منگلورو: چودہ سال تک وہ دونوں اپنی والدہ کو گلی کوچوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر ڈھنڈتے پھر رہے تھے ، ہر آنے جانے والے سے سوال کرتے لیکن کسی کے پاس ان کا جواب نہیں تھا۔ سالوں تک بھائی اور بہن کا یہی کام رہا۔ صبح اٹھتے ہی دونوں ماں کی تلاش میں دردر کی ٹھوکریں کھاتے ، ماں ماں کہہ کر آواز لگاتے ، ہرخاتون ان کی آواز کو سنتے ہوئے کچھ دیر کے لیے ٹہر جاتی لیکن اس آواز کی طرف لپکنے والی کہیں اور زندگی گذار رہی تھی۔ بالآخرچودہ سال کے لمبے عرصے کے بعد بیٹا ماں کو اپنے سامنے پاکر آبدیدہ ہوگیا اور اسے گلے لگا کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔
یہ کہانی ہے فرزانہ کی جسے دماغی مرض لاحق ہوگیا تھا۔ جو کبھی اپنے گھر سے یوںہی ہی نکل پڑتی ، ایک دن وہ اسی طرح اپنے گھر سے نکل پڑی، شام ہوگئی ، راتوں نے اپنے ڈیرے ڈال دیئے لیکن فرزانہ گھر نہیں لوٹی۔
سن 2009 میں وائٹ ڈوز سائیکاٹرک نرسنگ اینڈ ڈیسٹیوٹ ہوم کی بانی کورین انتونیٹے رسکنہا فرزانہ کے لیے مسیحا بن گئی جب اسے اس بات کا پتہ چلا کہ ایک دماغی مرض کی شکار خاتون منگلورو کی گلیوں میں چکر کاٹ رہی ہیں اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ وہ اسے اپنے نرسنگ ہوم لے آئی اور اس کا علاج شروع کیا۔ اسے فرزانہ کے بارے میں معلومات نہیں مل سکی۔ جب بھی اس سے پوچھتی تو وہ کہتی کہ اس کا تعلق مدور سے ہے۔ کئی مرتبہ مدور جانا ہوا ، کئی افراد اس کے پیچھے لگادیے لیکن سبھوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
پورے 14 سال بعد جب کسی جاننے والے کے ذریعہ معلوم اس کے بیٹے آصف کو پتہ چلا کہ اس کی ماں منگلورو کے مذکورہ نرسنگ ہوم میں ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ فوراً اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ منگلور کے لیے نکل پڑا۔ اس دوران اس کی بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں، والدہ کا ایک ایک احسان یاد کرکے کبھی خوشی سے اچھل پڑتا تو کبھی آبدیدہ ہوجاتا۔ دورانِ سفر شریکِ ہمسفر نے اس کی ڈھارس بندھائی، ماں کی تلاش کے لیے گلی کوچوں اور سڑکوں شاہراہوں پر دیوانہ وارچلے جانے کا ہر پل اسے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ کار اپنی منزل کی طرف تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے لیکن آصف کو محسوس ہورہا تھا کہ جیسے زندگی تھم سی گئی ہے۔ وہ ماں کو گلے لگانے کے لیے بے تاب تھا۔ گھنٹوں بھر کا سفر اسے مہینوں کا لگ رہا تھا ، بالآخر وہ اپنے منزلِ مقصود کو پہنچ گیا اور اپنے ماں سے لپٹ کر اپنی قسمت پر فخر کرنے لگا۔ اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ جس کو ڈھونڈنے کے لیے اس نے 14 سال مسلسل کوششیں کیں ، کئی اسفار کیے ، آج وہ اس کے سامنے کھڑی تھی، وہ بار بار اپنی پلکوں کو حرکت دیتا ، کبھی انگلیوں سے آنکھوں کو ملتا کہیں اس کے ساتھ دھوکہ تو نہیں ہورہا ہے؟؟ بالآخر مذکورہ نرسنگ ہوم کی بانی سے 14 سال کی لمبی آب بیتی سنی جسے وہ مبہوت ہوکر سنتا گیا ، اس دوران اس کی آنکھوں سے جاری ہونے والے آنسو تھمنے کا نام لے رہے تھے۔
اب آصف اپنے ماں سے مل کر بہت خوش ہے۔ گویا اسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ وہ اپنی ماں کی خدمت کے لیے اب اپنی بقیہ زندگی قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ اپنے انہی خیالوں میں گم آصف ماں کے ساتھ اپنے گھر کے لیے روانہ ہوگیا اور یہ عہد کرتے ہوئے اس نے اپنی ماں کے ساتھ اس نئے سفر کا آغاز کیا کہ اس کی خدمت کے ذریعہ وہ جنت کا راستہ ہموار کرےگا اور دوسروں کے لیے ایک مثال بنے گا۔
وارتا بھارتی کے ان پٹ کے ساتھ