دین زندہ تو ہم زندہ

ڈربن کے راستے میں ہمارے مولانا خلیل صاحب کے پھوپھی زاد بھائی نذیر صاحب اور دیگر اعزہ کے مکانات  پڑتے ہیں، اس لیے طے شدہ پروگرام کے مطابق ایسکارٹ (Estcourt) میں نذیر بھائی کے یہاں قیام کے لیے رکے، انھوں نے عشائیے کا نظم کیا تھا، یہاں بھی ساوتھ افریقہ کی مشہور چیزیں سوسیج، برائی، اسٹیک وغیرہ سے محظوظ ہوئے، نذیر بھائی بڑے مہمان نواز ہیں، اللہ نے بہت نوازا ہے، یہیں تجارت کرتے ہیں، مولانا خلیل صاحب سے بہت تعلق رکھتے ہیں، ان کی گاڑی اور مولانا موسیٰ کی گاڑی اس پورے سفر میں ہم لوگوں کے ساتھ رہی، ان کی والدہ محترمہ بھی مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے بڑی فکرمند تھیں، دوسرے دن ناشتے سے فارغ ہوکر ہم لوگ آگے کے لیے روانہ ہوئے، چوں کہ جمعہ کا دن تھا اس لیے راستے ہی میں Mooi river کی ایک مسجد میں جو کہ دعوت وتبلیغ کا مرکز بھی ہے، ہم نے جمعہ ادا کیا، امام صاحب نے انگریزی زبان میں طویل خطبہ دیا جس میں دیینی تربیت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی، بیچ بیچ میں فارسی کے بعض مصرعے بھی ان کی زبان پر آئے جو ممکن ہے ہندستانیوں کے خطاب کے ارادے سے کہے ہوں، ورنہ سیاہ فاموں کی ایک بڑی تعداد ان کے مخاطبین میں شامل تھی۔ جنوبی افریقہ کے علمائے کرام ماشاء اللہ اچھی انگریزی بولتے ہیں اور اکثر ان کے خطابات بھی انگریزی ہی میں ہوتے ہیں، البتہ نوجوانوں اور بچوں کے رہن سہن اور طرز معاشرت پر انگریزی اثرات محسوس ہوتے ہیں، زبان بھی تقریبا بدل چکی ہے، اکثر بچے اور نوجوان گجراتی نہیں بولتے ہیں، گھر کے بڑے تو اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہیں مگر نئی نسل سے ان کی گفتگو انگریزی ہی میں ہوتی ہے، انگریزی میں مہارت تو دعوتی نقطۂ نظر سے اچھی بات ہے مگر مادری زبان سے عدم واقفیت شاید نئی نسل کو اپنی روایات اور قدروں سے دور کردے، اس بات کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔

ہاں ایک بات یقینا اہل گجرات کو ممتاز کرتی ہے اور نئی نسل کے لیے ان کی فکرمندی کی گواہی دیتی ہے۔ اللہ انھیں شاداب اور آباد رکھے۔ ان حضرات نے تجارت کے لیے جب جب اور جہاں جہاں کا رخ کیا ہے مساجد اور مکاتب کی بنیاد ضرور رکھی ہے، ہندستانی علماء کو وہاں بلایا اور دین کے فروغ کی کوشش ہمیشہ کی ہے، جس کی وجہ سے آج تک دین سے ان کا رشتہ قائم ہے، اللہ اس میں اور ترقی عطا فرمائے اور ان کی نسلوں کو دین پر باقی رکھے، اس کے برعکس بعض دیگر لوگوں نے دین کے فروغ کے لیے مساجد اور مکاتب پر توجہ دینے کے بجائے صرف مادیت کی طرف توجہ کی تو آگے چل کر ان کی دینی شناخت ہی خطرے میں پڑگئی اور وہ ارتداد کے دہانے پر پہنچ گئے بلکہ بہت سے تو اس کا شکار بھی ہوگئے، سیریا کے حضرات یورپ کے مختلف ممالک پہنچے مگر انھوں نے کلب قائم کیے جس کا نتیجہ آج کھلی آنکھوں ظاہر ہے۔ مولانا موسیٰ نے جرمنی کے حوالے سے بتایا کہ وہاں ان کے متعلقین میں سے کوئی پہنچا تو اس کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جس نے بتایا کہ آپ لوگ جس مذہب پر عمل کررہے ہیں کسی زمانے میں ہمارا خاندان بھی ان روایات کا حامل تھا، ہمارے دادا مسلمان تھے، مگر آج ہمارا مذہب تبدیل ہوچکا ہے۔ فیا للأسف۔ اور یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے دسیوں واقعات دعوت کا کام کرنے والوں کے سامنے روز آتے رہتے ہیں۔

سفرنامہ جنوبی افریقہ 9

(سخنؔ حجازی۔ Mooi river سے ڈربن جاتے ہوئے۔ جنوبی افریقہ۔ گیارہ اکتوبر 2024)