تحریر : عطاء الرحمن القاسمی ،شیموگہ انسان کو جو چیز جتنی مشکلوں اور مجاہدوں سے حاصل ہوتی ہے اس کی قدر و قیمت اور اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی حفاظت بھی اچھی طرح کرے تاکہ وہ چیز ہمیشہ اس کی نظروں کے سامنے رہے۔ یہاں قربانی کا منشا بھی یہی ہے کہ اگر خدا کی راہ میں قربان کرنا ہو تو بہتر سے بہتر چیز کو قربان کردیا جائے اور یہ بات ہم حضرت ابراہیم ؑو حضرت اسماعیل ؑکی قد آور شخصیتوں میں دیکھتے ہیں۔چنانچہ حضرت ابراہیم ؑخدا ئے تعالیٰ کے دربار میں بڑی آہ و زاری، بے انتہا عجز و انکساری اور مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ دعا فرماتے ہیں کہ " اے ہمارے رب مجھے صالح اولاد عطا فرما " (القرآن ) یہاں غور کرنے کرنے کی بات ہے کہ ایک نبی کو اولاد کی آرزو اور تمنا کیوں پیدا ہوئی؟ جب کہ مال اور اولاد تو اللہ سے غافل کردینے والی چیزیں ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں موجود ہے "اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تمہیں اللہ سے غافل نہ کردیں " (القرآن ) اسی لئے حضرت ابراہیم ؑنے یہاں اولاد صالح کی تمنا اللہ کے سامنے پیش کی تو خود بخود یہاں اولاد غیر صالح کی نفی ہوگئی، اولاد صالح کی تمنا اللہ کے سامنے پیش کرنے کا مطلب ہے کہ جو نبی کی نیابت کر سکے، ا پنے والد کے دعوتی مشن کو جاری رکھ سکے اور نبوت کی تمام ذمہ داریوں کو نباہ سکے ، حتیٰ المقدور اس کا حق ادا کر سکے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابراہیمؑ کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں ایک بردبار اور حلیم الطبع لڑکے کی خوشخبری سنائی جس کو قرآن نے نقل کیا ہے " ہم نے اس کو ایک حلیم و بردبار لڑکے کی بشارت دی " ( القرآن) ماں اور بچہ وادی ٔ غیر ذی زرع میں:۔ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کی حقیقت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ابھی بچہ شیر خوار ہے،ماں کی گود میں ہے،اس ماں کو ابھی بچے کے لئے ہرطرح کا آرام و آسائش مہیّا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بچہ کسی نقصان پہنچا نے والی چیز سے متاثر نہ ہو، بچپن کی ایسی نازک ترین حالت میں حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کا یہ حکم ہوتا ہے۔" اے ابراہیمؑ اپنی ذرّیت یعنی ماں اور بچے کو لق ودق میدان میں چھوڑ آو " (القرآن )ایسی طفولیت وشیرخواری کے زمانے میں ایک باپ اپنے لڑکے کی نگہداشت اور سرپرستی ورکھوالی کرتاہے لیکن حیرت وتعجب کی بات ہے کہ اللہ کی طرف بچے کو ایسے میدان میں چھوڑ نے کا حکم ہوتا ہے جہاں اللہ کے سوا کوئی نہیں، نہ دانہ ہے ،نہ پانی ،نہ گھاس پوس ہے، نہ سایہ دار درخت ہے اس کو حفیظ جالندھری نے کہا ہے۔ خدا کا قافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر پیغمبر بیوی بچے کو لئے قطع سفر کرکے خدا کے حکم پر لبیک کہتے اور دکھ بھرتے ۲ یہ وادی جس میں وحشت بھی قدم دھرتی تھی ڈر ڈر کے یہاں پھر تے تھے آوارہ تپھیڑے باد ِ صر صر کے یہ وادی جو بظاہر ساری دنیا سے نرالی تھ ی یہی اک روز دین ِ حق کا مرکز بننے والی تھی یہ واد ی جس میں نہ سبزہ تھا نہ پانی تھانہ سیایہ تھا اسی کی جستجو میں اس طرف یہ پیغمبر آیا تھا ایسی صورت میں حضرت ابراہیم ؑ دعا فرماتے ہیں۔"پرودگار میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے، پروردگار میں نے اس لئے ایسا کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کو ان سے محبت کرنے والے بنا اور انہیں کھانے کیلئے پھل دے شاید کہ یہ تیرے شکر گزار بندے بنیں "( ابراہیم آیۃ۳۷) حضرت ابراھیم ؑ کی سخت آزمائش:۔ یہاں سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ شیر خوار اور بہت ہی کمسن بچے اور ماں کوبے آب وگیاہ اور بنجر وادی میں چھوڑ جانے کا حکم حضرت ابراہیم ؑکو دیا جارہا ہے گویا حضرت ابراہیم ؑکو سخت آزمائش میں ڈالا جارہا ہے۔کیا یہ آزمائش اور امتحان یوں ہی لیا جارہا ہے؟ہرگز نہیں، اصل میں یہ امتحان اور آزمائش حضرت ابراھیم ؑ کی کامیابیوں کا زینہ اور ذریعہ ہے ،حضرت ابراہیم ؑکی آزمائش کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرما تا ہے"یاد کرو جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اترا تو اللہ نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں "۔ابراہیم ؑنے عرض کیا " کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے، اللہ نے جواب دیا "میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے اور یہ کہ ہم نے اس گھر ( کعبہ) کو لوگوں کیلئے مرکز اور اس کی جگہ قراردیا تھا۔"(البقرہ ۱۲۳تا۱۲۸) قوم کی اصل قیادت:۔ قوم و ملّت کا قائد بننا کوئی آسان کام اور کھیل تماشا نہیں اور یہ ذمہ داری ہرکَس وناکَس کے سر نہیں ڈالی جاسکتی رہبر و رہنما بننے کے لئے امتحان میں کھرا اُترنا پہلی شرط ہے اور وہ شرط ربّ العالمین کے نزدیک وہی ہو سکتی ہے جس کا بندہ مکلف ہے اور اسکی بجا آوری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا ہے۔قیادت صرف اس کا نام نہیں قوم و ملت کو ابتلا اور آزمائش کے کٹھن وقت میں تنہا چھوڑ دے ،ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے ڈر نے کے بجائے ڈٹ جائے اور اُن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرے ،صرف جلسے ،سمینار اور کانفرنسوں میں حکومت کے خلاف قرار داد پاس کرنے کو کافی نہ سمجھے ہر حال میں اس کے احکام کو اپنے سر آنکھوں پر رکھتا ہے۔رات ہویا دن ،بیوی ہو،بچہ ہو سب کو اس کیلئے قربان کردینا آسان ہے۔ اس لئے ہم قربانی کے جانور کو قربان کر تے وقت ۳ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ " میری نماز اور میری قربانی اورمیرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کیلئے ہے۔ قربانی ہم سے کیا مطالبہ کر تی ہے:۔ اب ہم اس عید ِقرباں کے موقع پر اپنا جائزہ لیں اور محاسبہ کریں کہ کیا واقعی ہمارا یہ اقرار دل کی آواز ہے؟کیا ہم واقعی اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑکی سنت کا اعادہ کررہے ہیں؟ ہر سال عید ِقرباں آتی ہے اور چلی جاتی ہے مگر ہمیں ذرا احساس نہیں ہوتا کہ یہ سنتِ ابراہیمی ہم سے کیا مطالبہ کررہی ہے؟ یہ قربانی کی سنت ہر سال ادا کی جاتی ہے اور قیامت تک ادا کی جاتی رہے گی۔کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف ہم پر رسم کی ادائیگی کیلئے واجب قرار دیا ہے؟ نہیں نہیں ہرگز یہ بات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آزمانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ سیدنا ابراہیم ؑ کی طرح خدا کی آزمائش کو پورا کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں یا نہیں؟ اس قربانی کی روح کو ہم سال بھرباقی رکھتے ہیں یانہیں؟ قربانی کے جانور کا گوشت ہم اعزّہ واقربا اور غربا ومساکین میں تقسیم تو کردیتے ہیں مگر کیا سال بھر دوسرے دنوں میں محتاجوں، مسکینوں اور رشتہ داروں کی خبر گیری اور مالی قربانی وفیّاضی کا معاملہ کیاجاتا ہے؟اگر اس طرح کا عمل نہیں ہے تو ہم نے قربانی کے مفہوم کو سمجھا ہی نہیں بس اتنا سمجھا کہ اللہ نے ہمیں قربانی کا حکم دیا اس بہانے ہم نے اپنا پسندیدہ جانور خریدا اور ذبح کرکے خوب لذّت سے کھایا اور رشتہ داروں کو بھی کھلا دیا، سال بھر ہم نے اپنا محبوب مال مستحقوں پر خرچ نہ کیا تو اس کا یہی مطلب نکلا کہ ہم نے اپنے باپ ابراہیم ؑ کی سنت سے کچھ سبق نہ لیا اور اس قربانی کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔ہم نے جانور قربان کرتے وقت اللہ سے یہ اقرار کیا کہ اے الہ العالمین’’ بیشک میری نماز اور میری قربانی اورمیری زندگی اور میری موت ربّ العالمین کیلئے ہے، اللہ سے اس عہد و پیمان کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم نمازوں کے پابند ہوتے ہر نماز میں خاص کر فجر کی نماز میں جمعہ جیسا مجمع ہوتا، ہماری مساجد پنج وقتہ نمازوں سے بھری رہتیں، ہمارے نوجوان دکانوں، ہوٹلوں، چوراہوں اور بازاروں کی زینت بننے کے بجائے جوں ہی موذن نے صدائے وحدانیت ورسالت مساجد کے مناروں سے بلند کیا فورا ًنمازوں کے لئے مساجد کا رخ کرتے،مسلم سماج کے بزرگ اور بوڈھے بھی ہوٹلوں میں بیٹھ کر چائے نوشی ، پان و تمباکونشی ،مجلس بازی، فالتو گری اور دنیا بھر کی لن ترانی کے بجائے موذن صاحب کی دعوتِ نماز پر بغیر کسی تاخیر کے ان کا رخ مسجدوں کی طرف ہوتا، ہمارے نوجوان اور قریب البلوغ لڑکوں کے ہاتھوں میں موبائل کے بجائے قرآنِ کریم کے نسخے ہوتے اور یہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے مساجد کے اندر نظر آتے، تو ایسی صورت میں کہا جاتا کہ حقیقت میں ہماری نمازیں اللہ کیلئے ہیں اور اللہ سے ہمارا عہد و پیمان مساجد میں نمازوں کو پابندی سے ادئیگی صورت میں پورا ہوتا۔ربّ العالمین سے یہ ہمارا پکّا عہدلفظ ِ نسکی سے ہیکہ ہماری قربانی بھی تیرے لئے ہے یعنی تیری رضا وخوشنودی مجھے چاہئے، مگر قربانی دینے والا شخص اس عہد کے باوجود پنج وقتہً نماز کا پابند نہیں، سود خوری میں ملوث ہے، پڑوسیوں کے ساتھ اس کا رویہ تعلیمات اسلام کے خلاف ہے رات ودن کے چوبیس گھنٹے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی اور خدا کی نافرمانی میں گزرتے ہیں تو ایسے شخص کا قربانی کرنا بیکار وبے سود ہوگا، خدا کے یہاں اسکی کوئی قدروقیمت نہیں ۴ ہوگی، اسی طرح قربانی کرنے والے کا ومحیای سے یہ اقرار کہ میری ساری زندگی یا اللہ تیرے لئے ہے،مگر ساری زندگی بغیر نماز کے گزررہی ہے، سود زندگی میں چھوٹ نہ سکا،شادیوں میں لہو و لعب غیر اسلامی رسموں میں ہم ملوّث، ہماری نکاح خوانی دنیا بھر کے بدعات وخرافات سے بھری ہوئی، شادیوں میں عورتوں کی بے پردگی اور بے تکلف مردوں کاسامنا کرنا، کھانے کی مجلسیں مردوں اور عورتوں سے مخلوط، عورتوں میں نوجوان لڑکوں کو کھانے کھلانے کیلئے مقرر کرنا، بڑوں کے ادب واحترام کو پامال کرنا، اولاد کا ماں باپ کے حقوق کو ضائع کرنا، والدین کا اولاد کوغیر اسلامی تربیت سے آراستہ کرنا، نوجوانوں کا آپس میں گندی وفحش گالیوں سے مخاطب کرنا، مسلم معاشرے میں وعدہ خلافی اور معاملات میں بے انتہا خیانت گری کا ارتکاب کرنا ،غیر محرم عورتوں نوجوان لڑکیوں اور دوسروں کی بیویوں پر بری نگاہیں ڈالنا، ہمارے نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں میں زناکاری، سٹہ، چرس وگانجہ بازی ،سود خوری اور نہ جانے کن کن جرائم میں مبتلا ہیں، تو اللہ سے ہمارا عہد اور اس اقرار کے بعد کہ میراجینا آپ کیلئے ہے، مذکور جرائم کو اداکرتے ہوئے کہاں پورا ہوتاہے؟ جب ساری زندگی اللہ کی ہدایات اور رسول اکرم ؐکی تعلیمات کے خلاف گزریگی تو ہمارا اللہ سے یہ وعدہ کہ ہمارا مرنا بھی تیرے لئے ہے درست اور صحیح معیار پر نہیں اترتا لہٰذا ہماری موت اور مشرک وکافر کی موت میں کوئی بھی فرق نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمت اور اچھے راستے پر چلنے کی ہمیشہ توفیق بخشے اور اس قربانی کی اصل روح کو سمجھنے کی ہمیںہدایت دے۔ حضرت ابراھیم ؑ نے توحید کی علمبرداری کے لئے گھر اوروطن چھوڑ دیا:۔ جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے خدا پرستی، توحید پرستی اسلام کی علمبرداری اور دینِ الہٰی کی ترجمانی کیلئے باپ کی مخالفت اور گھر والوں کی عداوت کو گلے لگایا مگر ان کے باطل مذہب کو قبول نہ کیا، ایک وقت وہ آیا کہ گھر والوں کے ساتھ عوام الناس ، اربابِ حکومت نے اور بادشاہِ وقت نمرود نے بھی بڑی زوردار مخالفت کیا ،یہاں تک کہ حضرت ابراہیم ؑ کو جلا کر ہلاک کردینے کے منصوبے تیار کئے گئے، مہینوںآگ جلائی گئی، خوشی خوشی آگ میں جلنا پسند کیا مگر خدا کی وحدانیت و ربانیت سے مونہہ نہ موڑا، گھر بار ،اعزہ و اقربا اور پیارا وطن سب کچھ چھوڑنا پسند کیا مگر خدا کے دین اور دعوت الی اللہ کے فریضے سے روگردانی اختیار نہیں کی۔اس حیاتِ ابراہیمی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ہم بھی ملتِ ابراہیمی کے ایک سپوت اور امتِ مصطفوی ؐکے نام لیوا ہونے کے باعث خدا پرستی، توحید پرستی اور اسلام کی علمبرداری کے خاطر گھریلو سطح پر خاندانی سطح پر حکومتی سطح پر یہاں تک کہ ساری دنیا ہماری مخالف ومعاند ہوجائے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح ہمیں چاہئے کہ مخالفتوں، مخاصمتوں اورعداوتوں کے ہر موڑ پر خدا پرستی، توحید پرستی اور اسلام کی علمبرداری سے سبکدوشی اور روگردانی کو ہرگز نہ اپنایا جائے، مصلحت و حکمت کے شیطانی فریب پر نہ مسلم افراد کان دہریں نہ ملّی وسیاسی شخصیات توجہ دیں، ملّی تنظیموں کے اعلیٰ ذمہ دار حضرات اور ملّت کے نام نہاد قائد ین بھی طاغوتی وسرکشی اور مسلم بیزاری کو ظاہر کرنے والی متعصب حکومت کے سامنے مصلحت وحکمت کی آڑ میں ملّتِ اسلامیہ کا سودا ہرگز نہ کریں، خدارا دین بے زار، اسلام بے زار ،ملّت بے زار، تعصب وعدات کی روادار ہندوستانی عدالتوں اور بالخصوص سپریم کورٹ کا حیلہ وحوالہ دیکر ملّتِ ااسلامیہ کی پیٹھ نہ تھپکیں، ان تمام امور میں اسوۂ ابراہیمی کا نمونہ اپنائیں، تو ہماری کامیابی وکامرانی یقینا ہمیں اس ملک میں صنم پرستوں اور باطل پرستوں کے سامنے بلندی وسرخروئی کے اعلیٰ مقام تک پہنچائیگی۔یہی پیغام ہمیں ہرسال عید الاضحی دیتی ہے، اللہ سے دعاہے کہ ہم حضرت ابراھیم ؑ کی اہم یادگار قربانی اوراُن کے مجاہدوں اور اوللعزم کارناموں سے سبق حاصل کریں اور انہیں کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا اور آخرت میں سرخ روئی حاصل کرنے کی کوشش کریں، آمین بجاہ سید المرسلین ورحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم۔
مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں