چھوٹی سی تبدیلی بڑے خطرے کا اشارہ

لوک سبھا کے الیکشن کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر کا الیکشن صرف مودی صاحب کے نام پر لڑا گیا تھا ان دونوں جگہ چوٹالہ اور ٹھاکرے جیسے مقامی لیڈروں کے ہوتے ہوئے بی جے پی کی کامیابی سے یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ مودی کا نام فتح کی ضمانت ہے جسے دہلی میں پوری طرح غلط ثابت کردیا گیا تھا۔ بہار میں مودی صاحب کا خیال تھا کہ یہاں اُن کا جادو چلے گا لیکن وہ نہ معلوم کیوں بھول گئے تھے کہ خوشحال اور فارغ البال لوگوں نے کالے دھن میں سے اپنے حصہ کا انتظار اس لئے نہیں کیا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ تھے اور جانتے تھے کہ جمہوریت اور شاہی میں کیا فرق ہے؟ اور دنیا میں جو کام آج تک نہ کسی نے کیا اور نہ کسی نے کہا وہ اس قابل کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر اعتماد کرلیا جائے؟ جس کی مثال دور کیوں جائیں ہم اور ہمارا پورا گھرانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم سے بھی نوازا ہے اور اپنی دوسری نعمتوں سے بھی۔ ہمارے گھر میں میرے جیسے 83 برس کے بوڑھے بھی ہیں، ریٹائرڈ داماد بھی ہیں، ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب بیٹے بیٹیاں بھی ہیں، زیرتعلیم پوتے پوتیاں بھی ہیں اور شیرخوار پوتہ بھی ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ ہمارے گھر کے کسی بڑے چھوٹے کی زبان پر ایک بار بھی نہیں آیا کہ ہمارے گھر میں جتنے ممبر ہیں ان سب کے پندرہ پندرہ لاکھ کتنے ہوں گے؟ لیکن اُن غریبوں کے دل سے پوچھا جائے جن سے جب معلوم کیا جاتا ہے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے ’’چار روٹی‘‘۔ اور ملک میں تعداد بھی ان کی ہی زیادہ ہے اور ووٹ بھی دو گھنٹے تک لائن میں لگ کر وہی زیادہ دیتے ہیں وہ کیسے بھول جائیں کہ اسی مودی نے کہا تھا کہ 100 دن میں کالا دھن دنیا کے بینکوں سے منگوا لوں گا اور زعفرانی دھوتی چادر اور لکڑی کی کھڑاؤں پہننے والے بابا رام دیو نے جسے پورا ملک سچا سیوک اور بھگوان کا بھگت مانتا تھا اس نے کہا تھا کہ چار سو لاکھ کروڑ کالا دھن نہرو گاندھی پریوار نے ملک کے باہر بینکوں میں چھپا رکھا ہے جسے مودی منگوا لیں گے پھر ملک میں کوئی ایک بھی غریب نہیں رہے گا اور ہمارا روپیہ ڈالر سے زیادہ قیمت کا ہوجائے گا۔ اس ایک بابا نام کے مداری اور دوسرے موہن بھاگوت کے سیوک اور پرچارک نے پورے ملک کے 122 کروڑ انسانوں کو دھوکہ دیا تھا اور اس کے داہنا ہاتھ کہے جانے والے امت شاہ نے اسی بہار میں کہا تھا کہ وہ پندرہ لاکھ والا وعدہ تو الیکشن کا جملہ یعنی مذاق تھا۔
مودی صاحب نے جب کہا تھا کہ ہماری حکومت بنتے ہی مہنگائی ختم ہوجائے گی اس لئے کہ جمع خور اور بچولیے ڈرکر بھاگ جائیں گے۔ اس وقت ارہر کی دال 75 روئپے کلو تھی۔ آج وہی مودی پھر نئے وعدے کرنے آئے ہیں اور انہیں یہ سن کر شرم نہیں آتی کہ اب دال 175 روپئے کلو ہے۔ اور ایک بھی وعدہ پورا تو کیا ہوا اب اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ 49 سیٹوں کے پہلے راؤنڈ نے شاید اشارہ دے دیا کہ گجرات کے دونوں گرو چیلے بہار والوں کی نظر میں جھوٹے اور دھوکے باز ہیں اور شاید انہیں یہ بھی شبہ ہوگیا کہ فرضی انکاؤنٹر کی سازش سے ملزم امت شاہ کو کہیں مودی بہار کا وزیر اعلیٰ نہ بنا دیں؟ اور بہار والوں کی یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ کسی وزیر اعظم کا صرف ایک صوبہ میں چالیس ریلی کرنا آج کیوں ضروری ہوگیا؟
شری مودی کے نزدیک موہن بھاگوت کے بعد دوسرے گرو صرف بارک اوبامہ ہیں۔ وہ ایک ہفتہ پہلے امریکہ میں نئی نئی نوٹنکی دکھاکر ہندوستان کے سواسو کروڑ ہندوستانیوں کو دکھا چکے ہیں کہ پورا امریکہ مودی مودی کررہا ہے۔ لیکن آج جب وہ پاٹلی پتر میں موت و حیات کی جنگ لڑرہے ہیں اس وقت ان کے پیارے امریکہ کے وزیر خاجہ نے اپنی رپورٹ میں کہہ دیا کہ مودی حکومت کے چند افراد نے اقلیتوں کے خلاف امتیازی بیانات دیئے ہیں اور مقامی پولیس فرقہ وارانہ تشدد سے مؤثر طریقہ سے نمٹنے میں ناکام رہی اس میں اقلیتوں پر حملوں کے واقعات بھی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہندوستان میں عام انتخابات کے بعد سے حزب اقتدار بی جے پی کے ارکان مذہبی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیتے رہے ہیں اور اقلیتوں کے خلاف حملوں اور آر ایس ایس اور وشوہندو پریشد جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ کمیشن نے کہا ہے کہ ہندوستان باوجود ایک سیکولر جمہوریہ ہونے کے ناطے ہندوستان میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بہار میں دادری اور مین پوری جیسے واقعات کی پوری تفصیل ہر کسی کی زبان پر ہے شری مودی یا اُن کے وزیر انہیں ریاستی حکومت کی ذمہ داری کہہ کر بھاگنے کی کوشش ضرور کررہے ہیں لیکن ہر کسی کو معلوم ہے کہ دونوں جگہ شرمناک جرم کرنے والے بی جے پی کے لوگ تھے اور وہی گرفتار ہوئے ہیں۔ بہار کے عوام کے علم میں یہ بھی آیا ہے کہ بی جے پی کے وزیر اور سادھو سادھوی اور ایم ایل اے مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے نہیں گئے بلکہ سب کے سب صرف اس لئے گئے کہ جو قاتل اور مجرم ہیں انہیں بے گناہ ثابت کرکے چھڑایا جائے جبکہ ان کو یہ کہنا چاہئے تھا اگر یہ مجرم ثابت ہوجائیں تو ان کو پھانسی سے کم سزا نہ دی جائے۔ بات مسلمانوں کی نہیں سب کی ہے بہار کا ہندو ہو یا مسلمان اب ان کا منھ نہیں دیکھنا چاہتا۔
بہار کو فخر ہے کہ اسی مٹی سے جے پرکاش نارائن، کرپوری ٹھاکر اور بابو جگ جیون رام جیسے لیڈر نے ملک کی قیادت کی ہے مولانا محمد علی مونگیری، مولانا ابوالمحاسن سجاد اور مولانا منت اللہ رحمانی نے ملک کے مسلمانوں کو دین کا سبق سکھایا ہے صرف یہ بہار کے لالو پرشاد ہی تھے جنہوں نے بی جے پی کے 52 گز کے نیتا ایل کے اڈوانی کو اُن کے رتھ کے ساتھ بند کردیا تھا صرف اس لئے کہ وہ رتھ یاترا کے ذریعہ ہندو مسلمانوں میں دیوار کھڑی کررہے تھے۔ آج مودی کے کلیجہ میں یہی آگ ہے جس کی جلن سے انہوں نے کہہ دیا کہ لالو کے اندر شیطان گھس گیا ہے جبکہ لالو سے بڑے سیکولر لیڈر جواہر لال بھی نہیں تھے۔ رہی ان پر چارہ گھوٹالے کے الزام کی بات تو اسی ہندوستان میں تمل ناڈو کی اماّ ں کہلانے والی جے للتا جو ایک رکھیل کی طرح فلم ڈائرکٹر کے پاس رہی۔ جس کے گھر چھاپہ پڑا تو دس ہزار ساڑیاں اور پانچ ہزار جوتے سینڈل اور ایک کروڑ روپئے منھ بولے بیٹے کی شادی پر خرچ کے ثبوت ملے۔ پھر جب اسے حکومت سے اتار کر اور جیل بھیجا تو کتنے اس کے چاہنے والوں نے خودکشی کی؟ کتنی انگلیاں کاٹ دیں؟ اور سیکڑوں نے اس کے غم میں سر کے بال منڈوادیئے۔ اور آج وہ عدالت کے حکم سے پھر حکومت کررہی ہے۔ ہمیں یقین ہے اور بہار کے ہر سیکولر انسان کو یقین ہے کہ لالو کو اُن افسروں نے پھنسایا ہے جو اڈوانی کو چھوٹا بھگوان مانتے تھے اور انہوں نے مودی کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے ہی ان کے مقدمے کو بگاڑا ہے۔ لیکن ہم جب دیکھتے ہیں کہ بہار کے جیالے جو لالو کو سیکولرازم کا مینار سمجھتے ہیں وہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے اور ان کے لئے دعا نکلتی ہے کہ وہ غلطی سے بھی ووٹ دینے میں غلطی نہ کریں۔
پوسٹروں اور بینروں سے گرو چیلے کے چہرے ہٹاکر صوبائی لیڈروں کے چہرے دکھانے کا فیصلہ اس کا اعلان ہے کہ دونوں نے تسلیم کرلیا کہ اُن کے چہروں سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا مکھوٹا اُتر گیا ہے۔ ایک بے گناہ اخلاق کی قربانی اور مین پوری کے دو غریب مسلمانوں کی دکانوں کی پوری بربادی اور ایک چھوٹے لال کی دکان نے جل کر اور جلانے نیز مارنے والوں کے بارے میں یہ اعلان کہ وہ بی جے پی کے ویر تھے نے بہاریوں کی آنکھیں کھول دیں اور نتیش کمار اور لالو کی راہ میں جو ایک تیسرا مورچہ نام کی رکاوٹ ڈال رہا تھا اس میں سے طارق انور کی علیحدگی وہ بھی اس الزام کے ساتھ کہ ملائم سنگھ جی تو بی جے پی کا قصیدہ پڑھنے لگے لالو محاذ کو ملنے والی کامیابی کا اشارہ ہے۔

«
»

ایک اوردادری!

سیکولرزم کا راگ اور مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے