دریاؤں کی روانی :زندگی کی فراوانی

خود انسانی جسم میں 60%پانی ہے ،جبکہ انسانی دماغ کو اﷲ تعالی نے اس طرح تخلیق کیاہے کہ اس کا 70%حصہ پانی پرمشتمل ہے اور انسانی جسم میں ایک اندازے کے مطابق کم از کم بھی دو لیٹرپانی روزانہ کی بنیادپر زندگی برقراررکھنے کے لیے بہرحال چاہیے ہوتاہے۔اگراس کم سے کم مقدار کاپانی انسانی جسم کو میسر نہ آئے تو نقاہت،کمزوری اور لاچارگی انسان کو وجودسے عدم کی طرف لے جاسکتی ہے۔حضرت انسان کے علاوہ اس کرہ ارض کی کل مخلوقات چرند،پرند،حشرات الارض اورپانی کے جانوروں سمیت نباتات تک کو پانی کی فراہمی ان کی اس عارضی حیات کے ساتھ مشروط ہے۔اس بارے میں اﷲ تعالی نے فرمایا ’’ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہُ ثُمَّ یَجْعَلُہ‘ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْہَا مِنْ بَرَدٍ فَیُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَصْرِفُہ‘ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُ یَکَادُ سَنَا بَرْقِہٖ یَذْہَبُ بِالْاَبْصَارِ(۲۴:۴۳) یُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّیْلَ وَ النَّہَارَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُوْلِی الْاَبْصَارِ(۲۴:۴۴) وَ اللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَّآءٍ فَمِنْہُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِہٖ وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اَرْبَعٍ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ(۲۴:۴۵) ‘‘ترجمہ:’’کیاتم دیکھتے نہیں ہو اﷲ تعالی بادل کوآہستہ آہستہ چلاتاہے پھراس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتاہے،پھراسے سمیٹ کرایک کثیف ابربنادیتاہے پھرتم دیکھتے ہوکہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جواس میں بلندہیں اولے برساتاہے پھرجسے چاہتاہے ان کانقصان پہنچاتاہے اورجسے چاہتاہے ان سے بچالیتاہے ۔اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے ،رات اور دن کا الٹ پھیروہی کرتاہے اس میں سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے اور اﷲ تعالی نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیداکیاہے کوئی پیٹ کے بل چل رہاہے توکوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چارٹانگوں پر جوکچھ وہ چاہتاہے پیداکرتاہے وہ ہر چیزپر قادرہے‘‘۔پس پانی کی تاثیر حیات خود قدرت خداوندی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
اﷲتعالی نے پانی پیداہی نہیں کیابلکہ اسے آسمان سے برسایااور پھراسے زمین کے خطوں تک پہچانے کاایک وسیع و عریض انتظامی جال پھیلادیاجوانسانی وسائل سے ممکن ہی نہیں تھا۔اول توانسان اپنے کل وسائل کو ہی جمع کرلے توایک میل لمبااورایک میل چوڑا بادل نہیں بنا سکتا،پھرسمندروں سے گھٹائیں اٹھاکرلاناانہیں برسانااورایک ایک قطرے کوجمع کرتے کرتے نالوں کی شکل میں اور پھرنالوں کو دریاؤں کی صورت دے دینااورانہیں ایک خاص سمت میں اپنے حکم سے چلانا تاکہ وہ نسلوں اور فصلوں کو سیراب کرتے ہوئے اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیں ،یہ انسان پر اﷲ تعالی کے بے شمارانعامات میں سے ایک خاص الخاص انعام ہے۔’’ وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ہٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآءِغٌ شَرَابُہ‘ وہٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ مِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَہَاَ و تَرَی الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن‘‘َ(۳۵:۱۲)ترجمہ:’’اورپانی کے یہ دونوں ذخیرے یکساں نہیں ہیں ،ایک میٹھااورپیاس بجھانے والا ہے پینے میں خوشگواراوردوسراسخت کھاری ہے کہ حلق کو چھیل دے،مگردونوں سے تم تروتازہ گوشت حاصل کرتے ہو ،پہننے کے لیے زینت کاسامان نکالتے ہو اور اسی پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی چلی جا رہی ہیں تاکہ تم اﷲ تعالی کافضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو‘‘۔’’ اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَہَآ اَنْہٰرًا وَّ جَعَلَ لَہَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْن‘‘َ(۲۷:۶۱) ترجمہ:اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قراربنایا اور اس کے اندر دریارواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی)میخیں گاڑدیں اورپانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے ،کیااﷲ تعالی کے ساتھ اورخدا بھی کوئی شریک ہے (ان کاموں میں )،نہیں،بلکہ اکثرلوگ نادان ہیں‘‘۔
ایک اندازے کے مطابق دنیابھرکی تجارت کا 90%بحری راستوں سے ہوتاہے،ہوائی راستے بہت مہنگے پڑتے ہیں جبکہ خشکی کے راستے بعض اوقات طویل اور بعض اوقات بہت زیادہ دشوارگزارہوتے ہیں اور اسی نسبت سے ان پر اخراجات بھی زیادہ اٹھتے ہیں جبکہ نسبتاََکم وزن کاسامان منتقل ہوتاہے اور حادثات ان سب کے سوا ہیں۔ان حالات میں دریائی و سمندری راستے اور دیگرآبی گزرگاہیں جنہیں انسان اپنے تجارتی و سفری وتفریحی مقاصدکے لیے استعمال کرتاہے ،اﷲتعالی کے کتنے بڑے احسانات ہیں جن کے بارے میں خود اﷲ تعالی نے فرمایا ’’ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ وَ الْفُلْکَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ وَ یُمْسِکُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُفٌ رَّحِیْمٌ(۲۲:۶۵) ‘‘ترجمہ:’’کیاتم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخرکررکھاہے جوزمین میں ہے اور اسی نے کشتی کو قائدے کاپابندبنایاہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گرسکتا،حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالی لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے‘‘۔’’ وَ مِنْ اٰیٰتِہِ الْجَوَارِ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلَامِ(۴۲:۳۲) اِنْ یَّشَاْ یُسْکِنِ الرِّیْحَ فَیَظْلَلْنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَہْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لٰاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ(۴۲:۳۳) اَوْ یُوْبِقْہُنَّ بِمَا کَسَبُوْا وَ یَعْفُ عَنْ کَثِیْرٍ(۴۲:۳۴) وَّ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ ٓ اٰیٰتِنَا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ(۴۲:۳۵)‘‘ترجمہ:اس (اﷲ تعالی )کی نشانیوں میں سے ہیں یہ جہازجوسمندرمیں پہاڑوں کی طرح نظر آتے ہیں،اﷲتعالی جب چاہے ہواکوساکن کردے اور یہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں ۔۔۔اس میں بڑی نشانیاں ہراس شخص کے لیے جوکمال درجہ صبراور شکرکرنے والا ہو۔۔یا(ان پرسوارہونے والوں کے)بہت سے گناہوں سے درگزرکرتے ہوئے ان کے چندکرتوتوں کی پاداش میں انہیں ڈبودے اور اس وقت ہماری آیات میں جھگڑے کرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے‘‘۔اﷲ تعالی نے اپنی بے شمار نعمتوں کاذکر کرتے ہوئے بھی دریاؤں کا ذکرکیاہے کہ ’’ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ(۵۵:۱۹) بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ(۵۵:۲۰) فَبِاَیِّ الٰاَآِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۲۱) یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانِ(۵۵:۲۲) فَبِاَیِّ الٰاَآِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۲۳) وَ لَہ‘ الْجَوَارُ الْمُنْشَءٰتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلَامِ(۵۵:۲۴) فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ(۵۵:۲۵) کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ(۵۵:۲۶) وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِ(۵۵:۲۷)‘‘ترجمہ:’’دو سمندروں کو اس(اﷲتعالی)نے چھوڑ دیاکہ باہم مل جائیں،پھربھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوزنہیں کرتے پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کرشموں کو جھٹلاؤ گے ۔۔ان سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں پس اے جن و انس تم اپنے رب کی قدرت کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے اور یہ جہاز اسی (اﷲتعالی)کے ہیں جوسمندرمیں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں پس اے جن و انس تم اپنے رب کے کن کن احسانات کو جھٹلاؤ گے ۔ہرچیزجواس زمین پر ہے فناہو جانے والی ہے اور صرف(اے نبیﷺ)آپ کے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے‘‘۔یہاں تک کہ:’’ وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہ‘ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّاَ نفِدَتْ کَلِمٰتِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ(۳۱:۲۷)‘‘ترجمہ:’’زمین میں جتنے درخت ہیں اگروہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندرجیسے سات مزید سمندر روشنائی فراہم کریں تب بھی اﷲ تعالی کی باتیں (لکھنے سے)ختم نہیں ہوں گی۔‘‘
دریاؤں کے ذکر کے ساتھ کتنے ہی انبیاء علیھم السلام کے حالات وابسطہ ہیں۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر یہی پانی جوزندگی کی علامت ہے نبی کی نافرمانی کے نتیجے میں عذاب بن کر ٹوٹ پڑا تھا،حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون نے کہاتھا ملک میں یہ سب نہریں میرے ہی حکم سے بہہ رہی ہیں لیکن اﷲ تعالی کواس کا تکبر پسندنہ آیااور اپنے حکم سے نہریں چلانے والا نام نہاد جھوٹا خدا اسی پانی میں ڈوب مرااور نبی اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے اس پانی سے بچالیے گئے۔حضرت یونس علیہ السلام دریامیں ہی مچھلی کے مہمان بنے تاہم اﷲ کے حکم سے بچالیے گئے ۔بنی اسرائیل کی تاریخ میں طالوت نامی بادشاہ نے ایک دریاپر اپنی فوج کا امتحان لیا۔محسن انسانیت ﷺکی زندگی میں اگرچہ کسی دریاکا ذکرنہیں ملتالیکن اہل بیت مطہرین کی تاریخ کا عزم و ہمت اور صبرواستقامت سے بھرا باب کربلا ایک دریا کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے اور یہاں تک کہ جنت میں نعمتوں کی وسعت و کثرت کو دریاؤں کے استعارے میں بیان کیا گیاہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی اور باغات کے نیچے دریا بہہ رہے ہوں گے۔
دریاؤں سمیت کل مظاہرقدرت اﷲتعالی کی توحید کی نشانیاں ہیں اوردریا انسان کے لیے اﷲتعالی کی قابل قدر نعمتوں میں سے ہیں۔انسان اگرعقل سے کام لے تو ان دریاؤں کی پشت پر کارفرماقوت کو پہچانے اور اپنی عاقبت کی فکرکرے۔اﷲتعالی کواپنے کاموں میں مداخلت بالکل بھی برداشت نہیں ہے، دریاؤں کادن منالینے سے انسان کتنے نئے دریابنالے گایابہتے دریاؤں کے پانیوں میں کتنااضافہ کر لے گابلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ’’ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(۳۰:۴۱)‘‘ترجمہ:’’خشکی میں اور دریاؤں میں فساد برپاہوگیاہے لوگوں کی اپنے ہاتھ کی کمائی سے تاکہ(اﷲتعالی) مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آجائیں‘‘۔پس انسان کی بے اعتدالیاں اور اپنے خالق سے بغاوتیں ہی خشکی سمیت پانیوں میں بھی غضب خداوندی کا سبب بنتی ہیں،چنانچہ لازم ہے کہ دریاہوں یا اوزون کی سطح ہویا فضاکی آلودی ہویا کسی بھی طرح کی فطری ساخت میں ٹیڑھ کا نتیجہ جب بھی نکلے گااس کی وجہ انسان کا اﷲتعالی کے قوانین سے روگردانی اور انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے انحراف ہی ہو گا۔ انسانیت کی فکرکرنے والے اورانسانی حقوق کا راگ الاپنے والے اپنے سیکولرخیالات اورخلاف فطرت اقدامات کے نتیجے میں دریاؤں کاحسن اورآبیات کی رونق سے آنے والوں نسلوں کو محروم کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔انسانیت کی گردن پر ایٹمی اسلحہ اورسود کی لعنت مسلط کرکے رگوں سے خون نچوڑکردریاؤں کادن منالینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس کرہ ارض پر تبدیلی صرف خاتم النبیین ﷺ کی تعلیمات سے ہی آئے گی اور آنے والی ہے،انشاء اﷲ تعالی۔

«
»

تاریخ میں رنگ آمیزی کے مضمراثرات

پیشگی تنخواہ…ایک افسانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے