بہار الیکشن : بی جے پی کے مقدر کا فیصلہ

بلکہ اب یہ موضوع نیشنل کے بجائے انٹرنیشنل بن گیا ہے، خیر اب تو وقت بھی بہت کم ہے اور آئندہ ہفتہ بروز 8 نومبر بروز اتوار اس کا فیصلہ ہوجائے گا کہ بہار اسمبلی کا نگہبان کون ہے ۔ بہار الیکشن کیلئے جتنے نعرے تبدیل ہوئے اتنے تو لوک سبھا کیلئے بھی نہیں ہوتے ہیں، ابتدا میں بی جے پی کی طرف سے بہار کی ترقی کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے گئے اور وزیر اعظم نے بہار کیلئے سوا لاکھ کروڑ کے خصوصی پیکج کا بھی اعلان کردیا، جگہ جگہ بڑے بڑے بورڈ آویزاں کئے گئے لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ اس اعلان میں بھی جھول پڑ گیا اور ترقی کے موضوع سے ہٹ کر ہندوستانی سیاست کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں اور دشنام طرازیاں شروع ہوگئیں، ریلیوں میں عوام کی کثرت اپنے پسندیدہ لیڈروں کی زبان سے حزب مخالف کے خلاف الزامات پر دل کھول کر نعرے بازی کرنے لگے۔ عوام بھی کافی حدتک ترقی کے ایجنڈے سے غافل ہوئی جبکہ لیڈروں کا اصل مقصد یہی تھا کہ عوام کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے، لیکن ہوا اس کے برعکس، عوام کو اپنی غلطی کا احساس تو بروقت ہوگیا لیکن لیڈران کو ان کی خوش فہمی دغا دے گئی، غالباً یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی انتھک کوششوں کے باوجود سیاسی پنڈت سیکولر اتحاد کے جیت کی پیشین گوئی کررہے ہیں، بہار کے عوام معاشی اعتبار سے تو پسماندہ ہیں لیکن سیاسی شعور میں ان کا ہم پلہ بمشکل کوئی ریاست ہوسکتی ہے۔ 
بہار کی سیاست میں اس وقت ایک نیا بھونچال آگیا جب بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے کہا کہ اگر بہار میں بی جے پی ہار گئی تو پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے اور جیل میں بیٹھے شہاب الدین کو خوشی ہوگی، اس دماغی فتور کے علاوہ اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے کہ بہار جیسے پسماندہ صوبہ جس کی خود اندرون ملک خاطر خواہ پذیرائی نہیں کی جاتی ہے اور نہ ہی یہ گجرات، مہاراشٹر، اور دیگر ترقی یافتہ صوبوں کی مانند قدرتی وسائل اور کمپنیوں سے مالا مال ہے، نہ یہ ہندوستان کی راجدھانی ہے اور نہ ہی سیکولر اتحاد کے لیڈروں کا پاکستانی سفارتخانے سے کوئی تعلق ہے، سیکولر اتحاد کے لیڈر نتیش کمار کسی ملکی پارٹی کے رہنما نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک ریاستی پارٹی کے لیڈر ہیں جو اپنے صوبہ میں ہی رہنے کو عافیت سمجھتے ہیں، اور یہ بات کہ پاکستان میں پٹاخے پھوڑے جائیں گے سیکولر اتحاد کے لیڈروں کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آیا ہوگا، لیکن کیا کیا جائے جب کسی کی مت ماری جاتی ہے تو اسے اپنے بھی غیر نظر آنے لگتے ہیں۔ اوریہ سب اس وقت ہوتا ہے جب انسان ذہنی طور پر ہار تسلیم کرلے ان کا یہ بیان ان کے اندر کے ہار کو واضح کررہا ہے۔ 
اس الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے تمام پارٹیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے، ابتداء میں جب ملائم سنگھ سیکولر اتحاد سے الگ ہو کر تیسرے محاذ کی بنیاد رکھی تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کا خاطر خواہ اثر سیکولر اتحاد پر پڑے گا اور بی جے پی اس سے براہ راست فائدہ حاصل کرلے گی لیکن عوام نے ملائم سنگھ کو اتر پردیش تک ہی محدود رہنے کا مشورہ دے دیا جہاں بیٹھ کر وہ اپنی سیاسی دوکان کو چمکاتے رہے، اسی طرح اویسی صاحب کی غیر متوقع آمد سے بھی ہلچل مچ گئی تھی لیکن اویسی صاحب کے بروقت قابل ستائش فیصلہ نے عوام کو ایک بہت بڑی الجھن سے چھٹکارا دلادیا، اور اب مقابلہ براہ راست بی جے پی بنام سیکولر اتحاد ہوچکا ہے۔ الیکشن کے ابتدائی دنوں میں مقابلہ بہت کانٹے کا محسوس کیا جارہا تھا لیکن سیاسی پنڈتوں کی مانیں تو ملک میں یکے بعد دیگرے حادثات نے بی جے پی کی شبیہ کو بہت زیادہ متاثر کردیا ہے، دادری میں اخلاق کی شہادت کے بعد ادیبوں کے ایوارڈ لوٹانے کا سلسلہ شروع ہوگیا جسے حکومت نے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تھی اور وزیراعظم کے چند ایک ہم نشینوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ لکھنا چھوڑ دو، پھر ہریانہ میں ہوئے دلت کنبہ پر حملہ اور وی کے سنگھ کی زبان نے بہار میں بسنے والے دلتوں کیلئے لمحہ فکریہ پیدا کردیا کہ جس حکومت کے مخصوص لوگوں کی یہ ذہنیت ہے تو ان عوام کی ذہنیت کتنی گندی ہوگی۔ 
خیر بہار الیکشن میں ہار کس کی ہوتی ہے اور جیت کس کی، کون اس جنگ کا سکندر ٹھہرتا ہے وہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن جس طرح سے بی جے پی خیمے میں ہل چل مچی ہوئی ہے اس سے تو یہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی ہار تسلیم کرلی ہے اور ہار کا ٹھیکرا کسی کرن بیدی پر پھوڑنے کی جوڑ توڑ شروع ہوگئی ہے امت شاہ کو ہزیمت سے بچانے کے لئے ان کی اُمت کے پیروکار سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اگر واقعی بہار میں ہار ہوتی ہے تو پاکستان تو دور کی بات بی جے پی خیمے میں بھی پٹاخے پھوڑے جائیں گے اور وہ پٹاخے کوئی اور نہیں بلکہ ان کے ہی سینئر رہنما ایل کے اڈوانی ، منوہر جوشی ، ستروگھن سنہا وغیرہ پھوڑیں گے۔ کیوں کہ جس طرح سے انہیں پارٹی سے نظر انداز کرکے یتیم بنایاگیا ہے وہ تو واقعی مہا گٹھ بندھن کی جیت پر خوشی کے شادیانے بجائیں گے۔ اور بجانا بھی ضروری ہے جس نے اپنے خون جگر سے رتھ یاترا جیسی عظیم یاترا کے ذریعہ ہندوؤں کو ایک کیا آج اسی کو پارٹی نے نظر انداز کرکے ترقی کرنا چاہتی ہے۔ بوڑھا شیر خطرناک ہوتا ہے اور اس خطرناکی کا علم جلد ہی بی جے پی کو معلوم ہوجائے گا۔ 

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے