تمام پارٹیاں اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرچکی ہیں۔ اصل مقابلہ این ڈی اے اور مہا گٹھبندھن کے بیچ دکھائی دیتا ہے۔اب جب کہ الیکشن میں چند دن باقی بچے ہیں تو سیاسی پارٹیوں کے بیچ اختلافات سامنے آرہے ہیں۔ ٹکٹ کی تقسیم پر ناراضگیاں ہیں اور پارٹی بدلنے کی دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ بی جے پے ممبرپارلیمنٹ آر کے سنگھ نے حال ہی میں اپنی پارٹی پر الزام لگایا کہ پیسے لے کر غیرسماجی عناصر کو ٹکٹ بانٹے گئے ہیں۔ ان کے اس الزام کو دوسرے ممبر پارلیمنٹ شتروگن سنہا کی حمایت ملنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ خیر یہ سب تو چلتا رہتا ہے مگر سب سے زیادہ اختلافات کا شکار ’سیکولر‘ اتحاد ہے۔ مبینہ سیکولر پارٹیاں الیکشن سے قبل ہی ایک دوسرے سے برسربیکار نظر آرہی ہیں۔ جنتادل (یو) ، راشٹریہ جنتادل نے اسمبلی کی 243سیٹوں میں سے 101/101پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ کانگریس41سیٹوں پر چناؤ لڑ رہی ہے۔ٹکٹ کی تقسیم کے مرحلے میں سب سے زیادہ توجہ یادو امیدوارں کو ملی ہے جب کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی سے کم ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔گویا مسلمانوں کو مساوی حق دینے کی بات کرنے والی پارٹیاں پہلے مرحلے میں ہی امتحان میں فیل ہورہی ہیں۔مہاگٹھبندھن کے مقابلے ایک دوسرا سیکولر اتحاد کمیونسٹ پارٹیوں کا ہے، جب کہ ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی، مہاگٹھبندھن کا ووٹ کاٹنے کے لئے تیسرا محاذ بناکر میدان میں ہے ۔ اسی کے ساتھ اسدالدین اویسی بھی مسلم اکثریتی سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ اب انتخابی ضابطہ اخلاق بھی لاگو ہوچکا ہے مگر اس کے نفاذ سے محض دو دن قبل نتیش کمار نے مسلمانوں کو راغب کرنے کے لئے کچھ مدرسوں کو گرانٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کام کو وہ دس سال میں نہیں کرپائے،اب اویسی کے خوف میں عین الیکشن کے وقت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
انتخابات کی تاریخوں کا اعلان
بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر نسیم زیدی نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ انتخابات 5 مراحل میں ہوں گے۔ ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 12 اکتوبر سے شروع ہوگا۔ کل 243 سیٹوں کے لئے انتخابات کرائے جائیں گے۔پہلا مرحلہ 12 اکتوبرکو شروع ہوگا جس میں 49 اسمبلی سیٹوں کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔اس مرحلے میں سمستی پور، بیگوسرائے، بھاگلپور، کھگڑیا،بانکا، لکھی سرائے، مونگیر، شیخ پورہ، نوادہ اور جموئی میں ووٹنگ ہوگی جب کہ دوسرا مرحلہ 16 اکتوبر کو ہوگا جس میں 32 اسمبلی سیٹوں کے لئے ووٹ پڑینگے۔ اس مرحلے میں روہتاس، اورنگ آباد، کیمور اور جہان آباد میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔تیسرے مرحلے کی ووٹنگ 28 اکتوبر کو ہوگی جس میں 50 اسمبلی سیٹوں کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اس مرحلے
میں شامل اضلاع ہیں سارن، ویشالی، نالندہ، پٹنہ، بھوجپور اور بکسر۔چوتھا مرحلے میں یکم نومبر کو 55 اسمبلی سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہوگی۔ اس مرحلے میں مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، شیوہر، سیتامڑھی، مظفر پور، گوپال گنج اور سیوان کے اضلاع شامل ہیں۔پانچواں اور آخری مرحلہ 16 نومبرکو ہے جس میں 57 اسمبلی سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہوگی۔ اس مرحلے میں دربھنگا، کشن گنج، سپول، کٹیہار، مدھے پورا، سہرسہ، ارریہ، مدھوبنی اور پورنیہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ غور طلب ہے کہ پچھلی بار بھی اکتوبر نومبر میں ہی الیکشن کرائے گئے تھے۔ بہار میں اسمبلی کی مدت 29 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے نئی حکومت کی تشکیل 29 نومبر سے پہلے ہی ہونی ہے۔بہار میں کل 6.68 کروڑ ووٹرہیں جب کہ کل نشستیں 243ہیں ،جن میں سے 38 نشستیں ایس سی کے لئے ریزرو ہیں اور2 سیٹیں ایس ٹی کے لئے ریزرو ہیں۔16 ستمبر سے شروع ہوگا انتخابی عمل مگر الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی انتخابی ضابطہ اخلاق لاگو ہوگیا ہے۔پہلی بار EVM میں ہوگی امیدواروں کی تصویر۔
مسلمانوں کی بھی یاد آئی
بہار میں عنقریب ہونے والے انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے مسلم ووٹ بینک کو متاثر کرنے کے لئے بڑا اعلان کیا ہے۔ اب جب کہ انتخابات بالکل سر پر ہیں تو اس نے ریاست کے 609 مدرسوں کو گرانٹ دینے کا اعلان کیاہے۔ یہ اعلان انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے محض دو دن قبل آیا۔محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ریاست مدرسہ تعلیم بورڈ میں کل 2459 مدرسے رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے 609 کو منتخب کیا گیا ہے۔ ان 609 مدارس میں کام کرنے والے تمام اساتذہ اور ملازمین کو حکومت کی جانب سے 1 ستمبر سے تنخواہ دیا جائے گی۔نوٹیفکیشن کے مطابق، اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہ مدرسہ بورڈ کے ذریعے ملے گی۔ اس کے لئے ریاست کے محکمہ خزانہ نے تیاریاں کر لی ہیں۔ جن مدرسوں کو منتخب کیا گیا ہے ان میں سے اکثر ارریہ، مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن، کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ، مدھوبنی، سیتامڑھی، سپول، سیوان، سمستی پور اور بانکا ضلع میں ہیں۔غور طلب ہے کہ اس سے پہلے 27 اگست کو سینکڑوں مدرسہ اساتذہ نے دو سال سے بقایا رقم نہ ملنے پر مظاہرہ کیا تھا جن پر نتیش کمار کی پولس نے لاٹھیاں برسائی تھیں۔
سیکولر ووٹوں کی تقسیم طے
بہار میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم طے نظر آتی ہے ۔ ایک طرف جہاں مجلس اتحادالمسلمین نے یہاں اپنے امیدوار اتارہی ہے، وہیں دوسری طرف ملائم سنگھ یادو نے جنتا پریوار سے الگ ہوکر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ این سی پی بھی سیٹوں کی تقسیم سے خوش نہیں ہے لہٰذا وہ بھی ملائم سنگھ کے اتحاد میں شامل ہوگئی ہے،مگر اسی بیچ بہار اسمبلی انتخابات میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) اور جنتا دل یونائیٹڈ کے قیادت والے مہاگٹھبندھن سے مقابلے کے لئے تیسرے مورچہ کی تشکیل کی کوشش کے درمیان چھ بائیں جماعتوں نے زیادہ تر نشستوں پر مل کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہار میں یہ پہلی بار ہوگا جب لیفٹ مکمل طور پر نشستوں کا معاہدہ کر
الیکشن لڑیں گے۔ بھارتی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آئی)، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم)، بھارت کی کمیونسٹ پارٹی (مارکسوادی لینن وادی)، سی پی آئی (ایم ایل)، آل انڈیا فارورڈ بلاک، سوشلسٹ یونٹی سینٹر آف انڈیا (ایس یو سی آئی) اور انقلابی سوشلسٹ پارٹی (آر ایس پی) کے رہنماؤں نے مشترکہ طور پر میدان میں اتر کر نریندر مودی اور نتیش کمار کو چیلنج دینا طے کیا ہے۔
انتخابات اہم کیوں؟
بہار انتخابات دو وجوہات سے اہم ہیں۔ سب سے پہلے، اس انتخاب میں وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کی جوڑی کے کرشمے کا امتحان ہو گا اور دوسرا ان انتخابات سے ملک کی سیاست کی سمت طے ہوگی۔ اس انتخاب سے پہلے دہلی انتخابات میں بی جے پی کو کراری شکست ملی تھی۔ تاہم دہلی ایک ریاست سے زیادہ ایک شہر ہے، لہٰذا ملک کی سیاست پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑتا ہے۔ بہار انتخابات کے نتائج سے یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ گزشتہ سال کے مقابلے نریندر مودی کی لہر اور مقبولیت میں کیا تبدیلی آئی ہے ؟
بہار انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد کانگریس پر ’سیکولر‘ جماعتوں کو متحد رکھنے کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی کانگریس نائب صدر راہل گاندھی بھی اب بہار میں اپنے انتخابی دورے بڑھانے والے ہیں۔بہار انتخابات میں کانگریس صرف41 سیٹوں پر لڑ رہی ہے باوجود اس کے پارٹی کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔کانگریس بہار میں کچھ خاص حاصل نہیں کرسکتی مگر اس کی چناؤ میں دلچسپی کا اہم سبب یہ ہے کہ اس کا مستقبل بہت حد تک یہاں بی جے پی کی شکست پر منحصر ہے۔ بی جے پی کی شکست مودی کی شکست مانی جائے گی اور آئندہ مختلف ریاستوں میں ہونے والے انتخابات پر اس کا اثر پڑے گا۔ اسی کے ساتھ سب سے خاص پہلو یہ ہے کہ پورے ملک میں مودی لہر کے خاتمے کا پیغام بھی جائیگا۔
جواب دیں