نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی درجہ پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سمیت 7 ججوں کی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ 4-3 کے اکثریتی ووٹ سے سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یونیورسٹی کی اقلیتی حیثیت کا نئے سرے سے تعین کرنے کے لیے تین ججوں کی ایک بنچ تشکیل دی گئی ہے۔ اس فیصلے میں چیف جسٹس چندرچوڑ، جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس پاردیوالا نے ایک رائے اختیار کی، جبکہ جسٹس سری کانت، جسٹس دیپانکر دتہ، اور جسٹس ستیش چندر شرما نے مختلف رائے دی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے اور اس کا اقلیتی درجہ برقرار رہے گا۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) نے کہا کہ آرٹیکل 30 (اے) کے تحت کسی ادارے کو اقلیتی ادارہ قرار دینے کے معیارات کیا ہیں؟ آرٹیکل 19(6) کے تحت کسی بھی شہری کے ذریعہ قائم تعلیمی ادارے کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 30 کے تحت دیے گئے حقوق مکمل آزاد نہیں ہیں۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کو آرٹیکل 19(6) کے تحت ضابطہ بندی کی اجازت دی گئی ہے، بشرطیکہ اس سے ادارے کے اقلیتی کردار کی خلاف ورزی نہ ہو۔
چیف جسٹس نے مزید وضاحت کی کہ مذہبی کمیونٹی ایک ادارہ قائم کر سکتی ہے لیکن اس کا انتظام نہیں چلا سکتی۔ یہ بھی کہا گیا کہ مخصوص قوانین کے تحت قائم ہونے والے اداروں کو آرٹیکل 31 کے تحت تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
اس فیصلے کے تحت 1967 کے اس فیصلے کو بھی مسترد کر دیا گیا ہے جس میں اے ایم یو کو اقلیتی درجہ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ عدالت کے مطابق، اے ایم یو کی حیثیت ایک اقلیتی ادارے کے طور پر برقرار رکھنے کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں مدد فراہم کرنا ہے۔
یہ کیس کئی دہائیوں سے تنازعے کا شکار تھا اور 2005 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے رد کر دیا تھا۔ بعد میں 2006 میں، مرکز نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور 2019 میں اس کیس کو سات ججوں کی بنچ کو بھجوا دیا گیا۔