اصلی اسلام پر عمل کیجئے،اسلام کے نام پر بیکار باتیں نہ کیجئے!

ابونصر فاروق
    اگر کوئی غیر مسلم آپ سے پوچھے کہ اسلام کیا ہے ؟  تو آپ کیا جواب دیں گے ؟  آپ کہیں گے اسلام دین ہے۔اسلام ایک نظام حیات ہے۔ اسلام ایک نظریہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ کہے گا میں یہ نہیں پوچھ رہا ہوں، میں جاننا چاہتا ہوں کہ اسلام کو دیکھ کر کیسے جانا جا سکتا ہے کہ اسلام کیا ہے اور اس کے ماننے والے کیسے ہوتے ہیں ؟ اب اگر آپ علم و عقل اور سمجھ رکھتے ہیں تو مشکل میں پڑ جائیں گے کہ اس وقت کے مسلم سماج میں اسلام کو چلتا پھرتا اور اس پرعمل ہوتا ہوا کیسے دکھائیں ؟  آج مشکل سے کوئی ایسا مسلمان ملے گا جو اسلام پر  پورا کا پورا عمل کر رہا ہو۔ بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ مسلمان اسلام پر عمل کر ہی نہیں رہے ہیں۔
    اب خود آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا چاہئے کہ اسلام کیسا ہے اور کیا ہے جس کو غیر مسلم دنیا دیکھنا اور سمجھنا چاہتی ہے۔اور موجودہ مسلمان اسلام کی سچی اور صحیح نمائندگی نہیں کر رہے ہیں۔خود آپ کا بھی یہی عالم ہے۔اور آپ جیسے لوگوں کی مشکل یہ ہے کہ قرآن پڑھ کر،حدیثوں کا مطالعہ کر کے اور نبی پاک ﷺ کی حیات مبارک کو جان کر اسلام کو سمجھنے کے لئے آپ تیار نہیں ہیں۔جو آدھی ادھوری کچی جھوٹی باتیں اسلام کے نام پر لوگ آپ کو سناتے رہے ہیں اُنہیں کو سن کر آپ سمجھتے ہیں کہ یہی اسلام ہے۔بلکہ انتہا یہ ہے کہ اس وقت اسلامی اسکالروں کی جو باڑھ آ گئی ہے اور اسلام پر بولنے کا جو شوق پیدا ہو گیا ہے تو آفت اور بڑھ گئی ہے۔اسلام کے نام پر ایسی ایسی باتیں کی جارہی ہیں جن کا اصلی اوربنیادی اسلام سے کوئی رشتہ ناطہ ہے ہی نہیں۔آپ کی اس مشکل کو حل کرنے کے لئے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اصلی اور سچا دین صرف قرآن میں موجود ہے۔اور یہ اصلی اور سچا دین قیامت تک موجود رہے گا۔ساتھ ہی اس سچے اور اصلی اسلام پر عمل کرنے والے اہل ایمان بھی دنیا میں موجود رہیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ اُن کی تعداد اتنی کم ہوگی کہ اُن کی کوئی اہمیت ہی نہ ہوگی۔اور جس دن وہ اصلی اور سچا مسلمان دنیا اُٹھے گا قیامت آ جائے گی۔
    قرآن کہتا ہے:”اے ایمان لانے والو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اورتم میں سے ہر آدمی یہ دیکھے کہ اُس نے آنے والے کل کے لئے کیا انتظام کیا ہے ؟“(سورہئ حم السجدہ:۸۱)قرآن جو بات کہہ رہا ہے اُس پر دنیا کا ہر انسان عمل کر رہا ہے یعنی وہ آج کے لئے نہیں کل کے لئے انتظام کر رہا ہے۔آج تو جیسے تیسے گزرہی گیا، آنے والے کل کی فکر ہے۔ہر شخص اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا ہے کہ کل کیا ہوگا۔لیکن کوئی آدمی یہ نہیں جانتا ہے کہ یہ ”کل“ اُس کی زندگی میں آتا ہی نہیں ہے۔یعنی گزرے ہوئے دن میں آج کل تھا، لیکن یہ جب آیا تو ”آج“بن گیا۔ اسی طرح آنے والا ”کل“ جب آئے گا تو وہ ”آج“ بن جائے گا۔یعنی زندگی میں کل کبھی آتا ہی نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن جس کل کی بات کر رہا ہے وہ دنیا کا کل نہیں ہے بلکہ قرآن کے نزدیک دنیا کی یہ زندگی آج ہے اور اس زندگی کے بعد جو دوسری زندگی آنے والی ہے وہ کل ہے۔قرآن دنیا کی نہیں آخرت کے سنوارنے اور بنانے کی بات کر رہا ہے۔یعنی دنیا میں رہتے ہوئے اور دنیا کا سارا کاروبار کرتے ہوئے تیاری دنیا کی نہیں آخرت کی کرنی ہے۔
    اب غور کیجئے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان قرآن کی روشنی میں آنے والے کل یعنی آخرت کی تیاری نہیں کر رہا ہے بلکہ غیر مسلم کی طرح دنیا کی تیاری میں لگا ہوا ہے۔تو کیا ایسا آدمی اللہ اور اُس کے رسولﷺکے نزدیک اہل ایمان اور مسلم قرارپائے گا ؟
    دوسری بات یہ کہ زندگی کے کچھ کام انفرادی ذمے داری ہوتے ہیں اور کچھ کام اجتماعی ذمے داری ہوتے ہیں۔انفرادی ذمے داری کا حساب ہر فرد سے الگ الگ لیا جائے گا۔ اوراجتماعی ذمے داری کی جواب دہی اُن لوگوں کو کرنی ہوگی جو سماج میں ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔اب اس روشنی میں قرآن کے اس حکم کو دیکھئے:
    ”اے لوگو جو ایمان لائے ہوبچاؤاپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اورسخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جوکبھی اپنے رب کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیاجاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔“(التحریم:۶) 

    اس آیت میں ہر شخص کی انفرادی ذمے داری یہ بتائی جا رہی ہے کہ خود کو اور اپنے گھر والوں کوجہنم کی آگ سے بچاؤ۔اس فرض حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر مسلمان کو خود بھی دین کا علم حاصل کرنا ہوگا اور اپنے گھرو الوں کو بھی دین کا علم سکھانا اور اُس پر سب کو عمل کرنا ہوگا۔ کیا آج مسلمانوں کے کسی بھی گھر میں یہ ماحول اور رواج پایا جاتا ہے ؟تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایمان والا بننا ہی نہیں چاہتا ہے۔
    اسی طرح مسلم سماج کے جو پیشوا، سربراہ، سردار، امام اورامیر ہیں اُن کی دواصل اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ مسلم سماج کے ہر طرح کے خانگی،معاشرتی،تعلیمی، معاشی اورسیاسی مسائل کے حل کی تدبیریں کریں۔
    چنانچہ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ نئی نسل کی تعلیم کا ایسا بندوبست کیا جائے جس کے ذریعہ وہ اسلام کو صحیح ڈھنگ سے جان لیں اور ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے لائق ہو جائیں۔یعنی اُن کی پرائمری دینی تعلیم کا انتظام کرنا۔ اس وقت جو مدرسے ہیں وہ یہ کام نہیں کر رہے ہیں۔کرتا پاجامہ ٹوپی پہن لینے اور داڑھی رکھ لینے سے کوئی مسلمان نہیں بن جاتا ہے بلکہ ایمان کی طاقت، اللہ پر بھروسہ،اعلیٰ اخلاق اور حسین کردار والا سچا مسلمان کہلاتا ہے۔مدرسے ایسے انسان نہیں پیدا کر رہے ہیں۔
    اس کے بعد جس دور کا یہ معاملہ ہے اُس دور میں دنیا کا سارا کاروبار کس طریقے سے چل رہا ہے۔کون سا نظریہ،تعلیمی رجحان،صنعت و حرفت کا طریقہ اورمعاشی سرگرمیاں کس انداز سے ہو رہی ہیں اُن کو جاننے اور سمجھنے کی تعلیم کا بندوبست کرنا فرض ہے جسے ثانوی عصری تعلیم (Secondary Mode Education)کہا جائے گا۔
    اس کے بعد جوان نسل کی معاشی سرگرمیوں کے لئے انتظام کرنا کہ وہ کس طرح سے اپنی حلال روزی کمائیں گے۔اس کے لئے تجارت، صنعت و حرفت، کارخانے فیکٹریاں قائم کرنے اور اُن کے اندر نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع مہیا کرنے کی ذمہ داری سماجی سربراہان کی ہے۔
    اوپر جن تین کاموں کاذکر کیا گیا وہ سب خود مسلمانوں کا کرنے ہیں۔مسلمانوں کے یہ مسائل غیر مسلم دنیا حل نہیں کرے گی۔دنیا میں ہر فرد، خاندان اورقوم کو اپنا مسئلہ خود حل کرنا پڑتا ہے۔ کوئی دوسروں کے سہارے نہیں رہتا ہے۔ہمارا ملک جن لوگوں کے قبضے میں ہے وہ اپنے لوگوں کے لئے اوپر بیان کیاگیا ساراانتظام کر رہے ہیں۔چونکہ مسلمان اوردوسرے مذہب کے لوگ بھی اس ملک میں رہتے ہیں اس لئے اُن کے انتظام میں سے کچھ خیرات اور صدقہ دوسروں کو بھی مل جاتا ہے۔مسلمانوں کو خیرات اور صدقہ پر زندگی نہیں گزارنی ہے،خود اپنا انتظام کرنا ہے۔لیکن غور فرمائیے،ملک کے بٹوارے کے بعد جو مسلمان یہاں رہ گئے وہ اہل ملک کے لئے ناپسندیدہ لوگ تھے۔اہل ملک نے اُن کو آباد نہیں تباہ و برباد کرنا چاہا اورآج تک کر رہے ہیں۔لیکن کیا اوپر بیان کی گئی باتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اس طرح کی کوششیں کیں۔نہیں بالکل نہیں۔ایسا صرف اس لئے ہوا کہ اُن کو خود اپنی شرعی ذمہ داریوں کا شعور نہیں تھا۔یہ اُن کی دینی ناسمجھی کی دلیل ہے۔اس میں جدید تعلیم یافتہ اور پرانے مذہبی تعلیم پانے والے سب شامل ہیں۔
    اس کے بعد تعلیم یافتہ برسر روزگار نوجوان کے نکاح اور گھر بسانے کا مرحلہ سامنے آتا ہے۔رسول اللہﷺ نے اس سلسلے میں دو ہدایتیں دیں۔ایک یہ کہ جیسے ہی لڑکی کاکفو ملے فوراً اُس کا نکاح کر دو۔ دوسرے یہ کہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم مشقت اٹھانی پڑے۔
        لیکن مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی اس ہدایت کی کوئی پروا نہیں رہی۔شیطانی تعلیمی نظام کے ماتحت لڑکے اورلڑکیوں کوغیروں کا نوکر اور غلام بنانے والی پڑھائی میں نکاح اور شادی کی عمریں برباد ہوتی رہیں اور رسول اللہﷺ کا حکم پامال ہوتا رہا۔لڑکیاں گھروں میں بیٹھی شادی کے انتظا ر میں شادی کی عمر کی حدیں پار کرنے لگیں۔پھر یہ سماج میں یہ لعنت پیدا ہوئی کہ نوکری کرنے والے لڑکے بیچے جانے لگے۔جو لڑکی والا مالدار تھا وہ اونچے سے اونچے دام میں ا پنے لئے داماد خریدنے لگے۔لیکن اس تجارت کا انجام یہ ہوا کہ جتنے نکاح ہوئے اتنے ہی طلاق بھی ہونے لگے۔ پھر نکاح جو ایک بابرکت عمل تھا شیطانی فعل بن گیا۔شادی میں ایک شیطان عمل یہ شروع ہوا کہ دکھاوا ہونے لگا جو شرک کہاگیا ہے۔پھر دوسری برائی یہ ہونے لگی جسے فضول خرچی کہتے ہیں اور قرآن میں اس کوشیطانی فعل کہا گیا ہے۔اس کے بعد تیسرا منکر یہ پیدا ہو کہ عورتیں بے پردہ سج سنور کر شادیوں میں شریک ہونے لگیں اور یہ شادی کا منڈپ حسن کا بازار بن گیا، جہاں ہربدکار اور ہوس کا مارا اپنی نگاہیں سینکنے اورزناکرنے لگا۔اور اس زناکاری کی ذمہ داری پوری کی پوری اُن عورتوں پر آئی جنہوں نے خود کے بے حیا او ر بے غیرت بنا لیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اُن مردوں نے بھی اس میں اپنا حصہ پیداکیا جنہوں نے اپنی عورتوں کو بے حیا اور بے غیرت بننے پر نہ رو کا اور نہ ٹوکا بلکہ اُن کو اس پر آمادہ کیا۔آج مسلمانو ں کی شادیاں اعلیٰ درجہ کی عبادت نہیں ایک غلیظ گندہ شیطانی عمل بن کر رہ گئی ہیں۔ظاہر ہے کہ اس کا انجام جیسا ہونا چاہئے ویسا ہی ہو رہا ہے۔کسی بھی مسلمان کے گھر میں پیار، محبت، اپنائیء،خلوص،ہمدردی،خیر خواہی،ایثار و قربانی کا ماحول نہیں ہے۔ظلم ہے زیادتی ہے، ناانصافیاں ہیں، حق تلفیاں ہیں، رنجشیں ہیں، تلخیاں ہیں،جھگڑا ہے پھوٹ ہے۔ یعنی جو برائیاں غیر مسلم گھرانوں میں ہونی چاہئے تھیں وہ مسلمانوں کے گھروں میں موجود ہیں۔
    اور ان برائیوں کا انجام یہ ہے کہ مسلمان کا ہر گھر اللہ کی رحمت اوربرکت سے محروم ہے۔نادان مذہبی رہنما مسلمانوں کو دعا کی تلقین تو کر رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ یعنی گناہوں سے بچنے کی تاکید نہیں کر رہے ہیں۔چنانچہ مسلمان کے گھروں میں حرام آمدنی اور دولت کی ریل پیل تو ہو رہی ہے،لیکن اسی کے ساتھ ساتھ، نفرت، عداوت، لڑائی،جھگڑا، مقدمہ بازی، خون خرابہ اور طرح طرح کی مہلک بیماریوں کا طوفان اور سیلاب آرہا ہے۔ بدنصیب دولت اور شان و شوکت کے جھوٹے نشے میں چور سمجھ ہی نہیں پا رہا ہے کہ وہ جس کو شکر پارہ سمجھ کرکھا رہا ہے وہ زہر پارہ ہے جو اُس کی زندگی کو بھی تباہ و برباد کر رہا ہے اورآخرت میں تو جنت کی جگہ جہنم اُس کا ٹھکانہ ہے ہی۔
    مسلمانوں کے موجودہ رویے پر اللہ تعالیٰ قرآن میں کیا فرما رہا ہے اس کو بھی جان لیجئے:
        جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت میں ہی جان دی، اُن پر اللہ اور فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے(۱۶۱)اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے،نہ اُن کی سزا میں کمی ہوگی اور نہ اُنہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔(البقرہ:۲۶۱)
    یعنی وہ تمام لوگ جو دین و شریعت سے بے پرا اورغافل ہو کر دنیا داربنے ہوئے ہیں اُ ن پر اللہ،اُس کے فرشتے اور سارے انسانوں کی لعنت برس رہی ہے۔کہاجارہا کہ ایسی ہی لعنت بھری  زندگی وہ دنیا میں بسر کریں گے،اسی حالت میں اُن کی جان جائے گی اورجہنم میں اُن کی سزا میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ سوچئے جن لوگوں نے اللہ کو اپنا دشمن بنا لیا اب اُن کا دوست کون بن سکتا ہے اور اُن کو کسی بھی طرح کا فائدہ کون پہنچا سکتا ہے۔
    ……اور تم میں سے جوکوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اُس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے، ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے(البقرہ:۷۱۲)اس آیت میں کہا جارہا ہے کہ ایسے مسلمان جو کام بھی نیک عمل سمجھ کر کر رہے ہیں جیسے نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت،صدقہ، زکوٰۃ،حج، عمرہ اور کسی بھی طرح کی نیکی وہ سب برباد ہو رہی ہے، اس لئے کہ وہ کافروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اورکافروں ہی کی طرح اُن کی موت ہوگی اور اُن کا ٹھکانہ جنت نہیں جہنم ہے۔
    چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اورتماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ہاں مگر یہ قرآن سنا کرنصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کئے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے۔اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اُس کے لئے نہ ہو، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے،کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے، اُن کو تو اپنے انکار حق کے معاوضے میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اوردرد ناک عذاب بھگتنے کو ملے گا(انعام:۰۷)
    ایسی کھلی کھلی روشن باتوں کے بعد بھی کوئی ان کو پڑھنا نہ چاہے اور ان کو سمجھ کر اپنی دنیا اور آخرت کو دین و شریعت کے مطابق سنوارنا نہ چاہے تو اُس بد نصیب پر افسوس کرنا اور آنسو بہانا کس کام کا۔چونکہ ان کو قرآن کے ذریعہ نصیحت کرنے کا حکم ہے اس لئے یہ فرض ادا کیا جارہا ہے۔(جامع مسجد رمنہ روڈ پٹنہ کا۲/دسمبر۲۲۰۲ کا خطبہ)

«
»

مغربی بنگال کی جیلیں مسلم قیدیوں کا مقتل کیوں بن رہی ہیں؟

بچوں کے ادب میں اخلاقی قدروں کی اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے