ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی۔بجنور
اللہ کا شکر ہے کہ رمضان کا مبارک مہینہ ایک بار پھر ہماری زندگی میں آنے والاہے۔ہم اللہ سے دعائیں کرتے تھے ”اللہم بلغنا شھر رمضان“ اے اللہ ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادے۔یعنی ہماری زندگی میں رمضان کا مبارک مہینہ آجائے۔اللہ نے اپنی مہربانی سے ہمیں رمضان عطا کردیا ہے۔اللہ کے اس مہمان کا استقبال کیجیے۔ہمارے گھر پر جب کسی اہم مہمان کی آمد ہوتی ہے تو ہم اس کے استقبال کے لیے بہت اہتمام کرتے ہیں۔اسی طرح بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر ہمیں اللہ کے مہمان کا استقبال کرنا چاہیے۔ اسلام کے اکثر احکامات کا تعلق چاند سے ہے۔جیسے رمضان،عید ین،حج وغیرہ کی عبادات چاند کی تاریخوں کے اعتبار سے انجام دی جاتی ہیں۔اس لیے ان مہینوں کا چاند دیکھنا جن میں کوئی اہم عبادت انجام دی جاتی ہے فرض کفایہ ہے۔فرض کفایہ وہ عمل ہے جس کو بستی یا شہر میں سے کوئی ایک یا چند افرادادا کرلیں تو پوری بستی کی طرف سے کافی ہے،اگر کسی نے بھی نہیں کیا تو سب گنہ گار ہوں گے۔رمضان چونکہ اللہ کا مہینہ ہے اور ہمارے لیے مقدس مہمان کی حیثیت سے آتا ہے اس کی بے پناہ فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے اس کا الگ مقام ہے،رمضان کا چاند دیکھنے کا شوق بھی زیادہ ہوتا ہے۔اس لیے 29شعبان کو چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جائے،مغرب کے فوراً بعد اونچے مقامات یا گھر کی چھت پر جا کر چاند دیکھنے کی کوشش کیجیے،مطلع اگر ابر آلود یعنی بارش والا ہوتب بھی ثواب کی نیت سے چاند دیکھنے کی کوشش کیجیے۔کیوں کہ اللہ کے نبی ﷺ اس کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔اگر29کو نظر نہ آئے تو 30 تاریخ کو چاند دیکھیے۔یہ سوچ کر نہ رہ جایئے کہ آج تو چاند ہوہی جائے گا۔کیوں کہ چاند دیکھنا بھی سنت ہے اور ہر سنت پر اجر ہے۔چاند نظر آجائے تو یہ دعا پڑھیے۔ اللَّہُمَّ أَہِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِیمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّی وَرَبُّکَ اللَّہُ (ترمذی) اے اللہ! اس چاند کو امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند) میرااورتیرا رب اللہ ہے۔ آج کل سائنسی تحقیقات کی وجہ سے بہت سی چیزیں آسان ہوگئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فطری چیزوں کو ہم چھوڑ دیں۔سائنسی تحقیقات بدلتی رہتی ہیں۔پورے سال کا کلینڈر پہلے ہی تیار ہوجاتا ہے۔اکثر و بیشتر وہ درست بھی ہوتا ہے۔اس کے باوجود آنکھوں سے چاند دیکھنا ضروری ہے۔آنکھوں سے چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھا جاسکتا ہے اورنہ عیدمنائی جاسکتی ہے۔اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ ”روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر چھپ جائے (ابر کی وجہ سے دکھائی نہ دے) تو حساب لگا لو (یعنی تیس دن پورے کرلو)۔“ (بخاری) ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ ”مہینہ انتیس راتوں کا ہے، اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو (شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔“(بخاری) یہ دونوں حدیثیں بخاری شریف کے علاوہ بھی حدیث کی دوسری مستند کتابوں میں موجود ہیں۔اس حدیث میں چاند کو دیکھنے کی بات کہی گئی ہے۔دیکھنا عرف عام میں نظروں اور آنکھوں سے ہوتا ہے۔اس لیے چاند دیکھنے کی بھر پور کوشش کیجیے۔ آج کل سوشل میڈیا عام ہے،پل پل کی خبریں پل بھر میں دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں۔چاند کے معاملے میں بعض لوگ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط خبر پھیلانے لگتے ہیں۔اس سے ہوشیاررہنا چاہئے۔ہوسکتا ہے کوئی غیر مسلم اپنی آئی ڈی بدل کر گمراہ کن خبر پھیلادے۔اس لیے چاند کے بارے میں سوشل میڈیا کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ اپنی بستی کے امام اور قاضی شہر کے اعلان کا اعتبار کریں۔ اگر کوئی شخص ایسی جگہ ہو،جہاں کوئی مسجد نہ ہو،اور مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے اسے چاند دکھائی نہ دیا تو ایسی صورت میں وہ اپنے عزیزوں سے فون کے ذریعے چاند ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں معلومات حاصل کرے گا۔یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر رواں مہینے کے تیس دن پورے کرے گا۔ہم جانتے ہیں کہ سیاچن،لداخ اور کشمیر کی سرحدوں پر برف باری کی وجہ سے ٹیلی مواصلات کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور مذکورہ صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ چاند دیکھنے کا اہتمام کیجیے۔چھوٹی چھوٹی سنتیں بھی ادا کیجیے۔اس میں اجر ہے،ہمیں اجر کی ضرورت ہے۔ہر سنت کو ادا کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔اس کی خوشی ہمارے لیے جنت کا سامان ہے۔ہم انسان ہیں،ہمارے اندر بشری کمزوریاں ہیں۔صبح سے شام تک نہ معلوم کتنے گناہ ہوتے ہیں۔اس لیے جب بھی ثواب حاصل کرنے اور اجر سمیٹنے کا موقع ملے ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔یہ اجر اکٹھا ہوکر ہمارے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ اللہ کی برکتیں اور رحمتیں اسی دل پر نازل ہوتی ہیں جو دل صاف ستھرا ہوتاہے،برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔جس طرح ہم کسی مہمان کے آنے پر اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کرتے ہیں،اللہ کا یہ مہمان ہمارے دل میں قیام کرے گا اس لیے ہمیں اپنے دل کی صفائی ستھرائی کرنی چاہئے۔دل کی گندگی کیا ہے؟ دل کی گندگی،ہمارے وہ گناہ ہیں جو ہم سے بھول چوک یا جان بوجھ کر ہوجاتے ہیں۔اس مبارک مہینے کے آنے پر ہمیں اپنے دل کو گناہوں سے پاک کرلینا چاہیے۔اس لیے کہ جس دل میں گندگی ہوتی ہے اس دل پر نہ اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،نہ وہ دل اس مبارک مہینے کے قیام کے قابل ہوتا ہے،اور نہ ہی اس مہینے کی برکتوں سے فیض یاب ہوسکتا ہے۔ آئیے ہم بھی اپنے دل کو اس قابل بنالیں کہ اللہ کا یہ مہمان ہمارے دل میں قیام کرسکے،اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہمارے دلوں پر نازل ہوسکیں،اور یہی تزکیہ ہے۔اللہ کے رسول ﷺ پر جب قرآن پاک نازل کیاگیا تو فرمایا گیا: ”وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اور بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔“ (الجمعہ۲) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کے تزکیہ کے بعد ہی اللہ کی آیات سے فائدہ ہوسکتا ہے،اس لیے کہ اس آیت میں اللہ کے نبی ﷺ کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ یہ رسول انھیں قرآن کی آیات سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے پھر انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ہمارے گھر ایک عورت دودھ دینے آیا کرتی تھی،ایک دن وہ دودھ پھٹ گیا یعنی خراب ہوگیا۔ دوسرے دن میری والدہ نے اس سے شکایت کی کہ تمہارا دودھ پھٹ گیا۔اس نے کہا میں تو تازہ دودھ لائی تھی،کیسے پھٹ گیا،تم نے اپنا برتن ٹھیک سے صاف نہیں کیا ہوگا اس لیے پھٹ گیا۔میں آج جب اس واقعہ پر غور کرتا ہوں کہ دودھ جیسی نفیس،عمدہ چیز جب یہ گوارانہیں کرتی کہ وہ جس برتن میں ہواس برتن میں ذرا سی بھی گندگی ہو تو اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں کیسے یہ گوارا کرسکتی ہیں کہ وہ کسی ناپاک،نجس،گناہوں سے آلودہ دل پرنازل ہوں۔ ہمیں اللہ کے سامنے رورو کرگڑگڑا کر یہ دعا کرنا چاہئے کہ اے اللہ ہمیں معاف کردے،ہمارے گناہوں کو بخش دے،ہمارے دلوں کو پاک کردے،ہم تجھ سے اپنے کیے کی معافی چاہتے ہیں،اے اللہ ہمارے دل کو اس قابل بنادے کہ تیرا مہمان اس میں قیام کرسکے۔ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ تیری نافرمانی نہیں کریں گے،ہمیشہ تیرا کہنا مانیں گے۔تیرے حکموں پر چلیں گے۔اسی لیے روزہ ہم پرفرض کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اندر تقوے کی صفت پیدا کریں۔اللہ کا ارشاد ہے۔ یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرۃ: ۳۸۱) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ اس کے سواکیا ہے کہ انسان اپنے آپ کو تمام سیئات سے،تمام گناہوں سے،تمام کوتاہیوں سے باز رکھے اور تمام نیکیاں بجالائے،ہر وہ نیک کام جو کرسکتا ہے وہ کرے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان المبارک سے پوری طرح فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں