راہل گاندھی کے ساتھ جو ہورہا ہے وہی ہر اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہونے والا ہے عبدالغفار صدیقیبشیر بدر نے کہا تھا:مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہےمیں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں اگر بشیر بدرشعر کہنے کی حالت میں ہوتے تو اپنے شعر میں ترمیم فرمادیتے اور یوں کہتے:مخالفت سے میری شخصیت بگڑتی ہےمیں […]
راہل گاندھی کے ساتھ جو ہورہا ہے وہی ہر اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہونے والا ہے
عبدالغفار صدیقی بشیر بدر نے کہا تھا: مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں اگر بشیر بدرشعر کہنے کی حالت میں ہوتے تو اپنے شعر میں ترمیم فرمادیتے اور یوں کہتے: مخالفت سے میری شخصیت بگڑتی ہے میں دشمنوں کے لیے انتقام رکھتا ہوں ملک اس وقت جن حالات سے گزررہا ہے اس نے ہر سنجیدہ انسان کو فکر مند کردیا ہے۔راہل گاندھی نے حال ہی میں پورے ملک کا پیدل دورہ کیا ہے۔اس دورے میں انھوں نے 4000کلومیٹر کا سفر کیا ہے۔ ابھی ان کے پاؤں کے نقوش مٹے بھی نہیں کہ جناب کو اپنی کرسی گنوانی پڑی۔الزام ہے کہ انھوں نے مابدولت کی شان میں گستاخی کی ہے۔انھیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ہر کسی کی عزت نفس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ان کو جس قانون کے تحت سزا دی گئی ہے وہ کوئی نیا قانون نہیں ہے۔بلکہ 1951میں بنایا گیا تھا۔اس لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ حکومت نے انھیں سزا دینے کے لیے کوئی قانون سازی کی ہے۔اگر ایسا ہوتا تو ہم کہتے کہ ذاتی دشمنی میں ایسا کیا گیا ہے۔میری اس بات سے شاید آپ اتفاق کریں کہ مودی جی کی حکومت نے اپوزیشن اوراقلیتوں کے خلاف جن دفعات کے تحت اقدامات کیے ہیں۔وہ قوانین کانگریس دور حکومت میں ہی بنائے گئے تھے۔اس وقت شاید قانون بنانے والوں کو اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ قانون کا یہ ڈنڈا ایک دن انھیں کے سر پر پڑے گا اور ایسا پڑے گا کہ”دادی“ یاد دلادے گا۔ کانگریس لیڈر کو سزا دیے جانے اور ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت کی منسوخی کے بعد پارٹی نے کچھ احتجاجی پروگرام کیے،رہنماؤں نے بیانات دیے،بعض اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں نے بھی ان کے زخموں پرالفاظ کا مرحم رکھا،خواہ اس کی آڑ میں ان کے مقاصد کچھ بھی رہے ہوں لیکن یہ احتجاج اب تک کا سب سے کمزور احتجاج تھا۔کانگریس پارٹی جب راہل گاندھی کے ساتھ بقول خود ناانصافی و ظلم پر ایساڈھیلا ڈھالااحتجاج کررہی ہے جس کی بازگشت چندکلومیٹر تک بھی سنائی نہیں دے رہی ہے تو باقی کسی لیڈر کو بچانے کے لیے کیا کرے گی۔مجھے لگتا ہے کہ کانگریس ابھی اپنے اندرونی جھگڑوں اور باہمی اختلاف رائے سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔کانگریس نے احتجاجاً یہ بھی کیا کہ مودی جی کی کچھ آڈیو اور ویڈیوز جاری کیں جن میں موصوف بیرون ملک کانگریس رہنماؤں کو نازبیا القاب و آداب سے نواز رہے ہیں اور اس وقت کی حکومت پر تنقید اور بقول اپوزیشن تنقیص کررہے ہیں۔کانگریس کا دعویٰ ہے کہ ہم نے اپنی مخالفت کرنے یا اپنے رہنماؤں کے لیے ’اپ شبد“ کہے جانے پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔پھرہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟یہ دلیل غیر مناسب ہے۔اگر آپ نے قانون پر عمل نہیں کیا تو دوسروں کو عمل کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں۔آپ کو تو شکر گزار ہونا چاہئے کہ آپ کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کیا جارہا ہے۔آپ تو آئین کی دہائی دیتے ہیں،اس پر عمل کی بات کرتے ہیں تواب آپ کس منہ سے اعتراض کررہے ہیں؟اگر آپ نے اپنے دور حکومت میں لاقانونیت کو روا رکھا ہے تو وہ آپ کی غلطی ہے جس کی سزا آپ کو ملنی ہی چاہیے۔آپ نے بھی اپنے دور حکومت میں کچھ کم مظالم نہیں کیے ہیں۔اگر کوئی ایمرجنسی کی یاد دلاتا ہے تو آپ کو پسینہ آنے لگتا ہے۔کیا موجودہ کانگریسی قیادت اپنے اُس اقدام کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے جس میں ملکی آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ بھارتی آئین کے مطابق ہو یا نہ ہوقانون فطرت کے مطابق ضرور ہے۔کانگریس نے تقریباً پچاس سال بلا شرکت غیرملک پر حکومت کی۔کوئی اپوزیشن اس کے سامنے نہیں تھا۔ہر ریاست میں اس کی حکومت تھی۔اس کو بھارتی عوام خاص طور پر مسلمانوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔لیکن اس نے اپنے بہی خواہوں کے ساتھ کیا کیا؟لوگ کہتے ہیں کہ کالج،یونیورسٹیاں اسی کے زمانے میں قائم ہوئیں،ہوائی اڈے بنے،ملک کو ایٹمی طاقت حاصل ہوئی،یہ سب اس لیے ہوا کہ آپ پچاس سال حکمراں رہے۔لیکن ملک میں بدعنوانی کے واقعات میں اضافہ،طبقاتی منافرت میں شدت،مسلمانوں کی پسماندگی،پرائمری تعلیمی نظام کی بربادی،کس کے دور میں ہوئی؟کس کے دور حکومت میں علی گرھ مسلم یونیورسٹی کے لیے لاینحل مسائل کھڑے کیے گئے؟کس کے زمانے میں مسلم ریاستوں پر فوج کشی کی گئی اور ان کے ساتھ فریب کیا گیا؟جس بابری مسجد کے سہارے بی جے پی آج حکمرانی کررہی ہے اس کا موقع کس نے دیا؟کس کے زمانے میں مورتیاں رکھی گئیں؟تالا کس نے لگوایا؟کس نے اس میں پوجا کی اجازت دی اور کس نے مندر کا شلا نیاس کرایا؟اترپردیش سے اردو میڈیم اسکول کس کے دور حکومت میں ناپید ہوگئے؟سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی بدترین صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟مسلم کش فسادات کس کے زمانے میں ہوئے،میرٹھ،ملیانہ،ہاشم پورہ،مرادآباد،نیلی،بھاگلپور اور ممبئی کس کے زمانے میں مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہوئے؟کس نے اپنے دفاع کے لیے گولڈن ٹیمپل کی حرمت کو پامال کیا اور کس نے دہلی میں سکھوں کا قتل عام کیا؟وغیرہ وغیرہ ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے ان واقعات کو دہرانے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ آج جن حالات کا کانگریس کوسامنا ہے وہ اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔اگر آزادی کے بعد ملک کے سیکولر آئین پر عمل کیا گیا ہوتا،اور مسلم اقلیت کے ساتھ ڈنڈی نہ ماری گئی ہوتی،تو یہ دن شاید نہ دیکھنے پڑتے۔ان خیالات کا اظہار موجودہ حکومت کی کارروائیوں کو سند جواز عطا کرنے کے لیے قطعاًنہیں ہے۔ راہل گاندھی کے ساتھ جو ہوا ہے وہ آنے والے وقت میں اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔اس لیے اپنی زبان کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر فرمائیں۔اول تو حکومت کے خلاف کسی عوامی احتجاج کی توقع نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کسی عوامی احتجاج سے ڈرنے والی بھی نہیں ہے۔موجودہ حکومت کااپنا ایک ایجنڈا ہے۔اس کا اپنا ایک نظریہ ہے۔اس کی پشت پر بہت منظم تنظیم کا ہاتھ ہے۔نظریاتی جماعتیں اور اس نظریہ پر بننے والی حکومتیں اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو رفتہ رفتہ دور کرکے اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہیں۔ان کے اندر اپنے نصب العین کے حصول کی تڑپ ہوتی ہے۔اس کے لیے وہ سب کچھ برداشت کرتی ہیں۔اس وقت وہ حکومت میں ہیں اور ان کے سامنے کوئی بڑا چیلینج بھی نہیں ہے۔ان کے لیے 2024میں فتح حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔اس مرتبہ رام نومی پر کئی ریاستوں میں شرارتی عناصر نے ماحول خراب کیا ہے۔ان میں بیشتر ریاستیں وہ ہیں جہاں غیر بی جے پی حکومت ہے۔اس سے عوام کو یہ باورکرانا آسان ہے کہ ”شری رام‘‘ کی حفاظت ہم ہی کرسکتے ہیں۔اندیشہ ہے کہ2024آتے آتے اس کشیدگی میں مزید اضافہ نہ ہوجائے۔ جہاں تک اپوزیشن کے اتحاد کا سوال ہے تو وہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔اگر کوئی کوشش ہوئی بھی تو اس کے نتیجہ میں کئی محاذ وجود میں آئیں گے۔مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ جو کبھی بی جے پی کے پہلو میں بیٹھ چکی ہیں اور اس وقت مسلمانوں کی مسیحائی کا دم بھر رہی ہیں،کہہ چکی ہیں کہ وہ کانگریس کو اپنے محاذ میں شامل نہیں کریں گی۔حال ہی میں وہ اپنی موجودگی سے تری پورہ میں کانگریس کو زبردست نقصان پہنچا چکی ہیں۔ان کاساتھ اکھلیش بھیا دے رہے ہیں،اس کا مطلب ہے کہ اس محاذ میں کانگریس شامل نہیں ہوگی۔دہلی کے وزیر اعلیٰ جناب اروند کیجریوال جی کی عام ا ٓدمی پارٹی کو نیشنل جماعت کا درجہ حاصل ہوگیا ہے اور وہ بھی ہر ریاست میں خم ٹھونک رہے ہیں۔وہ جہاں جارہے ہیں وہاں سے کانگریس کا جنازہ نکال رہے ہیں۔انھوں نے یوپی،اتراکھنڈ اور پنجاب میں الیکشن لڑا،لیکن پنجاب کے علاوہ کہیں قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکے اس لیے کہ باقی دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت تھی اور پنجاب میں کانگریس تھی۔موصوف گجرات میں بھی یہی کھیل کھیل کر آئے ہیں۔اب دوسری ریاستوں کا رخ کررہے ہیں،وہ اعلان کرچکے ہیں کہ لوک سبھا کا الیکشن اپنے دم پر لڑیں گے۔بھائی جان کا اپنا الگ نقطہ نظر ہے وہ کانگریس کو گھاس نہیں ڈالتے۔زیادہ تررفاہی و فلاحی کام تلنگانہ میں کرتے ہیں اور تلنگانہ سے باہر صرف جذباتی بھاشنوں سے کام چلاتے ہیں۔اپنے علاوہ کسی مسلم سیاسی جماعت کومنہ نہیں لگاتے۔وہ تنہا قائد بننا چاہتے ہیں جب کہ دوسرے مسلم رہنما ان کے اس خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دینا چاہتے۔بہن جی بھی اکیلے الیکشن لڑنے کا اعلان کرچکی ہیں۔نتیش جی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو خود انھیں بھی نہیں معلوم۔ان حالات میں اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ 2024میں کوئی انقلاب آجائے گا تو دن میں سپنے دیکھنے سے کون روک سکتا ہے۔کسی مضبوط چٹان کا مقابلہ ریت کے ذرے نہیں کرسکتے۔امت مسلمہ کواپنی بقا و تحفظ کے فارمولے پر غور کرنا چاہیے اور فرمان الٰہی ”تم ہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو“ کی روشنی میں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں