یہ صد فیصد درست ہے کہ بیماری اور شفا دونوں اللہ کی جانب سے ہے اور اللہ پر توکل کرنا بھی ضروری ہے لیکن بغیر اسباب کے نہیں،، مطلب اپنے ذریعے جو کچھ بھی احتیاطی تدابیر ہوسکتی ہے پہلے وہ کرنا ہے اس کے بعد اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اپنے ذریعے کئے گئے احتیاطی تدابیر کے کارآمد ہونے کی دعا کرنا چاہیے- 2020 میں پوری دنیا کرونا وائرس نامی بیماری کی زد میں تھی اور ہندوستان بھی اس کی زد میں آیا اس وائرس سے بچنے کیلئے حکومت نے احتیاطی اقدامات اٹھاتے ہوئے ملک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تھا جس پر عمل کرنے کے لئے حکومت و انتظامیہ کی جانب سے اپیل بھی کیا جا تاتھا اور عوام نے بھی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کیا اس لئے کہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی نہ تو کوئی مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ دنیا کا قانون اجازت دیتا ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ضرور کرنا پڑا لیکن انفرادی پریشانی سے اجتماعی راحت بہت بڑی چیز ہے اس سے سماج پوری طرح صاف شفاف ہوتا ہے، صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے ساتھ ہی ہمیں بیجا تنقید کا کسی کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ تنقید برائے تنقید سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے، نفرت کا بازار گرم ہوتا ہے، بغض و حسد کا دھواں اٹھتا ہے اور یہ کبھی کبھی وبال جان ثابت ہوتا ہے،، دیکھ پتھر سے نہ دینا کبھی پتھر کا جواب،، ورنہ ٹکراؤ سے ہوگا شعلہ پیدا،، اس لئے ہمیشہ اپنی سوچ کا دائرہ وسیع رکھنا چاہیے تنقید برائے تعمیرو تنقید برائے اصلاح کا اظہار کرنا چاہیے اور آج پھر اسی کی ضرورت ہے تاکہ اس بیماری کے بحران سے نجات حاصل ہوسکے۔ آج ہمارا ملک انتہائی دشوار کن حالات سے گزر رہا ہے لیکن ملک کی میڈیا کو شائد اس بات کا احساس نہیں ہے تبھی تو اپنے وقار کو پیروں تلے روند رہی ہے اور اپنے قلم کو فرقہ پرستی، تعصب وتنگ نظری کے لباس میں ملبوس کررہی ہے اور نتیجے میں عوامی مقبولیت سے محروم ہوتی جا رہی ہے جو پوری طرح قابل مذمت ہے ساتھ ساتھ کچھ جاہل قسم کے لوگ ہیں جو حکومت و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرے کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں جو بغیر کسی معلومات کے مذہبی بنیادوں پر شدت دیکھاتے ہیں اور ہر مذہب میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں انہیں پہلے اچھی طرح مذہبی معلومات حاصل کرنا چاہیئے- 2020 کا سال اختتام پذیر ہوا اور سال نو کا آغاز ہوا لیکن کیا ہم نے اپنا محاسبہ کیا کہ
انسان ہونے کے ناطے، اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اور مسلمان ہونے کے ناطے آخر ہم سے کیا بھول ہوئی ہے کہ ہم اللہ کے اس عذاب کے چپیٹ میں ہیں یاد رکھئیے صرف مذہبی چشمے سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ہر حال میں احتیاط ضروری ہے خود نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تمہاری بستی میں کوئی وبا پھیل جائے تو اپنی بستی چھوڑ کر نہ بھاگو اور دوسری کسی بستی میں وبا پھیلے تو تم اس بستی میں جانے سے پرہیز کرو صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مستند تاریخوں میں ملتا ہے کہ سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ایسی بستی سے گذر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رفتار تیز کرو اس علاقے سے جلدی نکلو یہ وہ علاقہ ہے جہاں قوم ثمود و قوم عاد پر عذاب نازل ہوا تھا کچھ صحابہ کرام نے کنواں دیکھ کر قیام بھی کرلیا تھا اور کنوے سے پانی نکال کر آٹا بھی گوندھ لیا تھا تو نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کنوؤں کا پانی نہ پینا اس پانی سے گوندھا ہوا آٹا بھی نہ کھانا اپنے آدھے چہرے کو کپڑے سے باندھا اور جلدی چلنے کا حکم دیا اسی بنیاد پر بڑے بڑے علماء کرام کہتے ہیں کہ آفت بلا، وبا سے بچنے کیلئے احتیاطی اقدامات کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اسباب پر نظر بھی رکھنا ہے جتنی تدبیریں ہوسکے خود کرنا ہے اور یہ سب کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرنا ہے بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک لومڑی کنوے کے پاس پہنچی تو کنوے کا پانی اوپر آگیا یہ منظر دیکھ کر ایک متقی صوم و صلاۃ کا پابند شخص پیاس کی حالت میں اسی کنوے پر پہنچتا ہے تو پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے وہ اللہ کا بندہ کہتا ہے کہ اے اللہ کیا میں اس لومڑی سے بھی کمتر ہوں کہ پانی مجھے دیکھتے ہی نیچے چلا گیا تو ارشاد ربانی ہوا کہ نہیں بلکہ تجھے ہم نے انسان بنایا ، اشرف المخلوقات بنایا، ہاتھ پاؤں دیا، دل اور دماغ دیا، عقل اور شعور دیا تو ان سب کا استعمال کر اور اپنی پیاس بجھا لومڑی عقل و شعور سے محروم ہے اس لیے اس کے لیے میرا حکم تھا کہ پانی تو اوپر اجا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایک انسان کے لیے احتیاط، اسباب، توکل سب کا استعمال کرنا ضروری ہے صرف کسی ایک چیز کا نہیں ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے انسان کے کام آئے خدمت خلق کا مقام بہت بلند ہے اور یہ بھی ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، روٹی، کپڑا اور مکان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بجلی پانی سڑک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، دوا اور علاج کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، امیری و غریبی کا مذہب نہیں ہوتا، خوشی اور غمی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، حادثات کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا اسی وجہ سے زندگی میں کچھ ایسے ایام اور لمحات بھی آتے ہیں کہ اس موقع پر مذہب نہیں پوچھا جاتا کچھ ایسے مواقع بھی پیش آتے ہیں کہ اس موقع پر انسانیت کی سرحد نہیں ہوتیں ایک انسان کے سامنے دوسرا انسان بھوکا رہے اور وہ بھرپیٹ کھانا کھائے تو وہ بے غیرت ہے اس پر لعنت ہے رسول اللہ نے اپنے مال غنیمت کا حصہ یتیموں کو دیکر خالی ہاتھ گھر پہنچے مگر یہ نہیں پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے، عمر فاروق نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں سے تربوز چھین کر ایک بھوکے غریب بچے کو دیدیا لیکن یہ نہیں پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے فرمان رسول ہے کہ تم بھر پیٹ کھاکر سوجاؤ اور تمہارا پڑوسی بھوکا سوئے تو تم مومن نہیں یہاں بھی مذہب کی شرط نہیں لگایا تو اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ نہ بھوک کا کوئی مذہب ہے اور نہ بیماری کا کوئی مذہب ہے جب چیچک کی وبا پھیلی ہوئی تھی تو اس کی روک تھام کے ٹیکہ لگایا جاتا تھا تب بھی افواہوں کا بازار گرم تھا، جب پولیو ڈراپ پلانے آغاز ہوا تب بھی افواہوں کا بازار گرم تھا بالآخر علماء کرام اور آئمہ مساجد بھی پولیو ڈراپ پلانے کے لیے کھل کر عوام سے اپیل کرنے کے لیے اور اس مہم کی کامیابی کے لیے میدان میں آئے اور قابل تعریف تعاؤن کیا 2020 گذرنے کے بعد 2021 میں کرونا ویکسین کے ایجاد کی خبریں موصول ہورہی ہیں تو ویکسین سے متعلق حرام و حلال کی بحث چھڑ گئی،، آخر وہ کونسی طاقت ہے اور کون سا طبقہ ہے جو غلط افواہیں پھیلا تا ہے اور اتنا شاطر ہے کہ نشانہ سیدھے مسلمانوں پر لگاتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو علماء کرام بدنام ہوتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کا بڑا طبقہ اس غلط افواہوں پر یقین کر بیٹھتا ہے اور جو بعد میں خود نقصان اٹھاتا ہے غلط افواہیں پھیلانے والے کا شائد مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے سے مسلمان محروم رہیں،، اس لئے کسی بھی غلط افواہوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے اور واضح طور پر یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ دوا، مرض، علاج، ٹیبلٹ، سیرپ، کیپسول، انجیکشن، ٹانک کا کوئی مذہب نہیں ہے،، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ سینوں میں ملک و ملت کا سچا درد پیدا کریں تبھی ہم صاف شفاف معاشرہ تشکیل دے سکیں گے ۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں