مولاناعبدالماجد دریابادی کے مشہورکالم ”سچّی باتوں“کے ذریعہ اصلاحِ معاشرہ کااہم کام
ڈاکٹرمرضیہ عارف
اُردو کے جلیل القدر ادیب، منفرد صحافی، ممتاز مفسرِقرآن اورانوکھی انشاپردازی کے مالک مولانا عبدالماجد دریابادی کی صحافت کے حوالے سے جب بھی گفتگو کی جائے گی تو نظریں اُن کے مشہورِ زمانہ کالم ”سچّی باتوں“ پررُک جاتی ہیں۔ اِس کالم کی مقبولیت میں مولانادریابادی کے حسنِ انشاکو بڑا دخل ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے، سادہ وسلیس زبان، ٹکسالی محاورے، حسبِ حال اشعار اور مصرعوں کے استعمال نے اِسے ہرخاص وعام کاہردلعزیز بنادیاتھا۔ یہ کالم دوسرے اردو اخبارات ورسائل میں بھی کثرت سے نقل ہوتا اورایک جہاں اِسے پڑھ کر داد دیتا اور سبق حاصل کرتا، اِس میں ملکی اورغیرملکی معاملات جن کا تعلق ملت سے ہوتا اُنھیں نقل کرکے مولانا اپنا مخصوص انداز اورلطیف پیرایہ میں اُن پر تبصرہ فرماتے جس کامقصد سراسرتعمیری واصلاحی ہوتا اُس زمانے میں تو یہ اُردو صحافت کے لئے بالکل نئی چیز تھی آج بھی ایسا سلسلہ کسی اخبار ورسالے میں نظرنہیں آتا جس کے ذریعہ اصلاحِ معاشرے کاوہ زبردست کام لیاجارہا ہوجومولانا دریابادی نے اپنے اس کالم ”سچی باتوں“ کے ذریعہ انجام دیا۔اُس زمانے میں مسلمان اوراُن کامعاشرہ طرح طرح کی برائیوں کاشکار تھا۔ قوم میں بدعات اورمفسدات کادور تھا جن کے خلاف آواز بلندکرنا اُس وقت بڑے عز م وحوصلے کاکام تھا۔ مولاناکے پرچوں نے محرم، شبِ برات، زیارتِ قبور، عورتوں کو ترکے میں حصہ دینے، بیوہ عورتوں سے نکاح کرنا،ایک سے زیادہ شادیوں کو بُراسمجھنا، شادی بیاہ کے رسوم،غم اورسوگ کے بیجا مظاہرے، فضول خرچی اوراسراف، تعلیمی پسماندگی، اخلاقی زوال جیسے امورکے خلاف نہایت ہمت اورمستقل مزاجی کے ساتھ نہ صرف آواز بلندکی بلکہ مسلم قوم کو صحیح راستے پرچلنے کی تلقین بھی فرمائی، جس کے بدلے میں اُنھیں غیرمعمولی مخالفت اور طنز وتعرض کانشانہ بنایاگیا لیکن آہستہ آہستہ یہ کالم اِتنامقبول ہوا کہ پورے ملک میں ذوق وشوق سے پڑھا جانے لگا اِس کے چند چبھتے ہوئے جملے ادب وانشا کے دفتر وں پربھاری ہوتے جس طرح اکبرالہ آبادی کی شاعری نے اصلاحِ قوم میں اہم کردار ادا کیا، اُسی طرح مولانا دریابادی کی نثرنے بے مثال جرأت وہمت سے قوم کی تعمیر کاولولہ انگیز کارنامہ انجام دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم قوم کی زبوں حالی کے پیشِ نظر مولانا مرحوم اصلاح وتربیت کے کام کو سب سے مقدم سمجھتے تھے۔ اورہمہ وقت اِس کے لئے تیاررہتے تھے، خواہ وہ زبانی ہو یاتحریر کی شکل میں۔ اُن کے بھتیجے اور معروف ادیب عبدالعلیم قدوائی اپنے عمِّ محترم کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ ”وہ ایک بہترین معلم اور مصلح بھی تھے، جس کا تجربہ عزیزوں اور خصوصی تعلق رکھنے والوں کو خوب ہے، مرحوم نے اُن کی تربیت کا بھی خاص اہتمام فرمایا۔ پڑھنے، لکھنے، کھیلنے، سونے، بات چیت کرنے، غرض روزانہ زندگی کے تمام مشاغل نہ صرف اُن کے علم میں رہتے بلکہ اُن کی جزئیات کو دریافت بھی فرماتے اور ہرچیز کی حسن وقبح کو بڑی خوبی سے بیان فرمادیتے، اُن کے لئے سب سے بڑی ناخوشی کی بات یہ ہوتی تھی کہ کوئی چیز اُن سے چھپائی جائے یا دانستہ طور پر غلط بیانی کی جائے، بڑی سے بڑی غلطی اور قصور اُن کے یہاں قابل معافی تھے بشرطیکہ اُس کا اعتراف کھل کر کرلیا جائے، فرمایا کرتے تھے کہ اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈھٹائی اور اپنی برائیوں کی پردہ پوشی کرنا ہے، جب تک اِس کو دور نہ کیا جائے گا تزکیہ اخلاق میں کامیابی نہیں ہوسکتی۔ اسکول اور کالج کے زہرآلود ماحول سے بخوبی واقف تھے اور حکیمانہ انداز سے اِس زہر کا تریاق بیان فرماتے، سینما کی وبا، اُس وقت تک عام ہوچکی تھی، ہم لوگوں کے سامنے متعدد بار اِس پر گفتگو فرمائی اور اُس کی مُضرتیں کھل کر بیان کیں، معاشرہ پر اُس کے اثرات کو واضح کیا، جس کی وجہ سے ایسا نقش ہم لوگوں کے دلوں پر اِس برائی کا بٹھایا کہ پھر اِس کی وقعت یا اس میں دلکشی باقی نہیں رہی، یہ وصف مرحوم میں بدرجہ اتم موجود تھا اور اِسی سے کام لے کر اُنہوں نے فرنگی تہذیب اور طرزِمعاشرت کی طرف سے اپنے حلقہ کو بالکل متنفر کردیا اور اِس کی حقارت دلوں میں بٹھادی۔ (مضمون ”مولانا عبدالماجد دریابادی کی یاد“ از عبدالعلیم قدوائی۔ قومی آواز ۶/ جنوری ۰۸۹۱ء) ہرروز مولانا کے پاس بے شمار خطوط دوردراز سے آتے اور مولانا اپنی بے پایاں مصروفیات کے باوجود،اصلاحِ حال کے اہم مقصد کوسامنے رکھ کر خوشی خوشی وقت نکال کرسب کاجواب دیتے اور جن خطوط کو کسی پہلو سے اہم سمجھتے اُن کو اپنے اخبار میں شائع بھی فرماتے۔ یہ کالم”مشورے اور گذارشیں“کے عنوان سے شائع ہوتااِس کو پڑھ کر لوگوں کو بڑا فائدہ پہونچتا۔ خانگی مسائل، ذہنی پریشانیاں، روز مرہ کی اُلجھنیں، عمل وعقیدے کے تعلق سے حقائق اور موت وآخرت کے متعلق صحیح احساسات، بزرگوں کی اہمیت اورصحیح معاملات، سب سے بڑھ کر ایک عام اعتدال وتوازن کی تعلیم،”مشورے اورگذارشوں“کانچوڑ یہی سب ہوتاتھا، جس سے دُکھے ہوئے دلوں کو راحت ملتی،گمراہ لوگوں کو صحیح راہ نظرآتی، مولانا دریابادی خوداپنے لیے ”پُرانے مریض“کالفظ استعمال فرماتے، جو اپنے تجربات کی روشنی میں دوسروں کو اعادہئ صحت کے چٹکلے اورترکیبیں بتاتارہتا ہے۔ معاشرے کے معلم کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ذہین اور اخذ کرنے والے مُتعلم بھی تھے۔جو آخر عمرتک ہرمعاملے کی تحقیق اور صحیح معلومات حاصل کرنے کے حریص رہے، حکمت ومعرفت کے یہی موتی جو مولانا دریابادی اپنے مطالعہ اور ملاقاتوں سے حاصل کرتے اپنے تحریروں کے ذریعہ لٹاتے رہے۔اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا ذہن، مزاج اورقلم عطا کیاتھا کہ کام کی بات جہاں سے ملتی لے آتے اوراِس کو نہایت خوبی سے بیان فرمادیتے۔ مولانا دریابادی کے معاصرصحافیوں میں مولانا محمدعلی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولاناحسرت موہانی، مولاناسیدسلیمان ندوی، مولاناظفرعلی خاں، خواجہ حسن نظامی، جالب دہلوی وغیرہ کے نام آتے ہیں لیکن وہ اپنے معاصرین میں انفرادی حیثیت اوربالکل الگ شناخت کے مالک تھے اورایک امتیازی شان کے حامل صحافی تھے۔ دریاباد کی یہ ”مُشتِ خاک“آسمانِ صحافت پرنیّرِ تاباں بن کرچمکی اوراُس نے اردو صحافت کو ”احتجاجی صحافت“کے خول سے نکال کر اُسے تعمیری پیراہن عطا کیا۔اپنے قلم کومعاشرے کی اصلاح،فرض کی تربیت، کردارسازی اور ذہن سازی کے لیے وقف کردیا انھوں نے صحافت میں جس طرزِ نو کی بنیاد ڈالی اُسے ”ماجدی صحافت“کہاجاسکتا ہے۔ماجدی صحافت کے اصول اور اجزائے ترکیبی انھوں نے طے کیے، جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ معیاری صحافت کے اصول اور ضابطے کیا ہوسکتے ہیں؟ اورایک صحافی کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں کن کن امور کی پابندی کرنا چاہیے صحافت جیسے شریفانہ فن میں کن نکتوں کا لحاظ رکھنا چاہیے، یہ مضمون ایک سوال کے جواب میں ”صدقِ جدید“ لکھنؤ کے ۹۱/مارچ ۸۶۹۱ء کے شمارے میں ”ہفتہ وارصحافت کے آداب“کے عنوان سے شائع ہوا اور ۶۱/نکات پرمشتمل ہے جس کے ابتدائی نکات پڑھنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مولانا کی صحافت کن اصول وقواعد پراستوار رہی۔ مولانا تحریرفرماتے ہیں: ”صحافت سے مقصود دین وملت کی خدمت رکھیے، عام خدمت بھی اِسی کے تحت آجاتی ہے۔ وطن کا بھی بڑا حق ہوتا ہے جس طرح پڑوس کا،اُستاد کا اوراہلِ خاندان کے حقوق ہوتے ہیں،البتہ مسلمان’پرستارِ وطن‘نہیں ہوسکتا، عبودیت کایہ خصوصی تعلق تو صرف ذاتِ حق کے لیے مخصوص ہے۔ اُس کی مخلوق میں سے کسی کے حصے میں نہیں آسکتا۔خبربرائے خبرکا روزنامہ میں جو بھی درجہ ہو، ہفت روزہ میں یہ ایک مہمل چیز ہوگی، ہفت روزہ میں اپنے تبصرے سے یاکم از کم خبر کی سرخی سے ہرخبر کو بامقصد بناکر پیش کیجئے، پبلک کے جذبات کی محض نمائندگی پر ہرگز اکتفا نہ کیجئے، پبلک کے مذاق اور جذبات کی اصلاح کی کوشش ہمیشہ جاری رکھئے، اپنی مقبولیت کاخیال کسے نہیں ہوتا؟ ایک حدتک یہ خیال قدرتی ہے لیکن اِس جذبہ کو ہمیشہ حدود کے اندررکھیے اوراپنے اوپرغالب نہ آنے دیجئے، دوسروں کا احتساب کیجئے لیکن اپنے کو بھی اس سے بالاتر نہ خیا ل کیجئے۔ صحافت کایہ ”ضابطہئ اخلاق“خود مولانا دریابادی کی اخبار نویسی پر پوری طرح صادق نظر آتا ہے،اُن کی چند خصوصیات ایسی تھیں جو اُن کے طبقے میں بہت کم ملیں گی: ۱- اُن کاذوقِ تحقیق، جوصحیح معلومات حاصل کرکے ہی مطمئن ہوتاتھا ۲- اعتدال ومیانہ روی، جس کو برت کر وہ ہرطبقے اور فکر کے لوگوں سے مخلصانہ برتاؤ فرماتے ۳- ایک قابلِ ذکر خوبی اُن کی صاف گوئی تھی، جب سے انھوں نے میدانِ صحافت میں قدم رکھا اُس وقت سے آخرتک مولانا حق گوئی کی ایک سے بڑھ کرایک نادرمثال قائم کرتے رہے، جسے ہم ”قلم کے جہاد“ کانام دے سکتے ہیں لیکن اُن کی زبان اورانشا پردازی کا یہ کمال تھا کہ کبھی قانون کی گرفت میں نہیں آئے۔ طنز اُن کی تحریر کاخاص جوہرتھا، اُس کو وہ بڑی خوبی سے مناسب موقع کا استعمال کرتے۔آج بھی نہ معلوم کتنے قلمکار اورصحافی ایسے ہیں جنھوں نے مولانا کی تحریر سے رہنمائی حاصل کی اوراپناایک مقام بنایا۔ آبروئے صحافت مولاناعبدالماجددریابادی آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن اُن کی تعلیمات، تحریرات اورہدایات موجودہیں جن پر عمل پیراہونے سے دین ودنیا دونوں سدھر سکتے ہیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں