جنوبی افریقہ میں ہمارے اکابر بالخصوص چار بزرگوں کا فیض ہمیں خاص طور پر نظر آتا ہے: حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی۔ مفتی محمود گنگوہی، مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادی اور حکیم اختر صاحب رحمہم اللہ۔ یہاں ان حضرات کے نام سے ادارے بھی ہیں دانش گاہیں بھی، مراکز بھی ہیں خانقاہیں بھی، عالی شان مسجدیں بھی ہیں اور بڑے بڑے مدارس بھی، جن میں سے کچھ کی زیارت ان شاء اللہ ہم کریں گے اور تذکرہ بھی۔
عصر کی نماز کا وقت نکلا جارہا تھا اس لیے مولانا موسیٰ صاحب کی کسی صاحب زادی کا مکان قریب تھا اس لیے وہاں پہنچ کر نماز سے فارغ ہوئے۔ ہمیں تقریبا گھنٹے دو گھنٹے کی مسافت طے کرکے کسی فارم ہاؤس میں قیام کرنا تھا، ہم سے قبل وہاں زنجبار کے مہمان پہنچ چکے تھے، جو ہمارے اگلے سفر کے رفیق بھی تھے، جن کا زنجبار میں دینی مکاتب کی فکروں میں مولانا خلیل صاحب کو تعاون بھی حاصل ہے، گزشتہ سفر زنجبار میں ہمارا جن کے ہوٹل میں قیام بھی رہا تھا، عمانی نژاد شیخ احمد گُمزہ، ان کے صاحب زادے شیخ سالوم اور ان کے بھائی شیخ خمیس راشد۔ یہ حضرات آج صبح ہی جوہانسبرگ پہنچے تھے، ان حضرات کی آمد کا مقصد یہاں کی دینی کوششوں کا مشاہدہ بھی کرنا تھا اور تجارت کے حوالے سے یہاں کے افراد سے ملاقات کرکے ان کو اپنے یہاں زنجبار میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا بھی تھا۔
مغرب وعشاء کی نماز ہم نے راستے ہی کی کسی عالی شان مسجد میں پڑھی اور چلتے بنے۔ erasmia کے قریب کسی فارم ہاؤس میں پہنچنا تھا، جہاں ایک مشہور تاجر جناب ہارون ڈوکرات اور ان کے صاحب زادے محمد ڈوکرات ہمارے منتظر تھے، یہ حضرات یہاں کے مشہور تجار میں ہیں، بیکری اور کئی دوکانوں کے مالک ہیں، ہارون صاحب کا مفتی محمود گنگوہی صاحب رحمہ اللہ سے تعلق تھا، سعودیہ کا ویزہ بھی ہے، اکثر مدینہ منورہ میں قیام رہتا ہے، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ کا ذکر خیر ہوا اور ڈاکٹر عبد الحمید اطہر صاحب کے حوالے سے جب انھیں معلوم ہوا کہ حضرت مولانا کے آخری شاگردوں میں ہیں تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ حرم شریف میں حضرت کی غائبانہ نماز جنازہ میں وہ شریک تھے، تراویح کے دوران میں اعلان کیا گیا تھا اور نماز پڑھی گئی تھی۔
پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا، ہند نژاد جنوبی افریقہ میں مقیم احباب کے یہاں کھانے پینے کا بھی ایک مخصوص نظام ہے، جس میں مخصوص انداز میں گوشت کے ٹکڑے چوپس (chops), برائی (braai)، اسٹیک (staik), مختلف مسالوں سے تیار کردہ سوسیج (sausages), مختلف ڈیزرٹس، بسکٹ۔ وغیرہ دسترخوان پر توجہ کا مرکز اور لذتِ کام ودہن کا باعث ہوا کرتے ہیں۔
ہمارا قیام اسی سے متصل ایک اور مکان پر تھا جس کے مالک جناب شبیر دیسائی (ہارون صاحب کے ہم زلف) ہیں، مکان کیا ہے، انتہائی اطمینان وسکون کا مرکز، چھپر اور کھپریل سے بنا ہوا، لکڑیوں پر ایستادہ۔ دنیا کی محفلوں سے دور، شہر کے ہنگاموں سے نفور، ایک پرسکون مقام، باعثِ تسکیں، سحر آفریں، جمالِ فطرت کی رنگارنگی سے محظوظ ہونے کا سامان، زمیں کی آغوش میں سویا ہوا سبزہ۔ پھولوں کی ٹہنیاں جھک جھک کر سلام کیے جارہی ہوں، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کوئلوں کی کوک کے درمیان فرحت بخش آب وہوا کا لطف۔ ایسے میں ہنگام ہائے روزگار کے بیچ رہنے والے اور ہر وقت مصروف رہنے والے انسانوں کو چین کی نیند کیسے نہ آئے۔ کئی دن کے تھکے ہوئے بھی تھے، ساٹھ گھنٹوں میں بہ مشکل تین چار گھنٹوں کی نیند میسر ہوئی تھی اس لیے فوراً سو گئے اور ایسے سوئے کہ مدتوں بعد ایسی نیند آئی۔ معلوم ہوا کہ اس خوب صورت جائے وقوع کے علاوہ ان انفاس بابرکات کا بھی یہ اثر ہے جو کبھی اللہ والوں نے یہاں چھوڑے ہیں۔ حضرت مفتی محمود صاحب سے ہمارے میزبان شبیر صاحب اور ان کے گھر والوں کا بڑا تعلق تھا اور وہ نیز کئی ایک بزرگان دین یہاں تشریف لاچکے ہیں۔
(سخنؔ حجازی۔ ایراسمیہ۔ نزد جوہانسبرگ۔ جنوبی افریقہ۔ سات اکتوبر 2024)۔