"مجمع الامام الشافعی العالمی"کے نام سے جس ادارے یا اکیڈمی کی مشاورتی نشست ١٤٣٩/٦/٥مطابق 2018/2/22کومنعقد ہوئی تھی اور جس ادارے کے ذریعے ہندوستان میں میں مقیم شوافع حضرات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور نت نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی اور فقہ شافعی کے اصول و ضوابط کے تحت حل کرنے اور فقہ شافعی کے ایک مکمل تعارف کرانے کی فکر کی گئی تھی تو اس کے تین فقہی سیمینار چند اھم فقہی عنوانات پر جنوبی ھند کے مختلف علاقوں جامعہ اسلامیہ عربیہ تلوجہ (نیو ممبئی) دوسرا مجمع الامام الشافعی العالمی کے مرکزی دفتر جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور اور تیسرا مولانا عبدالشکور قاسمی خلیفئہ مرشد الامة حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ و رکن انتظامیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مدرسے دار العلوم الاسلامیہ اوچرا کیرالہ میں منعقد ہو چکے ہیں۔
اسی مجمع الامام الشافعی العالمی کے زیر انتظام فکر شافعی پر ایک روزہ پہلا سمپیوزم یا کہیے سیمینار 2023/11/4کوتلوجہ کی سرزمین پر اھل تلوجہ اور جامع مسجد کمیٹی تلوجہ کی میزبانی میں منعقد ہوا جس میں شرکت کی پرزور دعوت بلکہ اپنا ایک چھوٹا بھائی اور مادر علمی جامعہ اسلامیہ بھٹکل و دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ دونوں جگہ دوران تعلیم کافی جونئیر رہنے کی بناء پر اس ادارے کے بانئ و جنرل سکریٹری اور اس اکیڈمی کے روح رواں جناب مولانا عبیداللہ ابوبکر صاحب ندوی زید مجدہ (بانئ و ناظم جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور و صدر قاضی ضلع اڈپی کرناٹک)نے اس طالب علم کو حکم دیا اور بسھولت سفر کا ایسا انتظام کردیا کہ یہ عاجز اس سیمنار میں آسانی سے شریک ہوسکے۔
بہرحال 3/نومبر کی صبح لکھنؤ ایرپورٹ سے مولانا عبدالسبحان صاحب ناخدا ندوی مدنی زید مجدہ (معروف مقرر و محاضر استاد تفسیر و نائب مہتمم مدرسہ ضیاء العلوم رائے بریلی )کی قیادت و امارت میں ہمارا تین نفری قافلہ ممبائی کی طرف روانہ ہوا تھوڑی ہی دیر میں ہم ممبئی ایرپورٹ پر تھے وہاں تلوجہ کے تین نوجوان علماء ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے ایرپورٹ سے نکلتے ہی ہم لوگوں کو نماز جمعہ کی فکر ہوئی کہ ہمارے یہ نوجوان علماء بھی ہم لوگوں کے انتظار میں کافی دیر سے ایرپورٹ ہی پر کھڑے تھے گاڑی پر بیٹھتے ہی مسجد کی تلاش شروع کردی گئی ۔ کئی مساجد کا رخ کیا گیا جہاں پہونچتے معلوم ہوتا کہ ابھی جماعت مکمل ہوئی ہے بعض جگہوں پر دعا کی آواز بھی سنائی دی بہرحال ہمارے تلوجہ کے نوجوان علماء نے بڑی فکر کی تو ممبئی سے باہر تلوجہ کے راستے پر ایک مسجد میں جمعہ ادا کرنے کی توفیق ملی۔ فلله الحمد و له الشكر۔
نماز جمعہ ادا کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہم لوگ تلوجہ اپنے میزبان کے گھر پہونچے جہاں کھانا کھا کر تھوڑی دیر آرام کیا پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہمارے کمرے کے قریب ہی مجمع الامام الشافعی العالمی کے صدر اور خطہ کوکن کے مختلف اداروں اور تنظیموں کے ذمے دار وہاں کے معروف و ممتاز و متحرک عالم دین مولانا مفتی رفیق صاحب پورکر فلاحی مدنی زید مجدہ اپنے شاگرد و رفیق مفتی اشفاق صاحب قاضی کے ساتھ مقیم تھے پہلے مفتی صاحب ہی سے ملاقات ہوئی آپ اپنی طویل علالت و علاج معالجے کے بعد آج ہی اس پروگرام میں شرکت کے لیے گھر سے باہر نکلے تھے مفتی صاحب سے ادھر کئی سال بعد کافی اچھی اور طویل ملاقات ہوئی آپ اور مولانا عبدالسبحان صاحب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے درسی ساتھی بھی رہ چکے ہیں اسلیے وہاں کی باتیں بھی ہوتی رہیں۔
مفتی رفیق صاحب حالات حاضرہ سے واقف اور بڑے اپڈیٹ رہتے ہیں آپ اس وقت کے ہندوستان کے حالات اور تعلیم کے نام پر جو ایک خاص فکر اور رنگ کو عام کیا جارہا ہے۔
اس کے مقابلے اور دین وشریعت کی بالادستی و نشر واشاعت کے لئے اپنے علاقے" کاملہ "مہاڈ کوکن میں جامعہ اسلامیہ کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا ہے جہاں مکمل دینی تعلیم حکومت کے متعین کردہ آسکولی نصاب و سسٹم سے وابستہ رہتے ہوئے اسلامی تربیتی نظام کے ساتھ دی جاتی ہے جس کے وہاں اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں اسی جامعہ میں ہمارے محترم ذی علم دوست مولانا عبداللہ خطیب ندوی بھی آج کل تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
مفتی رفیق صاحب سے تعلیم و تعلم اور حالات حاضرہ سے متعلق باتیں ہو ہی رہی تھی کہ اسی دوران مجمع الامام الشافعی العالمی کے جنرل سکریٹری اور اس سیمنار کے کنوینر و روح رواں مولانا عبیداللہ ندوی صاحب تشریف لائے تو وھیں مولانا سے ملاقات ہوئی حاضری پر خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ اب تھوڑی دیر بعد اس پروگرام کی ابتدائی اور عوامی نشست ہوگی جس میں جامع مسجد تلوجہ میں شھر کے حضرات بھی شریک ہونگے۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر ہم لوگ اپنے میزبان و رہبر کے ہمراہ جلسہ گاہ پہونچے جو جامع مسجد ہی کے وسیع و عریض ھال میں منعقد ہو رہا تھا اس نشست میں مجمع الامام الشافعی العالمی کے جنرل سکریٹری صاحب نے دور دور سے آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا پروگرام کے مقصد و نوعیت سے واقف کرایا اور میزبان حضرات کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ااچھے الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا۔
پھر بعض اھم مہمانوں کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا جس میں کیرالہ سے تشریف لائے ہوئے بعض علماء لندن سے تشریف لائے ہوئے مولانا عبدالسلام حجو صاحب کیرالہ کے جامعہ شانتاپورم کے وائس چانسلر اور ہمارے مولانا عبدالسبحان صاحب ناخدا ندوی مدنی وغیرہ بھی تھے اس مجلس میں مولانا عبدالسبحان صاحب کی تقریر بڑی جامع اور مکمل رہی اسی جلسہ میں مجمع الامام الشافعی العالمی کی طرف سے شائع کردہ تقریبا548/صفحات پر مشتمل مجموعہ مقالات بعنوان "فکر شافعی اھمیت و معنویت عصر حاضر کے تناظر میں"اور دوسری بعض کتابوں کا رسم اجرا بھی عمل میں آیا۔
یہ مجموعہ مقالات جو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات آپ کی سیرت و سوانح اور علوم قرآن علوم حدیث علوم فقہ و اصول فقہ پر آپ کی گہری نظر اور مختلف علوم پر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی وقیع خدمات نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری لغت و ادب میں آپ کا امتیاز اور متفرقات کے ذیلی عنوان سے امام شافعی فقہ شافعی ہندوستان کے شافعی علماء اور اس طرح کے عنوانات پر بڑے اھم مقالات شائع کیے گئے ہیں جن میں سے اکثر تو اردو زبان میں ہیں اور بعض مقالات عربی میں بھی لکھے گئے ہیں۔
یہ مجموعہ مقالات اس سفر کی بڑی اھم سوغات تھی جس میں مقالہ نگاروں نے بڑی محنت و مطالعہ سے ادارے کی طرف متعین کردہ عناوین پر مقالات لکھ کر پیش کئےہیں۔
یہ مجموعہ مقالات کیا ہے سمجھئیے کہ فکر شافعی سیرت امام شافعی اور علوم امام شافعی پر تصنیف کردہ سیکڑوں کتابوں کا خلاصہ ہے جو علمائے کرام کے لئے ایک بہترین علمی تحفہ ہے۔
دوسرے دن سنیچر کی صبح ہی سے خلاصہ مقالات کی نشست شروع ہوئی جس میں مقالہ نگار حضرات کو اپنے اپنے مقالے کا خلاصہ چند منٹ میں شرکائے سیمینار کے سامنے پیش کرنا تھا یہ بڑا اھم کام اور امتحان کی گھڑی ہوتی ہے کہ کوئی شخص اتنی محنت و مشقت سے لکھے ہوئے اپنے تفصیلی مقالے کا خلاصہ چند منٹ میں وہ بھی اھل علم حضرات کی مجلس میں سنائے اس پر مستزاد اگر جلسہ کنڈکٹ کرنے والے مفتی عبداللہ بانعیم قاسمی (بارگس حیدرآباد)جیسے باذوق زبان و بیان کی باریکیوں سے آگاہ بلکہ اس کے رمز شناس اور پروگرام کی نزاکت اور سیمینار میں حاضر علماء کے وقت کی اھمیت سے واقف شخص ہوں۔
خلاصہ مقالات کا پروگرام بھی دو نشستوں میں مکمل ہوا دوسری نشست کی نظامت مولانا انصار خطیب صاحب ندوی مدنی استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل و نائب قاضی جماعت المسلمین بھٹکل فرمارہے تھے اس نشست میں مولانا خواجہ صاحب اکرمی ندوی مدنی استاد فقہ و حدیث جامعہ اسلامیہ بھٹکل و قاضی مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل نے جو ٹرین کی تاخیر کے باعث اسی وقت پہونچے تھے اپنے مقالے کا خلاصہ سنایا اسی نشست میں میں نے بھی مولانا فیصل احمد صاحب بھٹکلی ندوی مشہور محقق و مصنف اور استاد تفسیر و حدیث دار العلوم ندوۃ العلماء کے ایک مقالہ کا خلاصہ چند منٹ میں پیش کردیا اس نشست میں بھی مولانا عبدالسبحان صاحب ناخدا ندوی مدنی کا خلاصہ مقالہ اور اسی ضمن میں ایک مفید و پرمغز علمی خطاب بڑا اھم رہا اس خلاصہ مقالات کی مجلس میں مفتی فیاض صاحب حسینی برمارے(صدر مفتی جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور) اور دوسرے بہت سے علماء کرام نے اپنے اپنے مقالات کا خلاصہ مختصر الفاظ میں پیش کیا۔
پروگرام کی تیسری اور آخری نشست دور دور سے تشریف لائے ہوئے بعض اھم مہمان حضرات کے تاثرات کے لئے مختص تھی جس کی صدارت مجمع الامام الشافعی العالمی کے صدر محترم جناب مولانا مفتی رفیق صاحب کوکنی مدنی استاد جامعہ عربیہ حسینہ شریوردھن فرمارہے تھے اور نظامت کے فرائض مولانا کے عزیز شاگرد و رفیق مفتی اشفاق صاحب قاضی حسینی انجام دے رہے تھے اس نشست میں میں کیرالہ تمل ناڈو حیدرآباد بھٹکل مرڈیشور اور کوکن وغیرہ کے بعض اھم علمائے کرام نے اس سیمینار اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علوم و امتیازات پر مختصر الفاظ میں اپنے تاثرات پیش کیے جس میں سبھی حضرات نے اس پروگرام میں حاضری اور اس میں مختلف اعتبار سے شرکت پر اپنی خوشی کا اظہار کیا مجمع الامام الشافعی العالمی کے جنرل سکریٹری اور اس سیمینار کے متحرک کنوینر و ذمہ دار مولانا عبیداللہ ابوبکر صاحب ندوی کی خدمات کو سراہا اور اھل تلوجہ کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔
اس تاثراتی مجلس میں جماعت المسلمین بھٹکل کے قاضی جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے سینئر استاد اور ہمارے حدیث اصول حدیث و علم فرائض وغیرہ کے خصوصی استاد و مربی جناب مولانا عبدالرب صاحب خطیب ندوی حفظہ اللہ نے امام شافعی کے توسع اور امت کے مختلف طبقات کو ساتھ لیکر چلنے کے تعلق سے کتاب الام کی بعض عبارتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مذاکراتی انداز میں بڑے اھم نکات پیش کیے جسے ہم لوگوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
اسی طرح صدر جلسہ مفتی رفیق صاحب نے بھی اپنے مختصر صدارتی خطاب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی معرکة الآراء تصنیف کتاب الام سے استفادہ اور بطور مرجع و مصدر حدیث کے حوالہ دیے جانے کی ترغیب دی بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں خصوصاً کتاب الام اور کتاب الرسالہ سے براہ راست استفادہ اس کے مطالعے اور تدریب افتاء وغیرہ کے طلبہ میں اس کے بعض أبواب کی تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا جانا چاہیے کہ وہ مدلل بات کرنے کے انداز استنباط و استخراج و اجتہاد کا ایک بڑا سمندر ہے اس کے مطالعے سے استنباط و اجتہاد کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے اور عربی زبان و ادب کا صاف ستھرا ذوق مطالعہ کرنے والوں میں پیدا ہوتا ہے ،تاثراتی نشست کا اختتام مولانا اسحاق صاحب حسینی کوکنی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ العربیہ تلوجہ کے شکریہ اور مفتی رفیق صاحب زید مجدہ کی رقت آمیز دعا پر ہوا اس طرح یہ سیمینار کامیابی کے ساتھ اپنی منزل تک پہونچا ۔
ان دنوں فلسطین خاص کر امام شافعی رحمہ اللہ کے مولد غزہ میں جو حالات چل رہے ہیں اور اسرائیل جس وحشیانہ انداز میں وہاں بمباری اور خون ریزی کی ظالمانہ کاروائیوں میں مصروف ہے جس سے ہر دل مؤمن مغموم و رنجور و زخم خوردہ ہے اس کا اثر بھی اس سیمینار پر پڑنا ایک فطری بات تھی اس لیے بہت سے مقالہ نگار حضرات و علمائے کرام نے اس کا تذکرہ بھی کیا اور پروگرام کی پہلی و عوامی نشست میں عربی و اردو دونوں زبانوں میں اس تعلق سے ایک قرار داد بھی پیش کی گئی۔
اسی طرح سیمینار کی مختلف نشستوں میں کئی کتابوں کا رسم اجرا بھی عمل میں آیا جن میں سب سے اھم اور قابل قدر و مفید تو فکر شافعی پر شائع کردہ مجموعہ مقالات ہے جس کا تفصیلی تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا۔
دوسری کتابوں میں ہمارے استاد محترم اور معھد الامام حسن البنا کے بانی و ناظم مدیر طیبات مولانا ناصر سعید اکرمی زید مجدہ کی دو کتابیں آئینہ فقہ اور حج و خواتین جو دراصل ایک عربی کتاب کا ترجمہ ہے اسی طرح الحج المبرور کے نام سے مولانا نثار احمد دروگے کی کتاب جس کو ہمارے دوست اور مجمع الامام الشافعی العالمی کے متحرک رکن مفتی فیاض صاحب برمارے حسینی نے مرتب کیا ہے اسی طرح ایک کتاب مولوی ظھور بن نورمحمد پٹیل صاحب کی "نو مسلم احکام و مسائل فقہ شافعی کی روشنی میں"اور "حمل و حاملہ احکام ومسائل"مفتی مبین قطب الدین پرکار وغیرہ ہیں اس طرح کے فکری سیمینار فقہ شافعی سے تعلق رکھنے والی ان مشہور شخصیات پر بھی کیا جانا چاہیے جو فقہ کے ساتھ ساتھ دوسرے بہت سے علوم میں بھی اپنی خدمات میں مشہور ہوں جیسے حجة الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ امام عزالدین بن عبدالسلام امام نووی علامہ ابن کثیر اور خاتمة المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی رحمھم اللہ علی الجمیع وغیرہ ۔
اس پروگرام میں شرکت سے میری 1999/ کے کوکن کے پہلے تبلیغی سفر کی یاد تازہ ہوگئی جس میں ہم لوگوں نے شریوردھن اور اس میں بھی خاص طور پر نگینہ کوکن جامعہ عربیہ حسینہ شریوردھن میں ایک دو دن گزارے تھے اس وقت بہت سے دوستوں مولانا مفتی اشفاق قاضی مولانا عادل ھوڈیکر رتنا گیری مولانا عبدالخالق چپلوں حال استاد کالوستہ اور مولانا اسحاق وغیرہ سے ملاقات ہوئی تھی جو اس وقت جامعہ حسینہ کے ممتاز طلبہ میں شمار کیے جاتے تھے اور اب کوکن کے اھم اور متحرک علمائے کرام میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے اسی طرح ہمارے اس سفر کے مشفق و محترم میزبان جامعہ حسینہ کے سابق مہتمم اور اس مجمع کے ابتدائی اور اھم سرپرست مولانا امان اللہ صاحب بروڈ قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی بہت یاد آئی کہ مولانا مرحوم تو ایسے علمی کاموں کی خوب سرپرستی فرماتے تھے اللہ تعالیٰ آپ کی تربت کو ٹھنڈی رکھے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
ہمارے ندوۃ کے فارغین میں کوکن کے مولانا عبداللہ خطیب ندوی اور برادر عزیز معظم کوکنی ندوی فرحان رتنا گیری ندوی نے بھی خوب ساتھ دیا اور محبت و تعلق کا اظہار کیا اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم سے نوازے۔
اسی پروگرام میں جامعہ حسینہ شریوردھن کے نئے مہتمم اور وھیں کے ایک سئنیر استاد و مفتی مولانا نذیر صاحب اسی طرح مولانا ریحان کردمے شریوردھن فقہ شافعی پر اچھا خاصا تصنیفی تالیفی کام کرنے والے مفتی نور محمد صاحب پٹیل مفتی رفیق صاحب کے صاحبزادے نوجوان عالم دین اور وکیل مولوی اسامہ رفیق پورکر نیز بھٹکل مرڈیشور کنڈلور کوکن کیرالہ تمل ناڈو حیدرآباد وغیرہ کے بہت سے ممتاز علمائے کرام سے مختصر مختصر سی ملاقاتیں ہوئیں اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کی شرکت کو قبول فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے۔
سنیچر کو بعد نمازِ مغرب تلوجہ کے نوجوان عالم دین اور دارالعلوم اسلامیہ عربیہ کے ذمہ دار برادر عزیز مولانا فرحان پٹیل صاحب نے اپنے اس دارالعلوم کی زیارت کرائی جو ماشاءاللہ چھوٹی سی جگہ پر بڑے اچھے مرتب اور معیاری انداز سے قائم کیا گیا ہے حفظ قرآن عالمیت اور افتاء تک کی تعلیم کا یہاں انتظام کیا گیا ہے طلبہ کی اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہے جو مدرسے کیلئے ایک فال نیک ہے کتب خانہ بھی بڑا اچھا مرتب اور اھم کتابوں پر مشتمل ہے مولانا فرحان صاحب نے بتایا کہ طلبہ کے لیے کھانے اور قیام کا بھی بہتر انتظام کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس مدرسے کو ہر طرح کی ترقی عطا فرمائے۔
تلوجہ میں جس گھر ہمارا قیام تھا انھوں نے بھی مکمل میزبانی کا حق ادا کردیا ہر وقت معلوم کرتے رہتے کہ کسی طرح کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے کھانے پینے آرام وغیرہ کا بھرپور خیال رکھا پورا فلیٹ ایک طرح سے ہم لوگوں کے لئے خالی کردیا جب کہ ان کے نوجوان بیٹے اسی دن ایک ایکسیڈنٹ کی وجہ زخمی ہوگئے تھے لیکن ہمارے میزبان نے اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کسی طرح اس کا احساس ہونے بھی نہیں دیا اسی طرح تلوجہ کے نوجوان علماء مولوی صفوان مولوی تنویر اور ان کے دونوں دوستوں نے ممبئی ایرپورٹ پر اترنے سے لیکر لکھنؤ واپسی کے لئے ممبئی ٹرمنل ون (1) کی گیٹ میں داخل ہونے تک پورا ساتھ دیا اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو اپنی شایان شان جزاۓ خیر عطا فرمائے وہیں رات سوا تین بجے کے قریب مولوی حافظ سید ذاکر صاحب ندوی بھی اپنے مادر علمی سے آنے والے حضرات کی محبت و تعلق میں ایرپورٹ کی گیٹ میں داخل ہونے سے چند منٹ پہلے بھاگتے بھاگتے تشریف لائے اور ملاقات کر کے مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء سے محبت کا ثبوت دیا اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحت عافیت اور ہر طرح کے خیر سے نوازے۔
اتوار کی صبح سات بجے کے قریب ہم لوگ لکھنؤ ہوائی اڈے پر اترے اور تھوڑی ہی دیر میں اپنے مرکز علمی اور مسکن وقتی دارالعلوم ندوۃ العلماء پہونچ گئے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں