مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی
چند روز قبل مغرب کے وقت ایک ایسے شناسا سے ملاقات ہوئی جن سے برسوں سے خلوصِ دل پر مبنی تعلق چلا آرہا ہے،رسمِ ملاقات کے مطابق اس بار بھی دونوں جانب سے خیر و عافیت دریافت کی گئی۔ انہوں نے خاص طور پر میرے بیٹے کی طبیعت کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ربِ کریم کا شکر ادا کرتے ہوئے خیریت بتائی۔ انہوں نے بھی “الحمدللہ” کہا، مگر اگلے ہی لمحے ان کی آواز رندھ گئی۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولے: “ڈاکٹر نے میرے بیٹے کے بارے میں علاج سے معذرت کر دی ہے”
میں ایک لمحے کو جیسے سن ہی نہ سکا۔ وہ صاحب اپنے جواں سال بڑے بیٹے کے کئی برسوں سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کی آزمائش جھیل رہے ہیں۔ ایک باپ کی زبان سے اپنے بیٹے کی لا علاج ہونے کی خبر سننا… دل کو چیر دینے والا منظر تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس باپ پر کیسی قیامت گزر رہی ہوگی ،وہ باپ جو اپنے بیٹے کی زندگی چھین لینے والی اس بیماری کے مقابلے میں ہر ممکن کوشش کر چکا ہے، اپنا سب کچھ قربان کرچکا ہے، یہاں تک کہ قرض اور فکر کے بوجھ نے اسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا ہے۔اور ماں…! اس کی ممتا کی کیفیت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اولاد کے معمولی بخار پر بھی رات بھر کروٹیں بدلتا ہو۔ اس کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی؟ اس کا اضطراب، اس کے آنسو، اس کی بے بسی ان کا وزن الفاظ نہیں اٹھا سکتے۔میں نے دعائیں دیں، چند تسلی کے جملے ادا کیےجو خود مجھے بھی بے جان محسوس ہو رہے تھےاور پھر وہ ملاقات یوں ختم ہوئی جیسے کوئی شیشے کی چیز ہاتھ سے پھسل کر ٹوٹ جائے، اور انسان صرف ٹکڑوں کو دیکھتا رہ جائے۔
یہ داستانِ غم کسی ایک باپ یا ایک ماں کا درد نہیں یہ تو ہمارے معاشرے کے سینکڑوں گھروں کی چیخ بن چکی ہے۔ کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز نے نہ جانے کتنی زندگیاں اجاڑ دیں، کتنے خواب نگل لیے اور کتنے خاندانوں کی امیدیں چھین لیں۔ خصوصاً خطۂ کوکن میں اس وبا کی شرح حیران کن حد تک بڑھ گئی ہے۔ متعدد آنکولوجسٹ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اب ان کے پاس آنے والے مریضوں میں ایک بہت بڑی تعداد کوکنی برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ہر روز کسی نہ کسی محلے میں یہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ “فلاں کو بڑی بیماری ہوگئی”یہ مسلسل خبریں لوگوں کے دلوں میں خوف اور بے چینی کی ایک لہر دوڑا دیتی ہیں۔ بے شک بیماری اور شفا کے مالک صرف اللہ ہیں، اور تقدیر کے فیصلے انسانی اختیار سے باہر ہیں، مگر چونکہ یہ دنیا دارالاسباب ہے، اس لیے اس مرض کے بڑھنے کے اسباب پر غور کرنا ناگزیر ہےماہرین کے مطابق غذائیت کا بگڑتا ہوا توازن، کیمیکل آلودہ خوراک، اور فاسٹ فوڈ کا حد سے زیادہ استعمال اس وبا کے اہم ابتدائی عوامل میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسی خوراک مسلسل استعمال کرنے سے جسم کی قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے، اور کمزور بدن ہر بیماری کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد بروقت اور درست تشخیص کا نہ ہونا بہت سے مریضوں کو موت کے دہانے تک پہنچا دیتا ہے۔ تشخیص کے باوجود مستند معالجین یا اس شعبے کے ماہر ڈاکٹروں تک نہ پہنچ پانا بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مریض کو کمزور سے کمزور تر کرتا چلا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی یقیناً کئی اسباب ہوسکتے ہیں، مگر افسوس یہ ہے کہ عموماً اس مرض سے بچاؤ کی تدابیر مریض کو اُس وقت بتائی جاتی ہیں جب وہ کینسر میں مبتلا ہو چکا ہوتا ہےاور اس مرحلے پر یہ ہدایات زیادہ فائدہ نہیں دیتیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ احتیاطی تدابیر صحت مند لوگوں تک پہنچیں، تاکہ وہ پہلے ہی مرحلے میں اس بیماری کے وار سے محفوظ رہ سکیں۔ کینسر سے لڑنے سے پہلے کینسر سے بچنے پر کام کرنا زیادہ ضروری ہے۔یہ ذمہ داری سب سے زیادہ اطباء، ماہرینِ صحت اور میڈیکل کے پیشہ وروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے محض پیشہ نہیں بلکہ ایک فرض سمجھتے ہوئے لوگوں کو بروقت آگاہ کریں۔ اس مقصد کے لیے آگاہی کیمپ منعقد کیے جائیں، معلوماتی لٹریچر عام کیا جائے، اور مختلف مقامات پر ایسے بورڈ نصب کیے جائیں جن پر اس بیماری کے اسباب، خطرات اور احتیاطی تدابیر واضح طور پر درج ہوں،یوں معاشرے کے افراد اس موذی اور جان لیوا مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں، اور ہم سب مل کر ایک صحت مند اور باخبر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔




