یہ دنیا ہمہ رنگ ہے اور اس کی یہ ہمہ رنگ یقینا خوش گوار ہے۔انسانی معاشرہ میں یہ ہمہ رنگی اس طور پر نظر آتی ہے کہ کوئی امیری ہے تو کوئی غریب ہے۔انسانی معاشرے کا تنوع اس میں پوشیدہ ہے کہ اس میں بسنے والے لوگوں کی زندگیا ں مختلف حوالوں سے متنوع ہوتی ہیں۔اسی معاشرہ میں کوئی بہت خوش گوار زندگی گزار تا ہے تو اس میں رہتے ہوئے کوئی فرد بہت مغموم زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔زندگی کا یہ تنوع ہر فرد کی اپنی مقدر کردہ تقدیرسے نسبۃً کم اور اس کے دنیاوی حرکات و سکنات سے زیادہ متعلق ہوتا ہے۔ویسے پوری دنیائے انسانیت کے اہل فکر و نظر کا متفقہ طور پر ماننا ہے کہ کسی بھی انسان کی نیکیوں اور اچھے و قابل قدر کارناموں سے سب سے کم خوش ہونے والی ذات اگر کوئی ہے تو اس کی بیوی ہوتی ہے۔ جب کہ یہ بھی اسی دنیاکے ہی اہل نظر کا ماننا ہے کہ بیوی شوہر کے جذبات واحساسات کا احترام کرکے ہی اس کے دل میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔وہی عورت اس معاشرہ میں زیادہ خوش حال اور خوش وخرم ہے جو اپنے شوہر کا بہر صورت لحاظ رکھتی ہے اور اس کو اپنا قائد تسلیم کرتی ہے۔جب کہ وہ بیوی جو شوہر کو اپنی صفات حسنہ اور ادائے دل نوازی کے بجائے متنوع اور مختلف طعنہ و تشنیع کے ذریعہ اپنا بنانے کی فکر میں الجھ جاتی ہے تو وہ بہر صورت نہ صرف یہ کہ اپنے شوہر کی نظروں سے ہمیشہ ہمیش کے لیے گرجاتی ہے بلکہ اس کی یہ دنیاوی زندگی بھی ایک قسم کا عذاب بن جاتی ہے۔کیوں کہ اس کی بیویانہ حرکتوں کی وجہ سے دل برداشتہ ہو کربظاہر شوہر زمانے کے تبصروں اور اپنے خانہ زاد شمنوں سے حتیٰ الامکان محفوظ رہنے کی غرض سے اپنی بیوی کے تمام حقوق یک گونہ شفقت سے ادا تو کرتے ہیں مگر اس کے دل کو جوٹھیس پہونچی ہوئی ہوتی ہے اس کے زہریلے اور دیمکانہ اثرات رفتہ رفتہ اس(شوہر) کے دل میں اس(بیوی) کے تئیں ایک دیرینہ اور تاحیات باقی رہنے والی چبھن کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔جب کہ یہ ابھاگن بیوی اپنی سابقہ غلطیوں کے تکلیف دہ اثرات کی تلافی کرنے اور ان کے ازالے کے لیے ہمہ جہت کوشاں رہنے کے بجائے اپنی اس جھوٹی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی چہیتی بن چکی ہے اور اس کے ہمدردوں وخوش ظاہر و بد باطن مخلصوں کے سخت ترین بول کام کرگئے۔حالانکہ اس کی اصل وقعت وہی ہوتی ہے جو اس کے پس پشت ہوتی ہے۔میر تقی میرؔ نے اس کیفیت کی سوفیصدی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے کہ سن تو سہی جہا ں میں ہے ترا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ”ایک عورت کی نظر میں شادی کے بعد کسی بھی شادی شدہ عورت کی کامیاب ازدواجی زندگی کی اصل خوبصورتی یہ ہے کہ اس کو بہت زیادہ پیار کرنے والا اور زیادہ سے زیادہ خوش حال ومالدار شوہر مل جائے جو نہ صرف یہ کہ اس سے بہت پیار کرے بلکہ اس کی عزت کرتے ہوئے اس کی تمام خواہشات کو پورا بھی کرے۔اس طرح اسے شوہر کی جانب سے ملنے والے پیار کی صورت میں بڑی خوشی میسر،اس کی جانب سے ملنے والی عزت کی صورت میں بڑی راحت اور اندرون خانہ ملنے والی مطلوبہ ازدواجی رنگت اسے وہ سب کچھ عطا کرتی ہے جو ایک شادہ شدہ عورت کا من پسند اثاثہ ہوتی ہے، جب کہ اسی بنیاد پر اسے زندگی جینے کی امنگ حاصل ہوتی اور معاشرتی زندگی میں اسے ایک خاص قسم کی خود اعتمادی ہوتی ہے،ورنہ وہ ایک محض زندہ لاش بن جاتی ہے،جس سے اس کے قدموں میں اضمحلال آجاتا اور اس کی باتوں میں عدم اعتمادی بہرحال پیدا ہوجاتی ہے“۔ جب عورت کی خوش نصیبی یا بدنصیبی کا معیار یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی چہیتی ہے یا اس کی مطرود نظر اگر چہیتی ہے تو وہ خوش نصیب اور اگر مطرود نظر ہے وہ بہر حال بد نصیب ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ایک عورت بحیثیت بیوی خوش نصیب یا بد نصیب کب اور کیوں ہوجاتی ہے؟ تو اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ عورت جب بیوی کی حیثیت سے بنیادی اوصاف اور لازمی خصوصیات سے متصف ہوتی ہے تو اُسے وہ مقام مل جاتا ہے جس کی وہ حقدار ہوتی ہے۔ پھر وہ ایک کامیاب عورت، بامراد بیوی،خوش نصیب دولہن اور بہترین بہو تسلیم کی جاتی ہے۔مگر جب یہی عورت بحیثیت بیوی اپنے شوہر کی فرماں برداری کرنے کے بجائے حد سے زیادہ اپنی ہوشیاری دکھاتی ہوئی اپنے ہی شوہر کے تئیں اپنی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھانے اور شوہر کی نظر وں میں اپنی محبوبیب کاذبہ اور مقبولیت غیر صادقہ کو عام کرنے کی بے بنیاد جھوٹی من گھڑت باتیں اس طور پر پھیلانے لگتی ہے کہ اس کی محدود عقل اُنھیں شوہر سے اپنی محبت کا غمازسمجھتی ہے مگر چوں کہ وہ باتیں نتیجے کے اعتبار سے شوہر کی ذلت کا پس پردہ سبب ہوتی ہیں اس لیے ان باتو ں کا اثر یہ ہوتاہے کہ وہ رفتہ رفتہ شوہر کی نظر میں روز افزوں ذلیل اور کم تر متصور ہونے لگتی ہے۔ خوش نصیبی اور بدنصیبی دونوں ہی دراصل ایک شادی شدہ عورت کی ازدواجی میں بتکلف اختیار کی جانے والی دو الگ الگ اور بہت حد تک خودساختہ انمول چیزیں ہیں۔اگر اُسے واقعی اپنے شوہر کی محبت مطلوب اور اس کے دل میں اپنے لیے کسی بلند وبالا مقام کی دیرینہ خواہش ہے تو اُسے ہر وہ کام کرنا ہوگا جو شوہر کے حق میں فی الحقیقت نفع بخش ہے۔اس کے رشتوں کی غائبانہ اور حاضرانہ نہ صرف قدر کرنے بلکہ ان کے تحفظ میں خاطر خواہ حصہ لینے ہی سے اس کو قلبی سکون میسر ہوسکتا ہے۔کسی دوسری شادی شدہ عورت کی ازدواجی زندگی کی ظاہر و باہر خوشگواری پر ماتم گری کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ایک عقل مند عورت اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کی صرف اپنی عقل کا استعمال کر کے تعمیری کوشش کرے،کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالے جو اس کے شوہر کے کانوں تک کسی بھی طرح پہونچ جائے تو باعث تکلیف ثابت ہو۔ یا کوئی ایسی سماجی سرگرمی اس طرح کی انجام نہ دے لے کہ جب کبھی شوہر کو معلوم ہوتو اس کی دل برداشتگی کا سبب بن جائے۔انسانی معاشرہ میں اس بات کی تعلیم دی جانی چاہیے کہ بیوی کے آنے کے بعد شوہر کی زندگی میں صرف اور صرف یہ تبدیلی آتی ہے کہ اس کے لیے ایک ایسے رشتے کا اضافہ ہوتا ہے جو اس کی نسلی افزائش کا ذریعہ بھی ہوتا ہے،بقیہ جتنے رشتے اس کے پہلے سے قائم شدہ ہوتے ہیں وہ من وعن اپنے حال پر باقی رہتے ہیں۔مگر چونکہ معاشرے میں اس حقیقت سے آگاہی نہیں پائی جاتی ہے اس لیے ایک بیوی کا یہ سوچنا کہ، مجھ سے شوہر کی محبت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اس کے سارے رشتے میری شخصیت کے سامنے ہیچ اور بے معنی گرچہ نہ ہوں مگر مرجوح ضرور ہوں، ہر طرح کی پریشانیوں کا سبب اور ہر نوع کے اختلافات کا موجب بن جاتاہے۔ زندہ دل مرد کبھی اور کسی حال میں ایسی اوچھی حرکت نہیں کرسکتا کہ اپنی شادی کے بعد اپنے بھائی و بہنوں، ماں و باپ اور اپنے دیگر رشتہ داروں کی عزت و توقیر میں کسی طرح کی کوئی کمی کرے، خواہ اس کی بیوی کتنی ہی خوب صورت ہو۔عاشق ومعشوق والے شادی شدہ جوڑوں میں واقع ہونے والی طلاق کا بھی پس پردہ اصل سبب یہی ہوتا ہے کہ بیوی خود کو شوہر کی سب کچھ ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے اور دل میں جگہ بنانے کے بجائے سرپر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔نتیجے کے طور وہ ایک خوش نصیب بیوی سے بدنصیب بیوی کے پائیدان پر پہونچ جاتی ہے۔اس طرح نہ صرف یہ کہ کیک کی فکر میں روٹی چلی جاتی ہے اور کل کی طلب میں جزو بھی ہاتھ سے نکل جاتاہے۔جب کہ شوہر کی زندگی کی کتاب سے وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے الگ ہوجاتی ہے۔ غرض یہ کہ ازدواجی زندگی کی خوشحالی کا دار و مدار صرف اورصرف طرفین کے باہمی خلوص پر مبنی ہے۔جب تک ایک دوسرے کے مابین احترامی سرگرمیاں جاری وساری رہتی ہیں خوش قسمتی، خوش حالی، ہریالی،میل ملا پ، خیر سگالی اور اپنوں کی شفقتیں بھی میسر رہتی ہیں۔اس سلسلے میں مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر عائد بیوی کے حقوق کی ادائیگی نہایت ذمہ دارانہ انجام دے اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شوہر کے سارے حقوق خوب اچھی طرح خلوص اور سوفیصدی شفافیت کے ساتھ نبھائے۔اس کے سبھی رشتوں کا بہرحال احترام کرے اور اگر احترام کی توفیق اللہ کی طرف سے ُاسے نصیب نہ ہوتو کم سے کم ان کی بے توقیری تو نہ کرے۔ورنہ خونی رشتوں کے مابین پائی جانے والی فطری محبت کبھی نہ کبھی ابال مار کر ان میں دراڑ ڈالنے والے تمام دشمنوں کو ہلاک کردے گی۔ رہادوالگ الگ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد (شوہر اور بیوی) میں پائی جانے والے خود اختیار کردہ محبت اور الفت کا پیداہونا تو یہ اکتسابی امر ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس رشتے میں مضبوطی اور شوہر وبیوی کی باہمی محبت میں گہرائی آتی ہے۔ بشرطیکہ بیوی سسرالی رشتوں کے تئیں پائی جانے والی اپنی تنگ نظری کو وسیع نظری میں تبدیل کردے اور جس طرح اپنے میکے والوں کی عزت و احترام میں زمین وآسمان کے قلابے ایک کرنے میں ہمہ تن مصروف اور ان کی خاطرتواضع میں اپنی جملہ رسوئیانہ مہارت یکبارگی صرف کرنے پر تل جاتی ہے اسی طرح اپنے سسرالی رشتہ داروں اور خاص طور سے شوہر کے چہیتوں اور ہمدردوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہر ہ کرے تو انشاء اللہ نہ صرف یہ کہ عورت بحیثیت بیوی خوش نصیب معلوم ہونے لگے گی بلکہ بحیثت شوہر مرد بھی خوش گوارازدواجی زندگی سے ہم کنار ہوکر اپنے حلقہ احباب میں بہترین فرد شمار ہوسکے گا۔جب کہ ایسی ہی بہترین صفات سے مزین عورت کو اپنے کارنامے اس فخریہ انداز میں پیش کرنے کا صحیح حق ہے کہ ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں