تحریر: حافِظ ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گزشتہ چند سالوں سے یعنی کہ جب سے بی جے پی سرکار آئی ہے خاص طور سے اترپردیش کی بی جے پی سرکار، شہروں اور یونیورسٹیوں کے ناموں کو بدلنے کی منفی سوچ بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، کہیں الٰہ آباد کو پریاگ راج بنایا جارہا ہے، کہیں فیض آباد کو ایودھیا، تو کہیں اردو بازار کو ھندی بازار، وغیرہ وغیرہ
اب ایک اور نام بدلنے کا بی جی پی کے رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم نے مطالبہ کیا ہے وہ یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے "مسلم" لفظ کو ہٹاکر صرف "علی گڑھ یونیورسٹی" رکھا جائے، انہوں نے "مسلم" لفظ کو سخت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم کے بنسبت "ھندو" لفظ نرم ہے، اور اس سے ایک عقیدت جڑی ہوئی ہے.
گوتم جی!
جیسے آپ کو "ھندو" لفظ سے عقیدت و محبت ہے ویسے ہی مسلمانوں کو "مسلم" لفظ سے عقیدت و محبت ہے، مسلمانوں نے ملک ھندوستان میں چھ سو سال تک حکومت کی، لیکن ان کا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت و عداوت کرو، اسلام تو پیار و محبت اور امن و شانتی کا پیغام دیتا ہے.
گوتم جی!
کیا لفظ مسلم اور ھندو کیساتھ عقیدت و محبت اور نفرت و عداوت سے دیش ترقی کرے گا؟، کیا شہروں اور یونیورسٹیز کے نام بدلنے سے دیش مضبوط ہوگا؟، کیا اردو بازار کا نام ھندی بازار رکھ دینے سے فرقہ پرستی کا بازار گرم نہیں ہوگا؟ نام بدلنے کے بعد کروڑوں اربوں روپیے اس کی درستگی میں لگ رہے ہیں کیا اس سے مہنگائی میں اور اضافہ نہیں ہوگا؟
گوتم جی آپ کہہ رہے ہیں کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ بھارت سرکار کے خلاف نعرہ لگا رہے ہیں، تو آپ بتائیں! ان کی مخالفت میں نعرہ نہیں لگائیں گے تو کیا پھولوں کی مالا پہنائیں گے، جبکہ دیش کے نوجوان گریجویٹ، ڈاکٹر، اور انجینئر وغیرہ وغیرہ بن کر در بدر بھٹک رہے ہیں، ان کو نوکری نہیں مل رہی ہے، ان کو پکوڑے تلنے کا مشورہ دیا جارہا ہے، ان کیساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، جب ملک میں کسی بھی یونیورسٹیز یا کالجز کے اسٹوڈینٹس کے ساتھ سرکار ناانصافی کرے گی تو وہ کوئی بھی سرکار ہو اس کیخلاف نعرہ بازی یقیناً ہوگی.
گوتم جی! بتائیے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں راجہ مہندر پرتاپ کا جنم دیوس کیوں منایا جائے؟ کیا راجہ مہندر پرتاپ جی نے اس کو تعمیر کیا تھا؟. علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ھندوستان کی ایک تاریخ ہے جسے سر سید احمد خان رحمہ اللہ نے تعمیر کیا تھا، تو اس میں جنم دیوس نہ آپ کا منایا جائے گا اور نہ آپ کے کہنے پر کسی اور کا ، بلکہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا ہی منایا جائے گا.
مسلمانوں یادرکھو!
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی ثقافت اور شناخت کی ایک اہم علامت ہے، اپنے وجود کے سو برس میں یہ اکثر سیاست کی زد میں رہی ہے، ماضی کی حکومتیں اسے ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کرتی آئی ہیں، لیکن آزادی کے بعد مودی حکومت پہلی مرکزی حکومت ہے جس نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلمانوں کا اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسلم شناخت بھی اس کے بانی کی طرح تاریخ کے صفحات میں کہیں گم نہ ہو جائے۔
جواب دیں