٹک (قصاب برادری) نے ملک کی اعلی عدلیہ سپریم کورٹ میں مسلمانوں کوبھی شیڈول کاسٹ کاریزرویشن ملے۔ایڈوکیٹ مشتاق احمدکے ذریعہ ایک عرضداشت داخل کردی۔برسہابرس سے متعددتاریخیں کیس کی پڑتی ہیں۔برسہابرس مرکزمیں کانگریس کی منموہن سنگھ کی قیادت والی سرکاررہی۔کانگریس نے عدالت کے سامنے حکومت کاموقف ہی نہیں رکھا۔ہاں جب ۲۰۱۴؍کے پارلیمانی الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران کانگریس کومودی کے ہاتھوں اپناجہازڈوبتایعنی ہارکے آثارنظرآنے لگے تواقلیتوں کوبھی شیڈول کاسٹ ریزرویشن دینے کاوعدہ کیا۔ورنہ کانگریس کے لیڈران خاص کرمرکزی وزیرسلمان خورشیدکانگریس کے مسلم عہدیدران جیسے شکیل الزماں مسلمانوں کوسمجھاتے رہے کہ مذہب کی بنیادپرمسلمانوں کوریزرویشن نہیں دیاجائے گا۔اگر۱۹۵۰؍میں ہندودلتوں کومذہب ہی کی بنیادپرشیڈول کاسٹ ریزرویشن کیانہیں دیاگیا؟ اسی طرح ملک کی آزادی کے بعدسے مرکزاورصوبوں میں زیادہ ترکانگریس کی حکومت ہی رہی۔بے پناہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ہندوجارحانہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں بے پناہ مسلمانوں کاجانی ومالی نقصان ہوا۔فسادات کے بعدبٹھائے گئے سرکاری کمیشنوں نے ہندوتووادی آرایس ایس،جن سنگھ،وشوہندوپریشد،بجرنگ دل جیسی جماعتوں کے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کی بات کہی۔کانگریس سرکارنے فرقہ وارانہ فسادات کے خاطی ملزمین اورپولس افسران کے خلاف کیاکیا۔۱۹۹۲؍کے ممبئی فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کیلئے سرکاری سطح پر’’سری کرشناکمیشن‘‘ایک جج کی سربراہی میں بٹھایاگیا۔کمیشن نے شیوسیناوبی جے پی جیسی ہندوپارٹیوں اورکچھ پولس افسران کوفرقہ وارانہ فسادات میں ملوث گردانا۔مہاراشٹرکی کانگریس سرکارنے اپنے انتخابی مینوفیسٹومیں کرشناکمیشن کی رپورٹ پرعملی اقدامات کرنے کاوعدہ کیا۔مگریہ محبوب کاوعدہ ہی رہا۔جوکبھی پورانہیں ہوتا۔حدتویہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات میں کرشناکمیشن کی رپورٹ ہی کے آدھارپرجوکانگریسی فسادات میں غیرمعیاری اقدامات میں ملوث تھے انہیں پارلیمنٹ اوراسمبلی کی ٹکٹ دی گئی۔ممبئی سے ایکناتھ گائیکواڑکوایک سے زائد بارکانگریس نے پارلیمنٹ کاٹکٹ بھی دیا۔فرقہ وارانہ فسادات یوں ہی نہیں ہوتے۔پہلے ہی سے ماحول تیارکیاجاتاہے۔سازشیں بنتی ہیں۔زہریلی تقاریروتحریرہوتی ہیں۔مفافرت کی باتیں،دل آزارحرکتیں،افواہوں کابازارگرم ہوتاہے۔پولس بذات خودفرقہ واریت میں ملوث ہوتی ہے۔یہ باتیں عام طورپرفرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے برسہابرس سے ہوتی آرہی ہیں۔ان تمام کم وبیش باتوں کے پیش نظرایک واضح وجامع مخالف انسداد فرقہ وارانہ بل ضروری ہے۔یقیناً موجودہ قوانین ناکافی ہیں۔اگرکافی ہوتے توملک میں اس قدرفسادات نہ ہوتے۔فرقہ وارانہ طاقتوں کاسیناپُھلاہوانہ ہوتا،کہ وہ کہے کہ میراسینہ ۳۶؍انچ کاہے کوئی کہتاتھاکہ میں جب چاہوں ممبئی کافسادرک جائے۔کوئی ہندوتواہردے سمراٹ بن کر منافرت پھیلائے،کوئی ہندؤں کارکھشک بناپھرے۔ یوں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی دھجیاں اڑتی رہیں۔اسی بات کے پیش نظرانسدادفرقہ وارانہ بل پارلیمنٹ کے سامنے کانگریس کے راج میں کافی تگ ودودکے بعدکانگریس نے پارلیمنٹ میں کئی برسوں کے بعد پیش کیا۔مگروہ قانون بن نہ سکا۔بحث پوری نہ ہوسکی۔کانگریس کی نیت صاف ہوتی توانسدادفرقہ وارانہ فسادبل قانون کی شکل اختیارکرلیتا۔
اقلیتیں چاہے وہ لسانی ہوں کہ مذہبی ان کے جان ومال کی حفاظت ضروری ہے۔کشمیرمیں سکھ اورہندواقلیت میں ہیں۔مسلمان اکثریت میں ہیں۔ملک کی شمالی ومشرقی ریاستوں میں عیسائی اکثریت میں ہیں ہندواقلیت میں ہیں۔پورے ملک میں کشمیرکوچھوڑکرمسلمان اقلیت میں ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ فسادات میں اکثرپولس کارول متصبانہ ہواکرتاہے۔اسے بھی قانوناً واضح طورپرجواب دہ بناناضروری ہے۔مالی اورجانی اعتبارسے فسادات کے متاثرین کوخاطرخواہ معاوضہ ملناضروری ہے۔ان تمام باتوں کے پیش نظرمجوزہ انسدادفرقہ وارانہ فسادات بل انتہائی جامع ہے۔جسے ماہرین نے تیارکیاہے۔منموہن سنگھ سرکارکاارادہ مستحکم ہوتانیک نیتی فرقہ وارانہ فسادات کوختم کرنے کی ہوتی تویہ انسداد فرقہ وارانہ بل کانگریسی راج میں قانون بن جاتا۔کئی معاملات ایسے تھے کہ کانگریسی سرکارنے اپنی سرکارگرجانے کے خطرات جھیلے اوربل کوقانون بنادیا۔جیساکہ جوہری توانائی کے معاملہ میں منموہن سنگھ سرکارکاامریکہ سے قرارنامہ۔
آرایس ایس اپنے روزقیام سے مسلمانوں کی دشمن ہے یہ بات انتہائی واضح ہے اس کی تعلیمات اورکتابوں سے بھی مستندثابت ہے۔کتنی ہی ہندوتوادی جارحانہ فرقہ وارنہ جماعتیں اس کی ذیلی شاخوں کی طرح برسہابرس سے کام کررہی ہیں۔مہاتماگاندھی کے قتل میں آرایس ایس کے پرچارک کاہاتھ تھا۔۱۹۴۸؍میں مہاتماگاندھی کے قتل کے بعدآرایس ایس پرملک کے پہلے وزیرداخلہ سردارپٹیل نے ۴؍فروری ۱۹۴۸؍کوانہوں نے پابندی کے اعلان میں یہ کہاتھاکہ ’’سنگھ کی قابل اعتراض نقصاندہ کاروائیاں اب بھی بلاورک ٹوٹ جاری ہیں اوراس کے ذریعہ جس تشددکوفروغ دیاجارہاہے اس کاشکارکئی لوگ ہوچکے ہیں۔اس میں تازہ اوراہم ترین گاندھی جی ہیں۔‘‘۱۱؍جولائی ۱۹۴۹؍راشٹرسیوم سنگھ یعنی آرایس ایس پرسے پابندی اس وقت ہٹائی گئی جب آرایس ایس نے حکومت کے آگے سرتسلیم کرتے ہوئے محض’’ثقافتی تنظیم‘‘ کے طورپرکام کرنے،رازداری سے پرہیزاورتشدد ترک کردینے کاوعدہ کیا۔افسوس ناک پہلوہے کہ آگے چل کرآرایس ایس نے ان تمام شرائط کی دھجیاں اڑائی۔آج تویہ انتہائی عروج پرہیں۔
آزادی کے بعدسے آج تک لاتعدادفرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔متعددسرکاری کمیشنوں نے ان فسادات میں آرایس ایس اوراسکی ذیلی جماعتوں کے ملوث ہونے کاذکرکیا۔برسہابرس مرکزاورصوبوں میں کانگریس کی حکومت رہی۔فرقہ وارانہ منافرت اورفرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کی بناء پرکانگریس کوآرایس ایس پردوبارہ پابندی اوراس کے افراد پر،فسادات میں ملوث ہونے پرکاروائی ضروری تھی۔
کانگریس کے سابق مرکزی وزیرداخلہ سوشیل کمارشندے نے فرقہ پرستی،دہشت پسندی کے تعلق سے آرایس ایس کے رشتوں کے تعلق سے کہا،مگر پھرچنددنوں کے بعداپنے بیان سے پلٹ گئے۔فرقہ پرستی،دہشت پسندی پرکانگریس کاموقف ۲؍قدم آگے ۲؍قدم پیچھے والارہاہے۔ابھی ابھی بہاراسمبلی کاالیکشن ہوا،لالوپرسادنے کہاکہ ہندوبھی بیف کھاتے ہیں(بیف کامطلب گائے کاگوشت تونہیں) اس پرآرایس ایس اوربی جے پی نے کافی ہنگامہ کیا۔جس کامطلب سراسرہندورائے دہندگان کوگمراہ کرنے کے سواکچھ نہیں۔کانگریس،الیکشن میں لالوپرسادکی حلیف پارٹی تھی۔لالوکے بیف کے بیان پرڈرگئی،الیکشن میں انتخابی مہم میں لالوپرسادکے ساتھ اسٹیج پرحصہ نہیں لیا۔حقیقت حال یہ ہے کہ لالواورنتیش کے کندھے پرچڑھ کر،مرتی کانگریس کوآکسیجن ملاہے۔
آزادی کے بعدسے آج تک کانگریس نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی،قومی یکجہتی کے ساتھ دلجوئی سے کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔کہیں کہیں نرم ہندوتواپرگامزن رہی۔یہ کہیں توکوئی حرج نہیں کہ ہندوجارحانہ فرقہ پرستی کوبڑھانے میں مددبھی کرتی رہی توکوئی غلط نہ ہوگا۔ملک کی تعمیروبقاء کیلئے ہندومسلم ایکتا،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،ملک میں نظم وضبط کی بحالی ضروری ہے۔امن ہوگاتوکھیتوں میں زراعت،کل کارخانوں میں پیداوارہوگی۔اسکول،کالج چلیں گے۔سڑکیں راستے چلیں گے۔یہ سب فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورقومی یکجہتی ہی کے سبب ہوگا۔وہ طاقتیں،شرپسندعناصرجوملک میں نظم وضبط کے دشمن ہیں وہی ملک کی ترقی کے دشمن ہیں۔کانگریس کے دورحکومت میں ایسے شرپسندوں کی ہمت افزائی ہوئی۔کانگریس اب بھی عدل سے کام لے۔یہ انسانیت اورملک کے لئے ضروری ہے،ورنہ آج لالواورنتیش کے کندھوں پراس کوبہارمیںآکسیجن ملی ہے۔ان ہی کندھوں سے اپنے انجام کوبھی پہونچناہوگا۔وقت کامورخ ملک کی ترقی وبقاء،امن وامان ،قومی یکجہتی کے تعلق سے کانگریس کی تاریخ کولکھ رہاہے جوہرگزاطمنیان بخش نہیں۔
ابھی ابھی ۱۴؍نومبرکونہروجینتی کے موقع پرکانگریس کی سونیاگاندھی اورراہل نے بی جے پی اورآرایس ایس پربے پناہ تنقیدکی۔دراصل تنقیدصرف لفظوں سے نہیں ہوتی،عمل سے ہوتی ہے۔کانگریس اقتدارمیں رہ کرعمل سے عنقارہی۔ملک میں سینکڑوں سالوں سے کثرت میں وحدت ہے۔ملک اس کے بغیرچل نہیں سکتا۔افسوس ہے وحدت میں کثرت کے دشمنوں،موت کے سوداگروں،نفرت کے پیغامبروں،گاندھی جی کے سالہاسال کانگریس میں رہنے کے بعدمیں بول سکتاہوں کہ کتنے ہی کانگریسیوں کوسیکولرزم،شوشلزم،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے معنی نہیں معلوم،ہاں آرایس ایس کے معمولی ورکرکوبھی ہندوتواکے معنی ومطلب اچھی طرح سے معلوم ہوتے ہیں۔وہ اس کیلئے سب کچھ کرسکتاہے۔
جواب دیں