بقلم۔ ذوالقرنین احمد (مہاراشٹر)
جس امت کا ایک 17 سالہ سپہ سالار، امت کی ایک بیٹی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے سندھ پہ حملہ آور ہوا، جس امت کے بیدار مغزوں نے امت کی ایک بیٹی کی خاطر اندلس فتح کیا، جس امت کے معتصم بااللہ نے امت کی ایک بہن کی خاطر رومیوں کے سب سے مضبوط قلعے کی طرف پیش قدمی کی اور مسلسل 52 دن کی جدوجہد کے بعد فتح سے ہمکنار ہوا، مکرمی، آج ہم موجودہ حالات سے بخوبی واقف ہیں کس طرح سے اغیار مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچ رہے ہیں کبھی مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے انکی جوانی ،ذہانت کو جیلوں میں برباد کیا جاتا ہیں جن میں اکثریت تعلمی یافتہ نوجوانوں کی ہیں یہ کوئی اتفاق نہیں ہیں یہ ہمارے ملک میں موجود سنگھی گروہ کی ذیلی شاخیں ہیں جو مسلمانوں کے خلاف دن بہ دن نئے نئے حربے استعمال کرکے انہیں اس ملک میں کمزور کرکے ہندو راشٹر کے میشن کو لیکر سرگرم عمل ہے، اسی سازش کی ایک کڑی ہندوتوا یوا تنظیم کی طرف سے غیر محسوس طریقے سے چلائیں جارہی ہے جو اسکول،کالج ، یونیورسٹی میں ہندو لڑکوں کے ذریعے مسلم لڑکیوں کے ساتھ جھوٹے عشق و محبت کے معاشقے چلا کر انہیں مرتد کرنا ہیں اور مسلمانوں کے خاندانی نظام کو درہم برہم کرنا ہیں اس سے پہلے مسلم نوجوانوں کو لوجہاد کےنام پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور اب ان فرقہ پرستوں کی نگاہیں ہمارے قوم کی بیٹیوں پر ہیں جو اسکول، کالجز یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں جو ابھی کچے ذہن کی ہوتی ہیں ان لڑکیوں کو عشق ومحبت کے جھوٹے جال میں پھنسانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، گزشتہ کچھ سالوں سے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں تعلمی میدان میں اول مقام حاصل کر رہی ہیں، پیشہ ورانہ کورسز، میڈیکل، انجینئرنگ، فارمسی، اور آرٹس و کامرس کے شعبوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا رہی ہیں، لیکن یہ طالبات تعلیم نسواں اور آزادی نسواں کے نام پر اس آزادی کا غلط استعمال کر رہی ہیں، مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ عشق معاشقے کے چکر میں اپنے مذہب کو خیر باد کہے رہی ہیں، یہ ارتداد کی ہوائیں اب ہمارے معاشرے میں عام بات ہوچکی ہیں پہلے کبھی ایسے باتیں سن کر پیروں سے زمین نکل جاتی تھی، لیکن آج ایسی خبریں ہمیں روز مرہ کی زندگی میں سنے کو مل رہی ہیں اور ہمارے ملی قأیدین، رہبر ، رہنما، والدین خوب خرگوش میں مست ہے، ایک اخباری اطلاع کے مطابق شہر دکن کی چار لڑکیاں جو اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اپنے عاشقوں کے ساتھ رفو چکر ہوگئی ہے، اور انکے والدین صدمے کا شکار ہے لیکن اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، ایک ویب سائٹ کے مطابق پونے کی کئی لڑکیوں نے غیر مسلموں سے شادی کیلئے آنلاین اپلیکیشن دی ہوئی ہے، بیٹیاں ہر گھر کی عزت ہوتی ہیں، وہ باپ کے سر کا تاج ہوتی ہیں، لیکن والدین کی غفلت اور حد سے زیادہ بھروسہ کرنا انکے لے عزت سے ہاتھ دھونے کا ذریعہ بن رہا ہے، ماحول کا اثر معاشرے میں موجود افراد پر ضرور اثر انداز ہوتا ہیں ہر کوئی اپنے گھر کا ذمے دار ہیں اور کل قیامت کے دن سرپرستوں سے پوچھ ہوگی اس شخص کو دیوںس کہاں گیا جو اپنے گھروں کی خواتین کی خبر نہیں رکھتا، غیر مذہب کے نوجوانوں کے مسلم لڑکیوں کا فرار ہوجانا پورے مسلم معاشرے کیلئے شرم کی بات ہے یہ ہمارے عزت و ناموس کا مسلہ ہیں کہی اسکے ذریعے مذہب اسلام کو نشانہ بنانے کی سازش تو نہیں ہورہی ہے، کیونکہ ان سنگھی ذہنیت کے حامل فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کو بڑھتی آبادی سے بھی ڈر لگنے لگ گا ہے کہیں یہ ملکر اپنا تسلط قائم نہ کرلیں، اسلیے ضروری ہے کے ہم اپنے گھر کی اپنے خاندان اپنی بستیوں کی نگرانی کریں، والدین لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے نام پر تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں اور بے فکر ہوجاتے ہیں کہ انکی بچی اسکول کالج جارہی ہیں اور وہ لڑکی اپنے غیر مسلم فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر جارہی ہوتی ہے تو کوئی پارکوں اور ہوٹلوں میں گل چھریں اڑاتی ہیں، اور اپنی عزت اپنے والدین کی عزت کو تار تار کر دیتے ہیں، اور وہ جھوٹے عاشق انہیں کچھ دن استعمال کرکے فرار ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی شادی کر بھی لیں تو اس مسلم لڑکی سے مذہب تبدیل کرنے کیلئے کہتے ہیں اور وہ دھوکے میں آکر دین و دنیا دونوں کو برباد کر دیتی ہے، ایسے واقعات کے معاشرے میں ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں جس میں مخلوط تعلیمی نظام، اپنے مذہب میں لڑکوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ نا ہونا، لڑکوں کا بہتر روزگار نا ہونا، ان حالات سےنمٹنے کیلئے شہر کے ذمے دار افراد کو چاہیے کے وہ پرائمری سکول کے آگے کی تعلم کیلئے لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کا علاحدہ انتظام کریں اور مسلم گنجان آبادی والے علاقوں میں اسکول، کالجز شروع کریں، اسمیں والدین کی یہ ذمے داری ہیں بیٹی اگر اسکول کالج جاتی ہیں تو اسکی نگرانی کریں اسکول کالج ٹیوشن کے اسٹاف سے رابطہ میں رہیں ، اپنے بچوں کی دینی ،اخلاقی، ذہنی فکری تربیت کریں، حلال حرام کو واضح طور پر سمجائے، دوسرا مسلم نوجوانوں کو اعلٰی تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ انکے لیے جوڑ کے رشتے آسانی سےمل سکے،اور نکاح میں سادگی پیدا کریں جہیز کی لانت سےمعاشرے کو پاک کرنے کی پوری کوشش کریں، ملی، سیاسی ،سماجی،دینی شخصیات جہیز کے خلاف مہم جاری رکھیں، والدین اپنے لڑکے لڑکیوں کے بلوغت کو پہنچتے ہی نکاح کے لیے بہتر جوڑ تلاش کریں اور سادگی کے ساتھ نکاح کریں، لڑکے والے لڑکی والوں پر جہیز کا بوجھ نہ ڈالے یہ ظلم ہے اور ظلم کل قیامت میں اندھیرے کا باعث ہوگا، سب سے برکت والا نکاح اسے کہاں گیا ہیں جس میں خرچ کم ہو، والدین اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں کے بچے انکی دی گئی آزادی کا کئی غلط فائدہ تو نہیں اٹھا رہے ہیں، والدین بڑی خوشی سے لڑکیوں کو انڈراویڈ فون دلا کر دیتے ہیں، آج سوشل میڈیا کی وجہ سے سب ذیادہ بے حیائی اور عریانیت کو فروغ مل رہا ہیں جو معاشرے کی اخلاقی قدروں کو پامال کرنے کا سبب بن رہا ہے، جسکی وجہ سے مغربی تہذیب مشرق میں بآسانی داخل ہورہی ہے، کالج یونیورسٹی کی لڑکیاں کھولیں عام اپنے عاشقوں کے ساتھ ڈیٹ پر جارہی ہے یہ کلچر عام ہوتا جارہا ہے ، سوشل میڈیا کے استعمال سے اکثر لڑکیاں غیروں سے تعلقات قائم کر کے اپنے ہی ہاتھوں اپنی عزت تار تار کر رہی ہے، اور والدین کو اسکی خبر تک نہیں ہوتی اور جب خبر پہنچتی ہے تب کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ فلاح لڑکی کسی غیر مسلم کے ساتھ فرار ہوچکی ہے اسلیے آج ہی اپنے گھر کی خبر لیجئے ورنہ بدنامی مقدر بن جائے گی۔
جواب دیں