کچھ لوگ زندگی بھر کنفیوز رہتے ہیں۔ انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے اور جانا کہاں ہے؟ ہمارے دوست بھی اسی قسم کے نکلے۔ بچپن میں وہ کنفیوز تھے کہ پیدا کیسے ہوئے اور جب بڑے ہوگئے، تب کنفیوز زیادہ ہوگئے کہ پیدا کیوں ہوئے۔ وہ خود کو سب سے زیادہ ہوشیار، خبردار اور اثردار سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتے، مگر اس کوشش میں بھی وہ کنفیوز رہتے ہیں کہ کامیاب ہوئے یا نہیں۔
کنفیوز لوگ سست بھی بہت ہوتے ہیں۔ انکی سستی کا یہ عالم ہوتاہے کہ اگر ان کا بس چلے تو سالوں روم سے نہ نکلیں۔ مگر کمال یہ ہے کہ وہ کبھی خود کو سست تسلیم نہیں کرتے۔ سستی اور کنفیوزن کی بیماری ایسی ہے کہ بیمار کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ بیمار ہے، بیمار ہیں، شائد نہیں ہیں۔ نہیں تھوری سی بیماری ہے، نہیں زیادہ ہے، اس طرح وہ کنفیوز ہی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انکی پوری زندگی اسی ادھیڑبن میں گزر جاتی ہے کہ کریں تو کیا کریں۔ایسے لوگ کرتے کچھ نہیں مگر سوچتے بہت ہیں۔ سوچنا انکی سرشت میں داخل ہوتا ہے کیونکہ سست لوگ اپنا ہاتھ پاوں تو چلانہیں سکتے، اس لئے اپنا دماغ چلاتے ہیں اور دماغ چلانے میں حرکت نہیں کرنا پڑتی، اور سستوں کو حرکت سے بڑی تکلیف ہوتی ہے، اسی لئے آپ سست لوگوں کو بڑی بڑی باتیں کرتے سنیں گے۔ وہ بڑی بڑی باتیں اس لئے نہیں کرتے کہ انھیں کچھ کرنا ہے، بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کو مرعوب کرنا ہے۔
کنفیوز لوگوں کی ایک بڑ ی خصوصیت ہوا میں تیر مارنا ہے۔ آج وہ ایک ذبردست پلان سنائیں گے۔ دوسرے دن اس سے بھی ایک بڑا پلان لیکر آئیں گے۔ ہر پلان انکو پہلے پلان سے بہتر نظر آئیگا، وہ اپنے منصوبے بنانے کے لئے بھی منصوبے بناتے ہیں۔ اور یہ سارا کھیل دماغ شریف میں ہوتا ہے۔ اسی کٹورہ میں اتھل پتھل چلتی رہتی ہے، شکشت وریخت کے سارے پروسس اسی ڈھائی سو گرام کے دماغ میں چلتا رہتا ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اس پروسس سے باہر نکل کر جب جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں کل تھے آج بھی وہیں ہیں۔ وہ جسمانی طور پر کم اور دماغی طور پر سفر زیادہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی اس سفر میں اتنے دورچلے جاتے ہیں کہ کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ کہاں تھے۔
بہرحال کنفیوز لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان سے کسی کو نقصان نہیں ہوتا، نہ تو وہ ملک کی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ ہی سماج کے کسی کام میں، کیونکہ وہ کچھ کرنے کی حالت میں نہیں ہوتے، نقصان تو اس سے ہوتا ہے جو کچھ کرتا ہے، وہ سوچنے کی حالت میں ہوتے ہیں اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ سوچنے سے آج تک کسی کا نقصان نہیں ہوا۔ ایسے لوگ سماج کے لئے مفید نہیں تو مضر بھی نہیں ہوتے۔ وہ چوری کرنہیں سکتے، کیونکہ چوری کرنے کے لئے ایک فیصلہ کن طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان میں مفقود ہوتی ہے۔ کنفیوز لوگ بے ایمانی بھی نہیں کرتے کیونکہ جتنی دیر وہ کنفیوز رہتے ہیں اتنی دیر میں کوئی اور انھیں چونا لگاکر جاچکاہوتا ہے۔ وہ آپ کو مار بھی نہیں سکتے، کیونکہ انکے دماغ میں آپ کو مارنے اور نہ مارنے کی جنگ جب تک ہوتی رہتی ہے اتنی دیر میں وہ پٹ چکا ہوتا ہے۔ اسی لئے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ پورے ملک کو کنفیوز رہنا چاہیے کیونکہ اس سے کم از کم کرائم میں تو کمی آئیگی۔
اب ذرا سوچئے، کہ اگر ہمارے ملک کا وزیر اعظم کنفیوز آدمی کو بنادیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا۔ کنفیوزن میں ہی اس کے پانچ سال گذر جائیں گے، پھر جب الکشن کا وقت آئیگا تو وہ ایسے کنفویز کرنے والے جوابات دیگا کہ سوال کرنے والا بھی کنفیوز ہوجائگااور جب سوال کرنے والے اور جواب دینے والے دونوں کنفیو ز ہوجائیں گے، تو پھر سننے والا بھی کنفیوز ہوجائیگا۔ اس طرح ایک پورا ملک کرائم سے محفوظ ہوسکتا ہے۔ اسی لئے میرا ایک یہ بھی خیال ہے کہ اگر آپ اسے پڑھ کر خود بھی کنفیوز ہو رہے ہیں تو یہ ایک بڑی خوش آئیند بات ہے۔کیونکہ میں بھی آپ کو کنفوز کرنے کی کوشش میں خود ہی کنفیوز ہوچکا ہوں۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیے کہ دنیا کی کسی چیز میں کوئی نہ کوئی اچھائی چھپی ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ اچھائی ہمیں ہمیشہ نظر نہیں آتی۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں