جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے مابین مناظرہ

عبد السلام خلیفہ، بھٹکل

جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے درمیان ہونے والے حالیہ مناظرے میں دونوں فریقین کا Line of Argument اور اندازِ فکر بالکل مختلف تھا۔ جہاں ایک طرف مفتی صاحب خالص فلسفیانہ انداز میں بحث کر رہے تھے وہیں جاوید اختر کا انداز ایک انسان پرست متشکک یعنی Humanist Skeptic کا تھا۔
مفتی شمائل ندوی کا مکمل فوکس معقولاتی طور پر خدا کا وجود ثابت کرنے پر تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے امکان و وجوب یعنی Contingency Argument اور علت و معلول کی زنجیر کو بنیاد بنایا۔ ان کی گفتگو سے ظاہر تھا کہ وہ دیگر فلسفیانہ دلائل کے لیے بھی پوری طرح تیار ہو کر آئے تھے۔
لیکن اس کے برعکس جاوید اختر کی دلیل کا مرکز شر کا مسئلہ یعنی Problem of Evil تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر خدا اچھا ہے اور بھلائی چاہتا ہے تو دنیا میں اتنی برائیاں اور مصائب کیوں ہیں؟ اگرچہ یہ ایک خالص عقلی دلیل کے بجائے جذباتی اپیل (Emotional Appeal) ہے لیکن عوامی سطح پر یہ انسانی دلوں کو متاثر ضرور کرتی ہے۔ مفتی صاحب نے اس کا جواب دینے کی کوشش ضرور کی مگر وقت کی کمی آڑے آگئی۔ البتہ بحث کے دوران ہونے والی نوک جھونک اور حاضر جوابی میں انہوں نے کافی حد تک اس نکتے کو واضح کیا۔
مفتی شمائل ندوی نے پوری کوشش کی کہ بحث ایک خاص علمی ڈھانچے کے تحت ہو لیکن جاوید اختر نے کسی مخصوص علمی ساخت میں جواب دینے کے بجائے اس دائرے سے باہر نکل کر مفتی صاحب کے دلائل کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش کی۔ ان کا انداز کسی منظم فلسفیانہ نقطہ نظر کے بجائے جذباتی اپیل اور خطابت پر مبنی تھا جسے رچرڈ ڈاکنز کا ایک دیسی ورژن کہا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ انداز سنجیدہ علمی حلقوں میں کمزور سمجھا جاتا ہے، لیکن عوامی سطح پر مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
قطع نظر اس سے کہ اس مناظرے میں کون جیتا اور کون ہارا اس کے کچھ دور رس نتائج اور فوائد ہونگے۔ ماضی میں مسلمانوں کی طرف سے مناظروں میں عموماً ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے لوگ نظر آتے تھے جن کا تعلق مدارس کے بجائے عصری تعلیم یافتہ طبقے سے تھا جنہیں بعض لوگ مزاحاً “برادرز” بھی کہتے ہیں۔ چونکہ مفتی شمائل ندوی کا تعلق روایتی دینی مدارس کے حلقے سے ہے اس لیے یہ تاثر ابھرا ہے کہ مروجہ دینی حلقوں میں بھی ایسے علماء تیار ہو رہے ہیں جو الحاد و تشکیک کا دوبدو مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک سیکولر اسٹیج (The Lallantop) پر روایتی وضع قطع والے عالم کا جاوید اختر جیسی بھاری بھرکم شخصیت کے سامنے نہ صرف ڈٹ جانا بلکہ فلسفیانہ معیار پر گفتگو کرنا ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔
اس کے علاوہ مینسٹریم میڈیا میں کچھ مولاناؤں کو بلا کر جس قسم کی بحث کی جاتی ہے اس سے علماء کے بارے میں ایک منفی بلکہ کسی حد تک سستے پن کا تاثر ابھرتا ہے۔ ایسے میں ایک بڑے پلیٹ فارم پر ایک مولانا کا جاوید اختر کے ساتھ مہذب علمی مناظرہ اس تاثر کا توڑ ضرور کرتا ہے۔ ورنہ برادران وطن کے سنجیدہ طبقے کے سامنے ہمارے دینی علمی حلقے کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگرچہ روایتی علمی حلقوں میں مناظرے کو پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا لیکن موجودہ دور میں ملحدین کو “فری پاس” دینا بھی مناسب حکمتِ عملی نہیں تھی۔ مفتی صاحب کی اس کاوش سے بہت سے مسلم اور غیر مسلم ذہنوں میں یہ تاثر کم ہوگا کہ مسلم علماء عقائد سے متعلق منطقی سوالات کے جواب دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ مناظرہ اس خلا کو پر کرنے میں یقیناً کامیاب رہا ہے۔ اس بات کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ مناظرہ بازی جیسے مشاغل میں بہت آسانی کے ساتھ برائیاں در آتی ہیں، لیکن اس مورچے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا بھی نقصان دہ ہے۔ مناظرے جیتنے کے بجائے ہمارے پیش نظر فی الحال یہ مطمح نظر ہونا چاہئے کہ برادرن وطن کی اکثریت کے نزدیک اسلام کے بارے میں جو علمی پس ماندگی کا تاثر موجود ہے اس کو نکال کر اسلام کی علمی ہیبت اور عبقریت کے تاثر کو بحال کیا جائے۔ اس کے لئے ملحدوں اور ہندوؤں کے ساتھ سنجیدہ پلیٹ فارموں پر حاضری درج کرانا بھی ضروری ہے۔

“وہ جو رخصت ہو کر بھی دلوں میں زندہ رہا : نوید بھائی کی ناقابلِ فراموش رفاقت”