بنگلور،(فکروخبر/پریس ریلیز) کے ایم ڈی سی بھون میں منعقدہ ریاست گیر ورکشاپ میں مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اوقافی جائیدادوں کا تحفظ محض قانونی نہیں بلکہ دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پر ریاست بھر سے 125 سے زائد اوقافی جہدکار شریک ہوئے۔ پروگرام کا مقصد اوقافی جائیدادوں کے تحفظ، بیداری اور انہیں امید پورٹل پر اپ لوڈ کرنے کے عمل کو تیز تر بنانا تھا۔
مولانا ملک معتصم خان نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اسلام دو بنیادی تعلیمات پر قائم ہے، ایک اللہ کی بندگی اور دوسری بندوں کی خدمت۔ اوقاف دراصل خدمتِ خلق کا ایک حصہ ہے۔ اپنی ذاتی جائیداد کو رضاکارانہ طور پر فلاحی مقاصد کے لیے وقف کر دینا ہی وقف کہلاتا ہے، کسی کی زمین پر قبضہ کرنا نہیں۔ اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل روشن ہے، بشرطیکہ ہم اپنی ذمہ داریاں دیانت داری سے ادا کریں۔
جناب انعام الرحمن خان، اسسٹنٹ سیکریٹری جماعت اسلامی ہند نے بتایا کہ جماعت اسلامی ہند روزِ اوّل سے ہی اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے۔ جب مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی بل پیش کیا تو جماعت نے سب سے پہلے اس کی مخالفت کی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔انہوں نے امید پورٹل پر جائیدادوں کو اپ لوڈ کرنے کی تفصیلات پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعے پیش کیں اور شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے۔
ڈاکٹر معاذ الدین، سی ای او کرناٹک وقف بورڈ نے کہا کہ بورڈ کی کوشش ہے کہ تمام اوقافی جائیدادیں جلد از جلد پورٹل پر اپ لوڈ کی جائیں۔
اس موقع پر جناب محمد یوسف کنی، سکریٹری حلقہ نے آئندہ کے منصوبے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ریاست میں 49 ہزار اوقافی جائیدادوں میں سے 33 ہزار کے منتظمین (متولی، چیئرمین یا صدر) مقرر ہیں، جب کہ بقیہ جائیدادوں کا تعین اور نگرانی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ضلعی سطح پر ملت کے سرکردہ افراد کے ساتھ راؤنڈ ٹیبل میٹنگز منعقد کرنے اور عوامی بیداری مہم شروع کرنے کی اپیل کی۔
ڈاکٹر بلگامی محمد سعد، امیرِ حلقہ جماعت اسلامی ہند کرناٹک نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرکزی حکومت وقف ترمیمی قانون 2025 کے ذریعے ملت کے حوصلے پست کرنا چاہتی ہے۔ ہم حکومت کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ ملت اسلامیہ ہند اس قانون کو مسترد کرتی ہے اور یہ قانون ہمیں کسی طور منظور نہیں۔
اختتامی خطاب میں مولانا ملک معتصم خان نے فرمایا کہ 1923 سے لے کر اب تک وقف قانون میں کئی اصلاحات ہوئیں جو مسلمانوں کے مفاد میں تھیں، مگر 2025 کا قانون ملت کے لیے کسی خیر کا باعث نہیں۔ ہم اپنے دستوری حقوق کے لیے پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض عناصر ہمارے نام سے دوسروں کو ڈراتے ہیں، حالانکہ فرقہ پرستی ہی اس ملک کے لیے اصل خطرہ ہے۔ مسلمان ملک کے مفید شہری بنیں اور اپنے حقوق کے لیے پُرامن طور پر آواز بلند کرتے رہیں۔
پروگرام کا آغاز برادرم انعم اعلی بھٹکلی کی تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ جناب سید مجیر ہاشمی نے افتتاحی کلمات پیش کیے، جناب سید ناصر علی بلہاری اور جناب ریاض احمد کوپل نے کنوینر کے فرائض انجام دیے، جب کہ جناب محمد مرکزا نے اظہارِ تشکر پیش کیا۔ انتظامی امور کی ذمہ داری جناب محمد طلحہ سدی بابا اور ان کی ٹیم نے سنبھالی۔ورکشاپ کے اختتام پر یہ عہد کیا گیا کہ اوقافی جائیدادوں کا تحفظ صرف قانونی یا انتظامی نہیں بلکہ ایک ایمانی اور اخلاقی فریضہ ہے، جو ملت کے تعلیمی، فلاحی اور سماجی مستقبل کے تحفظ کی ضمانت ہے۔




