گائے کا گوشت کھانے اورگھرمیں رکھنے کی افواہ کے بعد پیش آنے والا دادری کا واقعہ بھی مذہبی اقلیتوں کیخلاف نفرت کی سیاست کا کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہے،اس سال بقرعید کے موقع پر بہار، جھارکھنڈسمیت یوپی اور ملک کے دیگر خطوں میں بھی ذبیحۂ گاؤکی افواہوں پر ہنگامے اور فسادات ہوئے ہیں۔البتہ دادری کے واقعے میں جس بے دردی اور بہیمیت کے ساتھ ایک شخص کوپہلے اینٹوں،پتھروں سے مارتے ہوئے گھرسے باہرگھسیٹاگیااورپھرنہ صرف جنونی ہندوؤں کے ہجوم نے اس معصوم کی جان لے لی بلکہ اس کے بیٹے کوبھی مارمارکرنازک حالت میں پہنچادیا،یہ اپنے آپ میں نہایت ہی افسوس ناک اوردردناک واقعہ ہے۔اس قدربے رحمی و حیوانیت کے ساتھ انجام دیاجانے والا یہ حادثہ ہر ہندوستانی کے لیے بہت ہی تکلیف دہ ہے۔جبکہ دوسری طرف بی جے پی حکو مت اسے ایک عام حادثے کے طورپردیکھ رہی ہے ، مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرما کے مطابق محمد اخلاق کا قتل محض ایک حادثہ ہے،انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس نے جن نوجوانوں کو محمد اخلاق، ان کے بیٹے اور گھر والوں پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا ہے انھیں بھی انصاف دلایا جائیگا،اس سانحے کے بعد دیگرسیاسی و مذہبی رہنماؤں کے دوروں کے بیچ اتوارکوبی جے پی ایم ایل اے اور مظفر نگر فسادکے کلیدی مجرم سنگیت سوم نے بھی اس گاؤں کا دورہ کیاہے اور وہاں جاکر ماحول کومزید زہر ناک بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے اوریوپی حکومت کے بہانے مسلمانوں کونشانہ بنایاہے،ان سے پہلے سادھوی پراچی نے بھی انتہائی بیہودہ بیان دیاجس میں انھوں نے کہاتھاکہ گائے کھاؤگے،تومارے جاؤگے۔دوسری طرف یوپی حکومت ہے جس نے متاثرہ خاندان کو لکھنؤبلایا،اسے تسلی دینے کی کوشش کی اوراسے دیے جانے والے معاوضے میں بھی اضافہ کردیا،مگرحیرت ہے کہ یوپی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادویہ تو بولتے رہے کہ جب سے یوپی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت آئی ہے،تب سے دوسری پارٹیاں ان کی حکومت کے خلاف سازش میں مصروف ہیں اوریہ بھی کہاکہ وزیر اعظم پہلے گوشت کی برآمدات پر روک لگائیں،مگر انھوں نے یہ نہیں کہاکہ دادری سانحے میں جولوگ حملہ آورہجوم کا حصہ تھے اور انھوں نے مل کر اخلاق اور ان کے گھروالوں پر ہلہ بولاتھا،ان کے خلاف کارروائی کریں گے اور خاطیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے۔یوپی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تہہ و بالاہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ حکومت کسی پر تشددواقعے میں مرنے والے انسان کے گھروالوں کوسرکاری خزانے سے معاوضے کی ایک متعینہ رقم دے کردامن چھڑالیتی ہے،جبکہ جو مجرم ہوتے ہیں،وہ حسبِ سابق کھلے عام گھومتے اوراپنے نئے شکاروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔دادری واقعے کے کئی پہلوہیں اور ان کی منصفانہ تفتیش کرکے ملزمین کوقرارِواقعی سزاہونی چاہیے،وہ بوڑھاپجاری جس نے مندرکے لاؤڈاسپیکرسے افواہ پھیلائی اور جس کے بعد ہی بھیڑاکٹھاہوکرمحمد اخلاق کے گھرپرپتھراؤکرنے لگی تھی،اس کے بارے میں خبریں ہیں کہ وہ دادری میں دوتین ماہ پہلے ہی آیاہے اوریہ شخص مظفر نگرفسادات میں بھی اہم رول ادا کرچکا ہے،مگرپولیس نے اس کومعمولی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑدیا،صورتِ حال تو اس قدرنازک ہے کہ خوداس علاقے کے ایس ڈی ایم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر بی جے پی حکومت کے خلاف کچھ بولوگے،توانجام اچھانہیں ہوگا،گویاسرِ عام دھمکی!جبکہ یہ رازبھی فاش ہوہی چکاہے کہ اس حادثے میں مقامی بی جے پی لیڈرکے بیٹے کا ہاتھ ہے۔
ادھرملک کے وزیر اعظم نریندرمودی،جومعمولی معمولی باتوں پر ٹوئٹ کرتے اور میڈیامیں بنے رہنا چاہتے ہیں،انھوں نے اس اندوہ ناک واقعے پر اب تک ایک لفظ بھی کہنا گوارہ نہیں کیاہے، ٹی وی چینلوں پر بحث و مباحثے میں بی جے پی کے ترجمان دادری کے پرہجوم تشددکی مشروط مذمت کرتے ہیں،پارٹی کے ایک رہنما نے انگریزی کے ایک بڑے اخبار میں اپنے کالم میں لکھا ہے کہ محض افواہ کی بنیادپرکسی ہجوم کا کسی پر حملہ آورہوجانا اور اسے مارڈالنا صحیح نہیں ہے، یعنی ان کے مطابق اگر افواہ صحیح ہوتی تو ہجوم کے پاس کسی کا قتل کرنے کا جوازتھا،انھوں نے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ اعتدال پسند مسلمانوں نے ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کبھی نہیںآواز اٹھائی، ثقافت کے وزیر مہیش شرما پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ بھارت کے مسلمان ملک سے محبت نہیں کرتے، صرف ہندو ہی محب وطن ہیں۔الغرض نفرت اور تشددپھیلانے والے عناصرکوباقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی جارہی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرکے ملک کے امن و سلامتی،مذہبی رواداری،تہذیبی تنوع کو پارہ پارہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
یہ صورتِ حال نہایت ہی سنگین ہے،نفرت و تعصب اور تشددوانتہاپسندی کا یہ رجحان اگر یوں ہی پنپتا رہا اوراس پر قابوپانے کی کوشش نہ کی گئی اور ہمارے وزیر اعظم بیرونی دوروں میں مصروف اندورنِ ملک کے احوال سے غافل و بے نیاز رہے اور بے لگام و بدزبان لیڈروں کوچھوٹ دیے رکھی،تواس سب کا نقصان صرف مسلمانوں کوہی نہیں جھیلنا پڑے گا؛بلکہ مجموعی طورپرپورے ملک کی جڑیں کمزور ہوں گی،اس کی ترقی و خوشحالی کی رفتارپر روک لگے گی اور عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ داغ دارہوکر رہ جائے گی۔یوں بھی مودی حکومت میں ایک کے بعد ایک لگاتارایسے واقعات رونما ہورہے ہیں،جن کی گونج ہندوستان ہی نہیں عالمگیر سطح پر سنی جارہی ہے اور عالمی لیڈران بھی مودی حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔
ملک کے موجودہ زہریلے ماحول میں مسلمانوں سے بھی یہ گذارش ہے کہ بہت ہی سوجھ بوجھ،حکمتِ عملی اور دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اپنے اندراتحاد کی قوت ضرورپیدا کریں ،ہمارے انتشاراور آپسی بغض و عداوت کی وجہ سے بھی نفرت پھیلانے والے عناصر کا حوصلہ بڑھتاہے اور وہ ہمارے خلاف ماحول سازی کرتے ہیں،دادری،کانپوریا دیگر مقامات ہونے والے حادثات ایسے نہیں ہیں کہ ان پرسیاست کی جائے،یہ واقعات پورے ملک کواور بالخصوص مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہورہاہے؟قومی سیاست میں الٹ پھیر ہوتا رہتاہے،حکومتیں بدلتی رہتی ہیں،مگر سیاست کے بدلاؤ کے ساتھ عام لوگوں کی ذہنیتوں کا بدل جانایہ بہت ہی تشویش ناک امر ہے،بی جے پی ہمیشہ سے بانٹنے کی سیاست کرتی رہی ہے اور آرایس ایس کی آئیڈیالوجی کی تشہیر اور نشرواشاعت ہی اس پارٹی کا بنیادی مقصدہے،ان کا نصب العین یہ ہے کہ ہندوستان کی رنگارنگ تہذیب کو غارت کردیاجائے اور پورے ملک میں ہندوتوکوغالب کرکے اس ملک کو ہندوراشٹرمیں تبدیل کردیاجائے،حالاں کہ خود اس ملک کی غیر مسلم اکثریت بھی نفرت انگیزمذہبی تعصب کوقبول کرنے کوتیار نہیں ہے،آج کی دنیامیں سب پرامن طورپرجینا چاہتے ہیں ۔لہذاجہاں عام ہندوستانیوں کے لیے یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ نفرت کی سیاست کرنے والی پارٹیوں اور لیڈروں سے ہوشیار رہیں اور ملک کی تہذیب و ہم آہنگی کو غارت ہونے سے بچائیں وہیں مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیداکریں،اگر ہمارے اندراتحاد ہواور بحیثیت مسلمان ہماری فکریں ایک جیسی ہوں ،ہم اپنے بھائی کے دکھ دردکوواقعتاً اپنا دکھ دردسمجھیں،اگرآپس میں کوئی ناچاقی ہوجائے توآپس میں دورکرنے کی کوشش کریں اورملک کی بقاوسلامتی کے لیے مطلوبہ کرداراداکرنے کی کوشش کریں تو ان شاء اللہ ماحول بہتر ہوگا۔موجودہ وقت میں مسلم لیڈران،دانشوران اور علماء کرام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مسلمانوں کوہرسطح پر متحدکرنے کی ہر ممکن کوشش کریں،بہت سارے سنگین مسائل بھی ہماری صفوں میں اتحاد پیداہونے کی وجہ سے دورہوجائیں گے،اس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگاکہ معمولی معمولی ایشوپرمنافرت کی سیاست کرنے والے افراداور جماعتوں کوہوش آئے گا اور وہ ہمیں غلط استعمال کرنے کی جرأت نہیں کر سکیں گی۔
جواب دیں