رام مندر کے افتتاح کے ضمن میں ’’چھوت چھات‘‘ کا تصور پھر سے سرخیوں میں وزیر اعظم نریندر مودی چلے تو تھے سونیا گاندھی کو رام مندر کے جال میں پھنسانے مگر خود شنکر آچاریہ کے ہتھے چڑھ گئے۔ ہندی میں اسے کہتے ہیں چوبے جی چھبے بننے نکلے تھے مگر دوبے بن کر لوٹ آئے۔ ایک چھوڑ دو دو جگت گرو شنکر آچاریوں نے ان کو اپنے پنجوں میں جکڑ کر ایسی کھری کھوٹی سنائی کہ ان کے چودہ طبق روشن ہوگئے لیکن کریں تو کریں کیا۔ فی الحال سمراٹ نریندر مودی ہندو رائے دہندگان کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے اس لیے زہر کا گھونٹ پی کر چپ ہوگئے۔ جیوتش پیٹھ کے جگت گرو شنکر آچاریہ سوامی اوی مکتیشور آنند سرسوتی اور پوری کے شنکرآچاریہ سوامی نشچلانند نے 22 جنوری کو ایودھیا کے مندر میں رام للا کے پران پرتشٹھا کی بابت جو کچھ اور جیسے ممیکری کرکے اپنے من کی بات کہی وہ کوئی اور کہتا تو اس کے ساتھ نہ جانے کیا ہو جاتا۔ اس کے گھر اور مٹھ پر اگر بلڈوزر نہ چلتا تو کم از کم ان پر یو اے پی اے تو لگ ہی جاتا لیکن یہ لوگ تو چانکیہ کے بھی باپ نکلے۔ ان لوگوں نے مودی کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں اس طرح سرِ بازار رسوا کیا کہ اندھے بھکت تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وزیر اعظم کو شنکر آچاریہ کے ہاتھوں ملنے والی ذلت و رسوائی پر احمد مشتاق کا یہ شعر صادق آتا ہے۔ خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو رام مندر کے حوالے سے ہونے والی تقریب کی دو ٹوک مخالفت پہلے پوری کے شنکر آچاریہ سوامی نشچلانند نے کی۔ رام مندر کے پران پرتشٹھا پروگرام میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے پی ایم مودی پر کھلا حملہ بول دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ یعنی مودی، بھگوان کی مورتی کو اسپرش (مس) کریں اور میں وہاں کھڑا ہو کر تالیاں بجاؤں! یہ تو مریادا (میرے وقار) کے خلاف ہے۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے ابھی ابھی زبردست کامیابی درج کرائی ہے مگر شنکرآچاریہ نے اس سے بے نیاز رتلام پہنچ کر واضح انداز میں کہا کہ پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں تک تو بات ان کی اپنی ذات تک محدود ہے لیکن آگے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ پی ایم مودی کا رام للا کی مورتی کو چھونا بذاتِ خود مریادا کے خلاف ہے۔ وزیر اعظم کا تعلق پسماندہ سماج سے ہے اس لیے ان کے مورتی کو چھونے پر اعتراض دراصل ہندو دھرم کے اندر ذات پات کی درجہ بندی یعنی ورن آشرم کے عین مطابق ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے بلا اعلان قائم کردہ ہندو راشٹر میں انہیں یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ سوامی نشچلانند کے دیگر اعتراضات تو ثانوی درجہ کے ہیں مگر مورتی کو چھونے سے متعلق کہی جانے والی بات نہایت سنجیدہ ہے۔ اس پر گفتگو سے قبل یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ بابری مسجد کی دیوار پھاند کر اندر جو مورتی رکھی گئی اور یہ بھرم پھیلایا گیا کہ وہ اپنے آپ پرکٹ (ظاہر) ہوگئی ہے وہ کہاں گئی؟ اب مودی کو نئی مورتی کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈا سراسر جھوٹا تھا لیکن مودی کے مورتی کو چھونے سے متعلق اعتراض کو سمجھنے کے لیے ماضی کی تاریخ میں جانا ہوگا۔ مودی کے حلقہ انتخاب میں واقع کاشی وشو ناتھ مندر میں 1958 تک دلتوں کو داخلہ کی اجازت نہیں تھی۔ ایک طویل لڑائی کے بعد جب دلتوں کو اجازت ملی اور انہوں نے مورتی کو چھوا تو سوامی نشچلانند کے گرو کرپاتری مہاراج نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے وشوناتھ مندر کو ہی اچھوت قرار دے کر اسی شہر میں گنگا کے ساحل پر ایک نیا وشوناتھ مندر بنوا دیا تھا اس لیے سوامی نشچلانند کے چھونے والے بیان کو کرپتاری مہاراج کے رویہ سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ شنکرآچاریہ نے ببانگِ دہل چھوت چھات کی حمایت کرکے سنگھ پریوار کی صد سالہ محنت پر پانی پھیر دیا۔ موہن بھاگوت میں اگر ہمت ہے تو اس بیان کی تردید کریں لیکن ان کے ایک جانب شنکر آچاریہ اور دوسری طرف نریندر آچاریہ ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آگ میں جائیں یا کھائی میں کودیں۔ نشچلانند شنکرآچاریہ کے اس مشورے کو پسِ پشت ڈالنا ناممکن ہے کہ رام مندر میں مورتی کی پران پرتشٹھا شاستروں کے مطابق ہونی چاہیے لیکن اگر ویسا کرنے سے سیاسی فائدے حاصل نہ ہوتے ہوں تو اس کا کیا کیا جائے؟ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صاف کہا کہ رام مندر پر جس طرح کی سیاست کی جا رہی ہے وہ نہیں ہونی چاہیے۔ سوامی نشچلانند کو ملک میں پیر پسارتی فسطائیت سے کوئی پریشانی نہیں ہے ان کو سادھو سنتوں کے سیاسی استعمال پر اعتراض ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں پہلے سنتوں کو اپنا اسٹار پرچارک بناتی ہیں اور بعد میں وہ مونی بابا بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ الزام ہوا میں نہیں لگایا گیا بلکہ اس کے حق میں انہوں نے بابا رام دیو اور شری روی شنکر کی مثال بھی دے دی۔ شنکر آچاریہ نے کسی پارٹی کا نام تو نہیں لیا لیکن جب کہا کہ پہلے ایک سیاسی جماعت نے ان دونوں کا بھرپور استعمال کیا اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہیں مونی بنا دیا تو سب سمجھ گئے کہ اشارہ کس طرف ہے۔ انہوں نے باگیشور دھام کے دھیریندر شاستری پر اس لیے تنقید کی تھی کہ وہ بی جے پی کے پرچارک بن گئے ہیں۔ سوامی نشچلانند نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کے پاس علم کی کمی ہے۔ شنکر آچاریہ نے تو وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی نہیں بخشا اور استفہامیہ انداز میں پوچھا رام جنم بھومی کے بارے میں مودی کا کیا کردار رہا ہے؟ رام مندر کی تعمیر پر کیا ان کی ایک بھی تقریر سننے کو ملے گی؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2019 کی انتخابی مہم کے دوران وہ فیض آباد کے قریب جاکر مزدوروں کے حقوق پر تقریر کرکے لوٹ آئے تھے۔ وہ تو جب آگے چل کر پتہ چلا کہ نہ تو اچھے دن آئیں گے اور نہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ممکن ہے تو مودی جی نے رام مندر کے اندر پناہ لے لی۔ نام نہاد ہندو راشٹر کی سیاست کے بارے میں شنکر آچاریہ یہ کہیں کہ اگر اس وقت سیاست میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے۔ کانگریس اگر وہ بات کہہ دے تو وہ پہلے ہندو مخالف اور پھر ملک کی غدار قرار پاتی ہے لیکن اگر بی جے پی میں جرأت ہے تو وہ اِنہیں القاب سے شنکر آچاریہ کو نواز کر دیکھے! فوراً اس کے ہندوتو کی پول کھل جائےگی۔ اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ سوامی نشچلانند نے مودی سرکار کی ہیکڑی نکال دی۔ اب بی جے پی یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور ان کی بات مان بھی نہیں سکتی۔ اس دھرم سنکٹ کی وجہ سے بہت زیادہ بولنے والی پارٹی نے اس بابت خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اپنی چونچ نہیں کھول پارہی ہے۔ سوامی نریندر آچاریہ کے بارے لوگ بہت کچھ سچ اور جھوٹ جانتے ہیں مگر سوامی نشچلانند کے بارے میں عوام کی معلومات کم ہیں اس لیے دونوں کو جانے بغیر ان کا موازنہ مشکل ہے۔ اڈیشہ کے پوری میں واقع گوردھن مٹھ کے شنکر آچاریہ بہار میں پیدا ہوئے تو ان کے والدین نے انہیں نیلامبر کے نام سے پکارا۔ تقریباً 31 سال قبل 18؍ اپریل 1974 کو وہ سوامی کرپاتری مہاراج کے مرید بن گئے اور سنیاس لے لیا۔ اس طرح وہ نیلامبر سے سوامی نشچلانند ہوگئے۔ اس وقت مودی کی سنگھ کے اندر کوئی خاص اہمیت یاحیثیت نہیں تھی اور سیاست میں تو کوئی ان کو جانتا بھی نہیں تھا۔ آگے چل کر پوری کے 144ویں شنکر آچاریہ نرنجن دیو تیرتھ مہاراج نے انہیں 1992 کو 145 ویں شنکر آچاریہ کے عہدے پر فائز کردیا۔ اس کا مقام اگر کوئی جاننا چاہتا ہو تو وہ گوگل کی مدد سے ان کی ویب سائٹ پر جاکر پڑھ سکتا ہے جہاں جلی حروف میں لکھا ہے ’’حکم رانوں پر حکم رانی کرنے والا عہدہ‘۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کے اختلاف کو سمجھنے کے لیے یہ ایک جملہ کافی ہے۔ شنکر آچاریہ کسی چمپت رائے کی مانند حاکمِ وقت کو وشنو کا اوتار سمجھ کر اس کی چاپلوسی نہیں کرسکتا اس لیے وہ اصولی طور پر پر ان پرتشٹھا کی تقریب میں جاکر وزیر اعظم کی جے جے کار کرنے کو وہ اپنے وقار کے خلاف سمجھتےہیں ۔ شنکر آچاریہ نشچلانند مندروں کے انتظام و انصرام میں سرکاری مداخلت کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں مندر چلانے والے ٹرسٹ کو مضبوط تر بنایا جانا چاہیے۔ اسی لیے وہ مذہبی مقامات پر بنائے جانے والے کوریڈور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ کوریڈور کی اصطلاح سنتے ہی وزیر اعظم کے حلقہ انتخاب میں تعمیر ہونے والے کاشی وشوناتھ کاریڈور کا خیال لوگوں کے ذہن میں آتا ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ آج مذہبی مقامات کو سیاحتی مقام بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح ان میں عیش و عشرت کی چیزیں شامل کی جارہی ہیں جو درست نہیں ہیں۔ یہ بہت ہی بنیادی قسم کی بات ہے لیکن بی جے پی کی سیاست بنیادی طور پر اس کے چند پسندیدہ سرمایہ داروں کے حصولِ مفادات کا ذریعہ ہے۔ وہ لوگ سرکاری خزانے سے رقم لے کر تعمیرات کرتے ہیں اور اپنے منافع میں حکومت کو شریک کرنے کے لیے برسرِ اقتدار پارٹی کو چندہ دیتے ہیں۔ اس کی مدد سے ذرائع ابلاغ کو خرید کر سرکار کے حق میں ماحول سازی کی جاتی ہے۔ اب ایسا کرنے سے عیاشی بڑھے یا بدعنوانی میں اضافہ ہو حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے وارانسی کا عام ہندو اس بات سے بھی ناراض ہے کہ اس کاریڈور کی تعمیر کی خاطر سیکڑوں ایسے مندروں کو زمین بوس کردیا گیا جو ہزاروں سال سے موجود تھے اور ان سےعقیدتیں وابستہ تھیں۔ شنکر آچاریہ کو صرف ایک شخص کے ساتھ پروگرام میں بلایا جانا بھی پسند نہیں آیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ یہی وجہ ہے کہ میں تقریب میں نہیں جاؤں گا بلکہ 100 لوگوں کے ساتھ بلایا جائے تب بھی نہیں جاوں گا۔ شنکر آچایہ نے کہا ایودھیا کے ساتھ ان کا رشتہ اٹوٹ ہے اور انہیں ایودھیا جانے سے پر ہیز نہیں ہے۔ رام ان کے دل میں ہیں لیکن ۲۲؍ جنوری کو ایودھیا نہیں جانے کے سبب ایودھیا سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹے گا لیکن اس موقع پر ان کا جانا مناسب نہیں ہے۔ اب یہی بات کانگریس کہہ رہی ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے وفد کو بھیج کر واپس بلا لے گی۔ ویسے بھی آدھے ادھورے مندر کوئی کبھی بھی جائے وہ تو ادھورا ہی رہے گا۔ اس دن تو سارے کیمرے صرف ایک فرد کی جانب مرکوز رہیں گے۔ شنکر آچاریہ سے ملتی جلتی بات مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے بھی کہی۔ وہ بولے کہ مجھے ایودھیا جانے کے لیے کسی دعوت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پہلے جب بی جے پی نے رام کے نام پر انہیں گھیرنے کی کوشش کی تھی تو انہوں نے کہا تھا وہ دل میں رام اور ہاتھ میں کام کے اصول کو مانتے ہیں۔ اس لحاظ سے مودی مخالف ادھو، شنکر آچاریہ سے زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں۔ اب ہندو عوام کو ان میں سے یہ طے کرنا ہے کہ ان کا اصلی رہنما کون ہے اور ڈھونگی کون ہے؟ ایودھیا میں مندر بی جے پی کے ذریعہ سرکاری خرچ پر منعقد کی جانے والی تقریب کی مخالفت کرنے والے شنکر آچاریہ نشچلانند اکیلے نہیں ہیں بلکہ جیوتش پیٹھ کے جگت گرو سوامی اوی مکتیشور آنند سرسوتی نے بھی کہا کہ یہ افتتاحی تقریب جس کو پران پرتشٹھا کا نام دیا گیا ہے شاستروں کی روایت کے مطابق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں راجہ اور دھرم آچاریہ ہمیشہ سے الگ الگ رہے ہیں لیکن اب راجہ کو ہی دھرم آچاریہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ چونکہ ہندوستانی روایت کے خلاف ہے اس لیے وہ مذکورہ تقریب میں ایودھیا نہیں جائیں گے۔ ان کے مطابق ہندوستانی روایات میں راجہ راج کرتے ہیں اور مذہب کے قیام کی ذمہ داری مذہبی پیشواؤں پر چھوڑ دی جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں اس پرمپرا کی پیروی نہیں ہورہی ہے۔ اب راجہ کو ہی دھرم آچاریہ مان لیا گیا اور اس کے تحت ایودھیا کا پران پرتشٹھا پروگرام طے کیا گیا ہے۔ پہلے وزیر اعظم کا درشن کرنا اور اس کے بعد مذہبی پیشواؤں کو موقع دینا پوری طرح غلط ہے۔ سوامی اوی مکتیشور شنکر آچاریہ نے بتایا کہ سناتن دھرم ملک کو متحد رکھتا ہے کیونکہ زبان اور کھانے پینے میں اختلاف کے باوجود شمال، جنوب اور مشرق و مغرب سے آنے والا ہر ہندو وید کا ایک ہی منتر پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ ویسے شنکر آچاریہ نے کہا تو نہیں مگر بین السطور یہ سچائی بھی ہے کہ اس کے برعکس سیاستداں ملک کو بانٹنے کا کام کرتے ہیں ۔ شنکر آچاریہ نے اس سے آگے بڑھ کر کہا مسجد توڑنا بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا۔ ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے مسجد کو منہدم کیا گیا جبکہ اسے انصاف کے راستے سے حاصل کیا جانا چاہیے تھا۔ ویسے عدالتِ عظمیٰ نے خود تسلیم کیا کہ اس میں مورتیوں کا رکھنا اور اسے شہید کرنا دونوں غلط تھے اور وہ کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اس لیے عدل کا تقاضا تو یہ تھا کہ مسجد مسلمانوں کے حوالے کرکے اس سے دور مندر بنایا جاتا۔ شنکر آچاریہ کا یہ اعتراض بھی ہے کہ مندر کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل پران پرتشٹھا نہیں ہوسکتی وہ تو تکمیل کے بعد ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن چونکہ مودی کو انتخابی مہم میں اس کا استعمال کرنا ہے اور انہیں یقین ہے کہ ان ہنگاموں کے بغیر محض اپنی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن نہیں جیت سکتے اس لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ یہی شنکر آچاریہ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں سناتن دھرم کو دیش میں گھومنے والے خود ساختہ شنکر اچاریوں سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا نقلی بھگوا دھاریوں سے ہے۔ ان کا صاف اشارہ یوگی سمیت مودی بھکتوں کی طرف تھا۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی تھی کہ یہ بھگوا پوش اپنے آپ کو دیوتاؤں سے بھی افضل سمجھتے ہیں ان سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ ان کے الزام کی تصدیق چمپت رائے نے مودی کو وشنو کا اوتار کہہ کر کر دی۔ اب تو چاروں شنکر آچاریوں نے ۲۲؍ تاریخ کو ایودھیا نہ جانے کا اعلان کرکے پوری تقریب کی ہوا نکال دی اور یہ ثابت کردیا کہ اصلی دھرم آچاریہ تو وہ ہیں اور نریندر آچاریہ جیسے لوگوں کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے۔ مودی جی اگر اگلا انتخاب ہار گئے تو ان کی کوئی سیاسی وقعت بھی نہیں رہے گی اور تاریخ میں بھی ان کا نام سب سے نا اہل وزیر اعظم کے طور پر درج ہو جائے گا۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں