تاکہ ریلیوں میں خاطر خواہ اضافہ کیاجاسکے اور میڈیا کوریج میں بھیڑ دکھائی جاسکے جس سے بہار کے عوام میں یہ عندیہ جائے کہ ان کی مقبولیت بہت ہے۔ لیکن بہار عوام کے فیصلے نے ثابت کردیا کہ ابھی ان میں سیکولرازم زندہ ہے۔ انہیں محبت کرنے والے لیڈروں کی ضرورت ہے نفرت کی بیج بونے والے کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ نتیش کمار کیلئے ترقی کے ایجنڈے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی اہم مسئلہ درپیش ہے جس پر اگر بروقت نکیل نہیں کسی گئی تو بہار عوام بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے، ملک میں مرکزی حکومت کی تبدیلی کے بعد جو حالات میں تبدیلی آئی ہے اور جس طرح فرقہ پرست اور ملک مخالف عناصر بے لگام ہوئے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، نتیش کمار کیلئے ان بے لگام ہوتے ملک مخالف عناصر پر لگام کسنا ضروری ہے، یہ مٹھی بھر فرقہ پرست لوگ اس حکومت کو بھی حاشیہ پر لاکر کھڑا کرنا چاہیں گے، اسلئے قانون مخالف کسی بھی طرح کی کوئی سرگرمی نظر انداز نہیں کی جائے۔
جس طرح عوام نے نتیش کمار پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ برقرار رکھنے کیلئے عوام سے کئے گئے وعدے کو بروئے کار لایا جائے، بہار الیکشن میں جس طرح مسلم عوام نے متحد ہوکر عظیم اتحاد کو ووٹ دیا ہے اس کاانہیں صلہ بھی ملنا چاہیے اور حکومت میں مسلم چہروں کی طرف خاطر خواہ توجہ ہو تاکہ مسلمانوں کا اعتماد برقرار رہے اور وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس نہ کریں۔قابل مبارکباد ہے بہار والے جنہوں نے اپنی یکجہتی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ملک میں پنپ رہے فرقہ پرستوں کو ان کی اوقات بتادی ہے، جس طرح مسلمانوں اور غیر مسلم بھائیوں نے ایک ہوکر اتحاد کو ووٹ دیا ہے وہ قابل ستائش ہے، مسلمانوں کا تقریباً نوے فیصدووٹ اتحاد کی جھولی میں گیا ہے اور اس مرتبہ صرف اتحاد سے 25 مسلم امید وار منتخب ہوکر آئے ہیں، ایسے میں اگر ان کی خاطر خواہ پذیرائی کی گئی تو اس کا مثبت اثر پورے مسلم کمیونٹی پر جائے گا اور مسلمان خودکو حکومت کا ایک اہم حصہ دار تصور کریں گے نا کہ کرایہ دار۔
اس الیکشن کے ذریعہ جو بہار عوام نے پورے ملک کو پیغام دیا ہے وہ صرف خوشی منانے یا تبصرہ کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ اس پر عمل پیرا ہوکر اس ملک سے فرقہ پرستوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے متحد ہونا ضروری ہے، علاقائی پارٹیاں آپس میں ایک دوسرے سے لوہا لینے کے بجائے ایک دوسرے سے ملکر ملک مخالف عناصر کے خلاف صف آراء ہوجائیں، اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو گہن لگنے سے بچائے، فرقہ پرستوں کو یہ بتلادیں کہ یہ دیش گاندھی، آزاد کا ہے یہاں نتھو رام کے چیلوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے، اس چمن کی زینت تمام پھولوں سے ہے یہاں کسی ایک اجارہ داری نہیں ہے، اس دیش میں محبت کا تاج محل آباد ہے یہاں نفرت کی مندر نہیں بنائی جاسکتی ہے، یہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے بھائی ہیں مٹھی بھر بلوائیوں سے خوفزدہ نہیں ہوسکتے ہیں، یہاں مسجد کی تعظیم ہوتی ہے تو یہاں مندر بھی اپنی شان سے ایستادہ ہے یہاں چرچ اور گردوارہ میں محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے، تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کیلئے آزاد ہیں، یہاں کسی کے دل میں کسی کے خلاف نفرت و کدورت نہیں پنپ سکتی ہے،بہار الیکشن کیلئے جس طرح کا ماحول بنایا گیا تھا اگر بہار والے اپنی خداداد صلاحیت کا استعمال نہیں کرتے تو یہاں بھی کئی ایک مظفر نگر منصہ شہود پر آجاتا، الیکشن کی ابتداء ترقی اور اچھی حکومت کے نعروں سے ہوئی لیکن رفتہ رفتہ ملک مخالف عناصر اپنی پرانی روش پر آگئے، یہاں بھی وہی نسخہ آزمانا چاہا جسے وہ برسوں سے گجرات میں اپناتے آرہے ہیں، لوگوں کو ذات پات اور مذہب کے نام پر بانٹنے کی ناپاک کوشش کی لیکن بہار کے عوام نے انہیں ایسا سبق سکھایا کہ وہ منھ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ہندوستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک وزیراعظم اپنی دلی چھوڑ کر اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اسٹیٹ فتح کرنے کیلئے نکلے تھے لیکن افسوس کہ عوام نے وزیراعظم کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ عوام کی وسعت ظرفی کہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم کی ریلیوں میں لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوتے رہے تاکہ گھر آئے مہمان کو شرمندگی محسوس نہ ہو، اور ہر نعرے میں برابر کے شریک بنے تاکہ ان کی آواز نہ دب جائے، بڑے بڑے اعلانات پر دل کھول کر تالیاں بجائی گئی اس یقین کے ساتھ کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو لوک سبھا انتخاب کے وعدے پورے نہیں کرسکا وہ اسمبلی الیکشن میں کئے ہوئے وعدہ کیسے پورا کریگا، ترقی کے نام پر خود کو ڈھگا ہوا محسوس ہونے پر ریزرویشن اور گائے کو موضوع انتخاب بنایا گیا لیکن اس بار تو گاؤ ماتا نے بھی ایسی دولتی ماری کہ چارو ں خانے چت ہوگئے۔ بہار کے عوام میں سیاسی بیداری موجود ہے، محض وعدوں پر عوام کو بہلایا اور پھسلا یا نہیں جاسکتا ہے، عوام کو ایسا لیڈر چاہیے جس میں کام کرنے کی قابلیت ہو، جو عوام کے دکھ درد کو سمجھنے کی کوشش کریں، جو زمینی قائد کے طور پر عوام کے درمیان رہے، عوام کو کسی تانا شاہ کی ضرورت نہیں ہے جو ملکوں ملکوں گھومے اور تحفہ میں عوام کو مہنگائی دے، جو بات تو ہمیشہ وکاس کی کرے لیکن کام کا ہمیشہ ستیاناس کرے، جو چند مخصوص طبقہ تک خود کو محصور کرلے، اور یہ تصور کرلے کہ پورا ہندوستان انہیں چند گھرانوں پر مشتمل ہے، عوام کے مسائل سے چشم پوشی آخر عوام کب تک اسے برداشت کرتے رہیں گے، کب تک محض وعدوں پر جیتے رہیں گے، کب تک پندرہ لاکھ کے انتظار میں بیٹھے رہیں گے،اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو ابھی تو صرف دلی اور بہار کا نتیجہ آیا ہے بنگال اور اترپردیش، آسام اور تمل ناڈو کے نتائج بھی یہی ہونگے، بلکہ اس سے بھی زیادہ ذلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اگر بی جے پی اور اس کے آقاؤں نے اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں پیدا کی، ملک کے بگڑتے حالات پر لگام نہیں کسا تو یہ چند بے لگام گھوڑے پوری گاڑی کو گنگا میں ڈُبا دیں گے۔
بہار الیکشن کا نتیجہ دراصل جمہوریت کی جیت ہے، وحدت میں کثرت کی زندہ مثال ہے، جہاں ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کیلئے آزاد ہوتے ہیں، جہاں قانون کو بالادستی حاصل ہوتی، قانون کے رکھوالے ذات پات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتے ہیں بلکہ جمہوری قانون کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، عدالت میں بیٹھے منصف قانون کی بولی بولتے ہیں کسی سنگھی کا راگ نہیں الاپتے ہیں،فرقہ پرستی کے دلدادہ ملک مخالف عناصر کو اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ اب ان کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، دلی میں بیٹھ کر پریورتن کی گنگا بہانے والے نہ تو جمنا پار کرسکے نہ ہی گنگا میں اشنان کرنے کی مہلت ملی، جھوٹ کی کھیتی زیادہ دنوں تک بوئی نہیں جاتی ہے، اس کے نتائج ہمیشہ خلاف توقع ہوتے ہیں، جھوٹ سے انسان ایک بار دھوکہ تو کھاسکتا ہے لیکن ہر بار نہیں اور اس بار بہاریوں نے بتلادیا کہ سیاسی بیداری میں گجرات ہمارے ہم پلہ تو درکنار ہمارے آس پاس بھٹکنے کے لائق بھی نہیں ہے، اور نہ بہار والوں نے گجرات ماڈل کو قبول کیا جہاں ہاردک پٹیل نے حکومت کی نیند اڑا رکھی ہے، جہاں آئے دن لوگوں کی موبائل انٹرنیٹ سروس بند کردی جاتی ہے اور عوام کو جمہوریت سے نکال کر ڈکٹیٹر شپ کے قبول کرنے کا عادی بنایا جارہا ہے۔بہت ممکن ہے کہ فرقہ پرست اب بہارمیں تشددکاماحول پیداکریں،مودی نے گھوم گھوم کرجوآگ لگانے کی کوشش کی ہے ،اس کی گرمی ابھی تک باقی ہے۔ضرورت ہے کہ مسلمان خودبیداررہیں اورریاستی حکومت سے بھی امیدکی جاتی ہے کہ وہ نکیل کسنے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھیں گے۔(
جواب دیں