عمر خالد کی عبوری ضمانت منظور ، بہن کی شادی میں شرکت کی اجازت

نئی دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج سمیر باجپائی نے 2020 دہلی فسادات کی مبینہ بڑی سازش سے متعلق یو اے پی اے کیس میں زیر حراست سابق جے این یو اسکالر عمر خالد کو 13 دن کی عبوری ضمانت دی ہے۔ عدالت کے مطابق وہ 16 دسمبر سے 29 دسمبر تک جیل سے باہر رہ سکیں گے تاکہ 27 دسمبر کو ہونے والی اپنی بہن کی شادی اور اس سے جڑی تقریبات میں شریک ہو سکیں​

عدالت نے یہ رعایت 20 ہزار روپے کے ذاتی مچلکے اور اسی رقم کے دو ضمانتیوں کی پیشی کے بدلے میں دی، جبکہ ضمانت کی مدت مکمل ہونے پر 29 دسمبر کی شام کو دوبارہ جیل حکام کے سامنے خودسپردگی کا حکم بھی برقرار رکھا ہے۔

عدالتی حکم کے مطابق عبوری ضمانت کے دوران عمر خالد کسی بھی گواہ یا مقدمہ سے منسلک کسی شخص سے رابطہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی صورت میں کیس پر گفتگو کریں گے۔ عدالت نے انہیں پابند کیا ہے کہ وہ اپنا موبائل نمبر تفتیشی افسر کو فراہم کریں اور یہ نمبر عبوری ضمانت کے پورے عرصے میں آن اور قابلِ رسائی رہے۔

مزید یہ کہ انہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے سے روکا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ اس دوران صرف اپنے اہل خانہ، رشتہ داروں اور قریبی دوستوں سے ہی ملاقات کر سکتے ہیں، نیز انہیں اپنے گھر یا شادی کی تقریبات کے مقام تک ہی محدود رہنا ہوگا​

اس سے قبل بھی کڑکڑڈوما کی ہی ایک عدالت نے دسمبر 2024 کے آخر میں خاندانی شادی میں شرکت کے لیے عمر خالد کو محدود مدت کے لیے عبوری ضمانت دی تھی، جس کے بعد انہوں نے عدالت کے حکم کے مطابق 3 جنوری 2025 کو خودسپردگی کر دی تھی۔ اُس موقع پر بھی انہی نوعیت کی شرائط عائد کی گئی تھیں، جن میں سوشل میڈیا سے دوری اور گواہوں سے عدم رابطہ شامل تھا۔

اسی دوران، سپریم کورٹ میں عمر خالد اور دیگر شریک ملزمان کی مستقل ضمانت سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جبکہ دہلی ہائی کورٹ نے ستمبر 2022 میں ان کی باقاعدہ ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی اور ٹرائل کورٹ کا انکار برقرار رکھا تھا۔

عمر خالد ستمبر 2020 سے حراست میں ہیں اور ان پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ یعنی یو اے پی اے سمیت دیگر سنگین دفعات کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے مطابق وہ فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد کی مبینہ “بڑی سازش” کے ملزموں میں شامل ہیں، جس میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

پولیس کا مؤقف ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجات کے دوران ان کی تقاریر اور مبینہ منصوبہ بندی نے فسادات کو ہوا دی، جبکہ انسانی حقوق گروپس اور چند بین الاقوامی ادارے یو اے پی اے کے تحت طویل حراست اور تاخیر سے ٹرائل پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔

آٹھ سال پرانے مقدمے میں اعظم خان بری

یوٹیوب ویڈیو دیکھ کرسرجری کا خطرناک تجربہ ، خاتون کی موت