دہلی فساد کا ایک سال: جیسے تیسے زندگی کو پٹری پر لانے کی جدوجہد جاری، متاثرین کو آج بھی پریشان کر رہی پولس
ایشلن میتھیو
دہلی فسادات کے دوران جلائے یا برباد کر دیئے گئے گھروں، کارخانوں، گاڑیوں اور دکانوں کے لیے بیمہ کمپنیوں نے کتنے پیسے دیئے، کل کتنے دعوے کیے گئے اور کتنے زیر غور ہیں، اس بارے میں سیدھے سیدھے کوئی جانکاری نہیں ہے۔ حالانکہ دہلی حکومت کی طرف سے کئی دعوے کیے جا رہے ہیں۔ فسادات میں جتنی گاڑیاں جلائی گئیں، ان میں بیشتر دوپہیہ تھے اور یہ مانا جا سکتا ہے کہ ان کا بیمہ تو رہا ہی ہوگا۔ لیکن بہت سی دکانیں، مکانات اور مساجد کا تو بیمہ نہیں رہا ہوگا، یہ بات یقینی ہے۔
گزشتہ سال 23 فروری کو فسادات شروع ہوئے اور اگلے سات دنوں تک شمال مشرقی دہلی نے کافی کچھ دیکھا اور برداشت کیا۔ گزشتہ سال مارچ کے پہلے ہفتہ کے پولس ریکارڈ بتاتے ہیں کہ 79 گھروں کو پوری طرح اور 168 گھروں کو کافی حد تک جلا دیا گیا۔ 500 گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا کر دیا گیا اور 327 دکانوں کو لوٹنے کے بعد تہس نہس کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ پانچ گوداموں، چار مساجد، تین کارخانوں اور دو اسکولوں کو بھی فسادیوں نے کافی نقصان پہنچایا۔ اس خوفناک منظر کے ایک سال بعد بھی فساد متاثرین اپنی زندگی کو پٹری پر لانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
فساد اور تشدد ہندوستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پھر بھی معاوضے اور باز آبادکاری کا کوئی طے عمل نہیں ہے۔ حکومت نے لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا، انھیں خیرات کے بھروسے رہنے کو مجبور کر دیا۔ یہ دہلی میں تین دہائیوں کا سب سے اندوہناک فرقہ وارانہ فساد تھا جس میں 53 لوگوں کی جان گئی اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
فساد متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف فساد کے شکار ہوئے بلکہ پولس بھی انھیں ہی پریشان کرتی رہی۔ سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کے خلاف مظاہرہ کرنے والے دانشوروں اور طلبا پر سڑک جام کرنے، اشتعال انگیز تقریر کرنے جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔ یقینی طور سے یہ ایک سال کا وقت فساد متاثرین کے لیے بڑا مشکل رہا۔ ہم نے ان میں سے کچھ سے بات کی جو ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
میں نے اپنے بھائی کا قتل ہوتے دیکھا: سلیم قیصر
سڑک کے دوسری طرف سے میں نے اپنے بھائی کو زندہ جلتے دیکھا اس کے گھر، آٹو، بھاڑے پر چلنے والی گاڑیاں اور فرنیچر بنانے والی دو چھوٹی یونٹوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ان کی بیٹی کی شادی مارچ میں ہونی تھی اور فیملی اس کی تیاری کر رہی تھی۔ لیکن فسادیوں نے ریفریجریٹر، سونے کے گہنے اور پیسے سب لوٹ لیے۔ تقریباً 75 لاکھ کا نقصان ہوا، لیکن دہلی حکومت سے 2.5 لاکھ روپے کا معاوضہ ملا۔ ہم شیو وہار میں 35 سال سے رہ رہے تھے لیکن اب مصطفیٰ آباد میں دو کمرے کے کرایہ کے مکان میں رہ ہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کیونکہ میں نے جرم کرنے والوں کی شناخت کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مقامی بی جے پی کارکن ہیں اور مجھ پر کیس واپس لینے کا دباؤ ہے۔ لیکن میں یہ کیسے کر سکتا ہوں؟ میں نے اپنے بھائی کا قتل ہوتے دیکھا اور میرے ذریعہ نامزد ایک ملزم پولس اہلکار کا بیٹا ہے۔ وہ ہمیں توڑنا چاہتے ہیں لیکن مجھے مضبوط بننا پرے گا اور اپنی فیملی کے لیے کیس لڑنا ہوگا۔
مجھے قطعی امید نہیں تھی کہ میری دکان بھی جلا دی جائے گی: گنجن سچدیو
کراول نگر میں میری دکان کو 24 فروری کو آگ لگا دی گئی۔ مجھے قطعی امید نہیں تھی کہ میری دکان پر حملہ ہوگا۔ اس علاقے میں زیادہ تر ہندوؤں کے مکانات اور دکانیں بچی رہیں۔ میرا تقریباً 18 لاکھ کا نقصان ہوا۔ حکومت نے تو نہیں، کچھ این جی او نے مدد دی ہے جس کے بعد اب دکان شروع کر پا رہا ہوں۔
بم سے ہاتھ اڑا دیا: اکرم خان
بات 24 فروری کی ہے۔ اولڈ مصطفیٰ آباد میں بھیڑ سے جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے لوگ گھیر کر پیٹ رہے تھے۔ تبھی کسی نے میرے پاس دیسی بم پھوڑ دیا۔ میں بری طرح زخمی ہو گیا۔ ہاتھوں میں کافی چوٹ آئی اور آخر کار کہنی کے نیچے سے دایاں ہاتھ کاٹنا پڑا۔ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کا کچھ حصہ دھماکہ میں اڑ گیا تھا اور انگلیاں چپک گئی تھیں۔ پیٹ سے چمڑا نکال کر کسی طرح بائیں ہتھیلی تیار کی گئی۔ روزی روٹی چلا سکوں، اس کے لیے اب مجھے نقلی ہاتھ کی ضرورت ہے۔ پہلے درزی کا کام کرتا تھا اور آگے بھی اسی کو ذریعہ معاش بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ کیسے ہوگا پتہ نہیں۔
الٹے مجھے ہی گرفتار کر لیا: ہاشم علی
میرا گھر جل گیا تھا۔ ہم نے ایف آئی آر میں جرائم پیشوں کے نام لیے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر پڑوسی تھے۔ لیکن انھیں اب تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ الٹا اپریل میں مجھے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ جرم یہ تھا کہ میں سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچوں کو لے جاتے نظر آ رہا ہوں۔ میں انھیں محفوظ جگہ پر لے جا رہا تھا۔ 4 اپریل کو مجھے جیل بھیجا گیا اور ڈیڑھ مہینے بعد ہی ضمانت پر آزاد ہو سکا۔ اپنے دو بیٹوں کو لے کر شیو وہار لوٹ آیا ہوں۔ میں نے ان لوگوں کے خلاف معاملہ درج کرایا جنھوں نے میرے گھر اور مسجد کو جلایا۔ لیکن میرے دو بیٹوں کے خلاف کاؤنٹر کیس کر دیا گیا ہے۔
پھل فروخت کر کے گزارا کرنے پر مجبور: برّا خان
کھجوری خاص میں میری کونے پر دکان تھی۔ اسی میں رہتا تھا۔ فساد کے دوران میری دکان کو آگ لگا دی گئی۔ اسے پھر سے ٹھیک کرنے میں کافی خرچ ہوتا۔ پیسے تھے نہیں، اور گزر بسر کے لیے کچھ تو کرنا تھا۔ میں نے گراؤنڈ فلور کو صاف کیا اور لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی پھل فروخت کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا؟
سوا کروڑ کا نقصان ہوا: مقیم حسین
کھجوری خاص میں میری فرنیچر کی دکان تھی۔ ہم فرنیچر بناتے تھے۔ صرف اسی میں سوا کروڑ کا نقصان ہو گیا۔ فسادیوں نے فیکٹری کے علاوہ کار کو بھی آگ لگا دی۔ دسمبر میں مجھے 5 لاکھ کے معاوضے کی پیشکش کی گئی۔ اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ملا۔ وہ دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں۔ انھوں نے مجھے کہا کہ وہ مجھے 10 ہزار دے سکتے ہیں۔ میں نے وہ رقم لینے سے انکار کر دیا۔ پھر انھوں نے مجھے کسی اور سے ملنے کو کہا۔ لیکن میں نہیں گیا۔ میں اور ذلالت نہیں برداشت کر سکتا تھا۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں