(فکروخبر/ذرائع) اردن میں سنیچر کو امریکہ، ترکی، یورپی یونین اور عرب ممالک کے اعلٰی سفارت کاروں کا اہم اجلاس ہوا جس میں شام کے مستقبل اور معزول صدر بشار الاسد کی جگہ کسی نئی حکومت کے قیام کے لیے عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ نے فاتح عسکریت پسند گروپوں، جن میں "ھیئۃ التحریر الشام” بھی شامل ہے، کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں، جن کی قیادت میں دمشق پر قبضہ کیا گیا۔
صدر بائیڈن نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو مشرق وسطیٰ بھیجا ہے تاکہ وہ امریکہ کے اقتدار کی منتقلی سے متعلق نکات، جن میں اقلیتوں کے حقوق کا احترام بھی شامل ہے، پر حمایت حاصل کریں۔
دوسری جانب، شام کے شمالی ہمسایہ ترکیہ جو کئی برسوں سے شامی اپوزیشن فورسز کا حامی رہا ہے، اب شام میں ایک اہم سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ فعال کرے گا۔
اردن کے شہر العقبہ میں ہونے والے اس اجلاس میں شام کے حوالے سے اہم عرب اور عالمی سفارت کاروں نے شرکت کی۔ ان میں انٹونی بلنکن، اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس اور ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان شامل تھے۔ روس اور ایران کو اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
اس ملاقات سے قبل عرب سفارت کاروں نے الگ سے مشاورت کی تھی، جس کے دوران ترک حمایت یافتہ گروپوں کے کردار اور شام میں سیاسی عمل کی نوعیت پر بات چیت کی گئی۔ مذاکرات میں شامل عرب سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ وہ ترکیہ سے یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ وہ ایک جامع سیاسی عمل کی حمایت کرے گا، جو شام کی فرقہ وارانہ تقسیم کو روکنے میں مددگار ثابت ہو۔
ترکی اور امریکہ، جو نیٹو کے اتحادی ہیں، دونوں کے مفادات بعض عسکریت پسندوں کی پالیسیوں کے حوالے سے مختلف ہیں، خاص طور پر شمالی شام میں جہاں ترکی کی حمایت یافتہ فورسز اور کردوں کی قیادت میں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ایس ڈی ایف، جو داعش کے خلاف امریکہ کا اہم اتحادی ہے، شام کے اہم تیل کے ذخائر کو کنٹرول کرتا ہے۔