کانگریس کو خود کانگریسیوں نے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا ہے
از: غلام غوث، بنگلور
آر یس یس نے 1926سے چھ سال کے بچوں کو لے کر اپنی اسکولوں میں انکی ذہنی تربیت کی۔ انہیں غلط تاریخ پڑھائی اور انکے سامنے مسلمانوں کو دشمنوں کے طور پر پیش کیا جبکہ دوسرے سب اور خاص کر مسلمان ایک دوسرے کے خلاف فتوے دینے میں اور جد و جہد چھوڑ کر زکر و ازکار میں اور رسومات میں مشغول رہے۔ جن لوگوں نے اسرائیل کی موساد اور امریکہ کی سی آی یے اور یف بی آی کے کارنامے پڑھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی جماعت، ادارے، سیاسی پارٹی یا ملک کوتباہ کر نا ہو یا کمزور کر نا ہو تو اْس میں اپنے تربیت یافتہ جاسوس،یا ایجنٹوں کو داخل کر دو اور پانچ سے دس سال تک اس پارٹی یا ادارے میں دن رات کام کرے اور مالی مدد بھی شروع کر دے۔ بہت جلد وہ موقعہ آ جائے گا جب آپکا ایجنٹ اْس پارٹی کا معتبر رکن بن جائے گا اور دوسرے لیڈروں کو گمراہ کر نے لگ جائے گا۔پارٹی کے سب سے بڑے وفادار کے روپ میں وہ پارٹی کے اہم لیڈروں اور رہنماوں کو غلط اور گمراہ کن مشورے دے گا جن پر چل کر پارٹی کمزور ہو جائے گی اور بالاخر ختم ہو جائے گی۔ایسی مہم روس اور امریکہ نے ایک دوسرے کے خلاف چلائی اور اب امریکہ نے اسرائیل کی ایما پر عرب ممالک میں چلا رہا ہے۔اگر ہم ہمارے مسلکوں میں انہیں ڈھونڈ نا ہو تو مسلکوں کے متعلق کٹرپن کی باتیں کر نے والوں میں ڈھونڈیں تو دشمنان اسلام مل جائیں گے جو ہر حال میں مسلمانوں کو متحد ہو نے نہیں دیتے۔غور سے دیکھیں تو یہ ہنر ہندوستان میں آر یس یس نے شروع کر دیا ہے اور برسوں پہلے تمام جماعتوں اور اداروں میں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹس داخل کر دیے ہیں۔وہ ایک Sleeping cell ہے جسے وقت آنے پر کام پر لگا دیا جاتا ہے۔آج ایسے ایجنٹ کانگریس اور دوسری پارٹیوں میں اہم عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں اور پارٹیوں کو غلط مشورے دے کر اندر سے انہیں کمزور کر رہے ہیں۔ 2014 and 2019کے الیکشن میں یہ کھیل بہت ہی چالاکی اور احتیاط سے کھیلا گیا۔ ان ایجنٹوں نے کانگریس کو وہ چمکدار روپ دکھایا جسے دیکھ کر کانگریس لیڈر اچھلنے کودنے لگے اور انہیں ایسا لگا کہ وہ یہ الیکشن جیت جائیں گے۔ در اصل کانگریس کو زمینی حقایق سے اور عوام سے دور کر دیا گیا اور کانگریس لیڈروں کے اطراف چاپلوسوں اور جھوٹوں کو بھر دیا گیا۔ در اصل کانگریس کی لگاتار شکست کے لئے اس کا غرور، انا، عوام سے دوری اور زمینی حقیقت سے نا واقفیت ہی ذمہ دار ہے۔کانگریس میں حریص اور اقتدار کے بھوکے لوگوں کی بھر مار ہے اور یہی انکے آپسی جھگڑے اور رسہ کشی کی بنیاد ہے۔ 2019 کے پارلیمنٹ الیکشن کے لئے کانگریس نے ایسے چند لوگوں کو سیٹ دیے جنکا عوامی خدمت کا ریکارڈ زیرو تھا۔ بارہ فیصد آبادی رکھنے والے مسلمانوں کو ایک سیٹ جبکہ دو فیصد آبادی رکھنے والے کروباس کو تین سیٹ۔ یہ ہے کانگریس کا مسلمانوں کے ساتھ انصاف۔ وہ پارٹی جو اپنے منجھے ہوے وفادار لیڈروں کو چھوڑ کر تھوڑی دیر چمک دکھانے والے اراکین کو بڑھاوا دیتی ہے اسکی کشتی کا ڈوبنا یقینی ہے۔ جناب رحمان خان، سی یم ابراھم، روشن بیگ، تنویر سیٹھ اور حارث جیسوں کو نذر انداز کر دیا گیا اور سیاست کا مفہوم نہ سمجھنے والے لوگوں کو بڑھاوا دے دیا گیا۔ ایسے مہارتیوں کو نہ روڈ شو میں لیا گیا اور نہ ہی جلسوں میں۔۔ نقصان جو ہوا وہ مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کا۔نقصان مینارٹیس کا ہوا۔ اس شرمناک شکست کے لئے مسٹر سدرامیا، وینو گوپال،دینیش گنڈوراواور مسٹر کمار سوامی کو ذمہ داری قبول کر نا ہوگا۔اگر ہندوستان میں دوبارہ اسمبلی الیکشن کرایا گیا تو کانگریس کو خود اس کے اندر موجود دشمن اسکی تعداد جالیس سے کم کروا دیں گے۔ مسلمان پہلے بھی سوتے رہے اور اب بھی سوتے رہیں گے، پہلے بھی منتشر تھے اب بھی منتشر رہیں گے اور پہلے بھی سیاسی طور پربے وزن تھے اب بھی بے وزن رہیں گے۔کسی بھی قوم کے لیڈر سے ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ کسی بھی مسلے میں ہر فرد سے مل کر بات کرے۔ کئی موقع ایسے آتے ہیں جب اس لیڈر کو کڑوی گولیاں دینی بھی پڑتی ہے اور کھانی بھی پڑتی ہے۔، لوگوں کے طعنہ بھی سننا پڑتا ہے۔ یہی سب کچھ مولانا آزاد کے ساتھ بھی ہوا، امبیڈکر کے ساتھ بھی اور مہاتما گاندھی کے ساتھ بھی اور آئندہ بھی مخلص لیڈروں کے ساتھ ایسا ہی ہو تا رہے گا۔تب ہی تو وہ لیڈر کہلاتا ہے۔ اب تک جتنے بھی سیاسی پارٹیون کے اندر سے مسلم لیڈر آئے انہوں نے کھل کر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر آواز نہیں اٹھائی کیونکہ انہیں اقتدار اور عہدے کے چھین لئیے جانے کا خوف رہا۔ایسے میں اگر کوئی ہمت کر کے آواز بلند کر دیتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ اسکی داد دیں مگر ہم ہیں کہ اسکی کمزوریوں کو اچھالتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آجکل کانگریس میں بھی عہدے قابلیت کی بنیاد پر نہیں دیے جاتے بلکہ عہدے ان کو دیے جاتے ہیں جو سینیر لیڈروں کو منھ مانگی رشوت دیتے ہیں اور ان کی خواہشیں پوری کر تے ہیں۔مسلمانوں کی نیند کا یہ عالم ہے کہ شریعت میں مداخلت ہو گی ہونے دو، مساجد اور مدارس پر حکومت کا کنٹرول ہو جائے گا ہونے دو، طلاق، خلع اور کثرت ازواج کے معاملے عدالتوں کو چلے جائیں گے جانے دو، دار القضاء بند ہو جائیں گے بند ہو جانے دو۔ جو ہوتا ہے ہونے دو مگر ہم ملیں گے نہیں، بیٹھیں گے نہیں، غور و فکر کریں گے نہیں، حکومت اپنے فیصلے مسلط کر نے سے پہلے خود فیصلے کریں گے نہیں۔ حکومت اگر اپنے فئضلے مسلط کر دے تو ہمیں چیخنے چلانے اور اپنی تقریری صلاحیتوں کا مظاہرہ کر نے کا اچھا موقع مل جائے گا۔ قوم جائے بھاڑ میں۔ تجربہ، مطالعہ اور مشاہدہ نہ رکھنے والے زور و شور سے اپنی نادانی کی باتیں رکھیں گے اور معلومات رکھنے والے خاموش بیٹھ جائیں گے۔سنجیدہ مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ اب ہمیں کیا کر نا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں مسلمانوں کو جگانے کے لئے انمیں احساس پیدا کر نا ہے۔ یہ اسی وقت ہو گا جب انمیں اخبارات اور سیریس کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی جائے۔بغیر ان معلومات کے سب ہوا میں باتیں کرتے رہیں گے جیسا کہ آجکل کر رہے ہیں۔ مسجدوں کو مرکز بنا کر تمام کاموں کا آغاز کر نا ہو گا۔ مسجدوں، درگاہوں، مدرسوں اور خانقاہوں سے باہر نکل کر جد و جہد کر نا ہو گا۔ حکومت کسی کی بھی ہو ہر جگہ ہم ہی نشانے پر رہیں گے۔ مگر ہم بھی ایسے سخت چمڑے کے ہیں کہ ہم ہر ماحول میں زندہ اور خوش رہے۔جہاں جہان فرقہ پرست حکومت ہے وہاں بس ہمیں اپنی روش بدلنی ہو گی۔ہمیں پانی کی طرح ہونا چاہیے جو جس برتن میں ڈالے وہی شکل لے لے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا مذہب اور اپنے اخلاق کا سودا کریں۔ حکومت کی مداخلت سے پہلے ہمارے مسائل ہمیں خود حل کر لینا چاہیے۔حکومت جو بھی رہے ہمارے ساتھ وہی ہوگا جو دوسروں کے ساتھ ہو تا ہے۔ ایسے میں ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بس ہمیں خاموشی کے ساتھ کسی حکمت عملی کے تحت زندگی گزار نا ہو گا۔جب تک ہم مل کے نہیں بیٹھیں گے ہم کوئی حکمت عملی بنا نہیں پائیں گے اور ہمیشہ فائر فائٹنگ کر تے رہیں گے۔آج کانگریس کو خود کانگریسیوں نے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا ہے اور غدار جو آج غلام نبی آزاد اور کپل سبل جیسے کانگریس کے وفاداروں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں وہ خوش ہیں کہ انہوں نے گاندھی فیملی کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہے اور اب کانگریس کی موت قریب ہے۔ اب کانگریس میں کسی کی نہیں سنی جائے گی سوائے مکھوٹا لگائے ہوے غداروں کی اور عوام سے دور لوگوں کی۔ ا آجکل تمام اخبار اور تمام دانشور کہہ رہے ہیں کی کانگریس کو اپنی آئڈیالوجی میں تبدیلی لا نا ہو گا اور ہر عہدے کے لئے الیکشن کرانا ہو گا۔ مگر کانگریس ہے کہ کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر الیکشن ہوا تو اس وقت جتنے کانگریسی عہدوں پر ہیں ان میں سے ساٹھ فیصد باہر ہو جائیں گے۔ اسی لئے یہ لوگ الیکشن ہونے نہیں دیتے۔ ہر کانگریسی عہدہ حاصل کر نا اور دولت کمانا چاہتا ہے۔ کوئی بھی مسٹر احمد پٹیل کی طرح پارٹی کو خاموشی کے ساتھ مضبوط کرنا نہیں چاہتا۔ اب تک ہم مسلمان کانگریس کا ساتھ دیتے رہے مگر اب ہم مسلمانوں کو کوئی متبادل ڈھونڈنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس پر بھی غور کر نا ہو گا کہ ہمیں بی جے پی کے ساتھ اپنے رویے کو کیسے بدلنا ہو گا۔ تمام متبادل پر غور کر نا ہماری آج کی ضرورت ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں