ارشد حسن کاڑلی
دمام ، سعودی عربیہ
آج 29 نومبر کو کرناٹک کے شہر باگلکوٹ میں مشاعرہ طئے کیا گیا تھا۔ مشاعرے کی صدارت میرے عزیز دوست عزیز الدین عزیز بلگامی کرنے والے تھے۔ مگر تقدیر کا لکھا ہوا کون ٹال سکتا ہے۔ کل ہمارے شہر بھٹکل کے معروف و معتبر واٹس ایپ گروپ محاسن اموات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عزیز بلگامی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جیسے ہی میں نے یہ خبر پڑھی میرا ذہن ابھی چند دنوں پہلے 21 نومبر 2025 کو ان کے لکھے ہوئے ایک قطعہ کی طرف گیا جو عزیز بھائی نے اپنے کسی دوست کی رحلت پر لکھا تھا۔ ظاہر ہے عزیز دوست کی رحلت پر میرے تاثرات کے لئے اسی قطعہ کا پہلا مصرعہ عنوان بن گیا۔
عزیز بلگامی کا پہلا تعارف زمانہ طالب علمی میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب میں اور میرے ہم جماعت و پڑوسی رحمت اللہ راہی اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول میں نہم جماعت میں پڑھتے تھے۔ ہم دونوں اردو شاعری کی طرف مائل ہو کر اپنی علمی پیاس بجھانے شاعر بھٹکل محمد حسین فطرت صاحب مرحوم کے در پر حاضر ہوئے۔ اس دور میں مولوی زبیر مارکیٹ، سوید نوری مرحوم، اور دیگر افراد سے کارواں سخن نامی ایک لائیبریری میں ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ یہ لائیبریری حکیم عبداللہ صاحب حاجی فقیہ کے مکان کے ایک کمر ے میں واقع تھی۔
اس دور میں ہمیں معلوم ہوا بلکہ میں نے وہ خطوط بھی دیکھے جس میں عزیز بلگامی صاحب نے اپنی کاوشیں بطور اصطلاح فطرت صاحب کو ارسال کی تھی۔ یہ ان کی شاعری کا ابتدائی دور تھا۔
ان کا تعلق بیلگام ضلع (موجودہ نام بیلگاوی) ضلع میں بیلگاوی شہر سے تقریباً سوا سو کلومیٹر دور صوفیاء کی سرزمین کڑچی سے تھا۔ اتفاقاً ہماری معروف معلمہ رابعہ ٹیچر زوجہ محترمہ عثمان حسن جوباپو مرحوم بھی اسی علاقہ سے تعلق رکھتے تھیں بلکہ ان کی عزیز بلگامی صاحب سے قرابت داری بھی تھی۔ چنانچہ جب میں نے انہیں رابعہ ماسٹرنی کے انتقال کی اطلاع دی تو جواباً ان کے نام کے ساتھ آپا لکھ کر جواب دیا تھا۔
آج سے تقریباً آٹھ دس سال پہلے میری جڑواں بچیوں سے تقاضا آیا کہ ان کے اسکول میں اردو نظم پڑھنے کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے اس سلسلے میں انہیں میری رہنمائی درکار ہے۔ میں نے انہیں عزیز بلگامی کی مشہور نعت دعوت و ہدایت کی ایک حسین شفق لے کر میرے مصطفیٰ آئے، میرے مصطفیٰ آئے پڑھنے کی ترغیب دی اور انہوں سے اس کی تیاری کی۔ یہ نظم مقابلہ میں پورے منطقہ شرقیہ میں دوم انعام کی حقدار قرار پائی۔ چند ہفتوں بعد راحت اندوری مرحوم اور دیگر موقر شعراء کی نشست بمقام جبیل میں انہیں اس نظم کے پڑھنے مدعو کیا گیا۔ بعد میں عزیز بلگامی صاحب کو اس بات سے آگاہ کیا تو پسندیدگی کا اظہار کیا۔
میرے بھتیجے عبدالباعث ابن عبد الباسط کاڑلی کے یونیورسٹی میں چھ 6 گولڈ میڈل لینے کی تصویر انہیں ارسال کی تو انہوں نے ایک موزوں قطعہ لکھ بھیجا۔
ابھی حال ہی میں اگست میں میری دختر کی شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے متمنی تھے۔ مگر صحت اجازت نہیں دے رہی تھی۔
دراصل میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے داماد و انڈمان کے انگریزی صحافی پی۔ کے۔ محمد زبیر کی جولائی 2022 ء میں وفات کے بعد سے کچھ بجھ گئے تھے۔ البتہ اپنا غم ظاہر نہیں کرتے تھے۔
آج کل ان کے چاہنے والے ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے تھے۔ اس مناسبت سے ان کے قطعات بھی پڑھنے مل رہے تھے۔
عزیز بلگامی پر بہت کچھ لکھا جائیگا۔ ان کے چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ فکر و فن، شعر و سخن، سخنور انٹرنیشنل اور پتہ نہیں کتنی ادبی اور شعری مجالس کے روح رواں تھے۔
ایک ریسرچ اسکالر فاطمہ داروغہ نے عزیز بلگامی کی حیات و خدمات کے موضوع پر ڈاکٹر سلیمہ بی کولور کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کر کے کرناٹک یونیورسٹی دھارواڑ کو پیش کیا تھا۔
اس پر موصوفہ کو کرناٹک یونیورسٹی کی جانب سے 2023ء میں اردو میں ڈاکٹر آف فلاسفی ( پی ایچ ڈی) کی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔
آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا بطور مدرس کی تھی۔ پھر آپ اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے منسلک ہو گئے۔ دینی فکر جب غالب آ گئ تو بینک کی نوکری کو خیر باد کہا۔ اس پر ایک نظم بھی لکھی تھی۔ دعا ہے کہ ان کا یہی عمل اللہ تعالیٰ ان کی آخرت میں نجات و کامیابی کا سبب بنائے۔




